ColumnNasir Naqvi

لگ پتہ جائے گا کسے؟

ناصر نقوی
عمرانی دور حکومت ہمیں نیا پاکستان دے کر ریاست مدینہ میں لے جانے کا خواب دکھا کر شروع ہوا لیکن ہماری بدقسمتی کہ ہمارا خواب پورا نہیں ہو سکا۔ اس میں عمران خان کا کیا قصور؟ اگر ہم بدقسمت نہ ہوتے تو خان اعظم کے خلاف نہ امریکہ سازش کرتا نہ ہی اتحادی سہولت کار بنتے اور سلیکٹرز بھی اپنی برسوں کی محنت کے سامنے بے بس نہ ہوتے، بدقسمت عوام اپنے نصیبوں کو روتی رہ گئی۔ خوش قسمت عمران خان اور ان کے امپورٹڈ دوست بنے جو وزارت عظمیٰ سے وزراء اور مشیروں تک ہمیں ترقی، خوشحالی کے خواب دکھا کر ’’ موج میلہ‘‘ کرتے رہے۔ نئے نئے چہرے اور سمندر پار سے آنے والے وزیروں اور مشیروں کی فوج دیکھ کر ہم یہی سمجھتے رہے کہ’’ تبدیلی‘‘ آ گئی لیکن ساڑھے تین سال میں ہی کہانی نے نیا رخ اختیار کر لیا۔ ’’تبدیلی اور احتساب‘‘ کے چکر میں پکڑے جانے والے چور اور ڈاکو نہ صرف آزاد ہو گئے بلکہ منتخب عمرانی حکومت کا تحریک اعتماد سے ’’دھڑن تختہ‘‘ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ قوم ہکا بکا رہ گئی کہ یہ کیا ہوا؟ انہیں تسلی دی گئی کہ پہلی مرتبہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں اکثریت کو اقلیت ثابت کر کے آئینی طور پر اقتدار بدلا ہے۔ اس سے حقیقی جمہوری روایات قائم ہوں گی اور مہنگائی سے پریشان حال قوم کو سکون ملے گا لیکن 16ماہ کی حکومت میں یہ وعدہ پورا نہیں ہو سکا۔ ریلیف اور سہولت کیا ملنی تھی، مشکلات میں اضافہ ہو گیا، مہنگائی کا جن بے قابو ہو گیا۔ زندگی اجیرن ہو گئی۔ سانس گھٹنے لگا، پیٹ پوجا کے لیے دو وقت کی روٹی مشکل سے مشکل ترین ہو گئی۔ پھر مرشد خان اعظم کی یاد آئی کہ وہ بالکل درست کہتا تھا کہ سکون صرف قبر میں ملے گا۔ مرشد نے عملی کارروائی، تجربے اور مشاہدات سے اپنا فرمان ثابت کر دیا کہ اسے نہ تو ایوان اقتدار میں سکون ملا، نہ ہی اقتدار چھوڑ کر پھر دنیا سے دور جیل لے جایا گیا تو وہاں بھی اسے سکون سے ترسایا گیا۔ بھلا ہو اس کے وکلاء کا کہ انہوں نے عدالتوں کے ذریعے سکون کے چند لمحات کی خاطر ’’اٹک‘‘ جیل میں سہولیات بحال کرائیں لیکن حاسدوں اور مرشد دشمنوں کو ٹھنڈ نہیں پڑی اور مرشد کو انکار کے باوجود ’’اڈیالہ‘‘ جیل پہنچا دیا گیا جہاں ’’اٹک‘‘ جیسی سہولتیں بھی میسر نہیں آئیں۔ مرشد تو مرشد ہوتا ہے وہ ’’درست‘‘ کہتا ہے کہ سکون صرف قبر میں ملتا ہے۔ دیکھیں نا، بنی گالہ، زمان پارک، اٹک اور اب اڈیالہ کہیں تو اسے سکون نہیں مل سکا؟ یہ بات سب جانتے ہیں بلکہ مرشد سب پر واضح کر چکے ہیں کہ ان کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے انہیں کچھ نہیں چاہیے۔ وہ ’’اٹک‘‘ کے بدترین حالات میں ایڈجسٹ ہو گئے تھے۔ اب چند دنوں نہیں تو مہینوں میں اڈیالہ میں ’’ایڈجسٹ‘‘ ہو جائیں گے وہ پرعزم اور باہمت ہیں۔ سیاست کے لیے قیدنہیں کاٹ رہے، ’’مشن‘‘ حقیقی آزادی میں قوم اور ریاست کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں، ثابت قدم ہیں اور اسی طرح اپنے اصولی موقف پر کھڑے رہیں گے۔ ان کا پیغام ہے کہ قوم بھی ان کے ہمقدم ہو جائے ورنہ حقیقی آزادی کے بجائے ’’غلامی‘‘ مقدر بن جائے گا لیکن قوم کیا کرے کہ ایک اور بدقسمتی منہ چڑا رہی ہی کہ قیادت پکڑ ی گئی، ظالم انہیں چھوڑ نہیں رہے کچھ ملک چھوڑ گئے باقی جو بچے وہ پارٹی چھوڑ گئے، باقی بچے کارکن پرعزم پرستار مرشد تو انہیں کوئی گائیڈ کرنے والا ہی نہیں، بغیر رہنمائوں کے نکلے تو خدشہ ہے کہ 9مئی کی طرح پھر کوئی ’’مس گائیڈ‘‘نہ کر دے، لہٰذا مرشد کے مریدوں کا یہ ایمان ہے کہ حق عمران ہے اور جونہی وہ باہر آئے گا لگ پتہ جائے گا، حالات میں خاصا ابہام پایا جاتا ہے اس لیے یہ ذمہ داری سے نہیں کہا جا سکتا کہ’’ کسے؟‘‘۔
دوسری کہانی متوالوں کی ہے پوری مسلم لیگ ن اور مسلم لیگی قیادت کہہ رہی ہے کہ ’’میاں جب آئے گا تو لگ پتہ جائے گا‘‘ وہ بھی یہ نہیں بتا رہے کہ کسے؟ سابق ریکارڈ ہولڈر وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک پر ایک دھواں دار تقریر میں سابق سپہ سالار جنرل (ر) باجوہ، جنرل (ر) فیض حمید، جسٹس (ر) ثاقب نثار، جسٹس (ر) آصف سعید کھوسہ، جسٹس (ر) عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر کے پیغام دے دیا تھا کہ ان کی آمد سے کس کو لگ پتہ جائے گا، پنجاب میں بڑھک اور گنڈاسہ کلچر ہے اس لیے سیاسی حلقوں میں ’’نواز شریف‘‘ کی بڑھک اور مطالبے کی بڑی پذیرائی ہوئی، انہیں میدان سیاست کا سپر سٹار ’’سلطان راہی‘‘ قرار دیا گیا لیکن ابھی متوالے صحیح معنوں میں جشن بھی نہیں منا پائے تھے کہ سابق وزیراعظم کو گوجرانوالہ طلب کر کے ایسا ٹیکہ لگایا گیا کہ وہ نہ صرف الٹے پائو ں لاہور پہنچ گئے بلکہ فوراً لندن لوٹ گئے۔ اس ساری کارروائی میں جنہوں نے عوامی مقبولیت کے لیے نعرہ لگایا تھا کہ ’’میاں جدوں آئے گا لگ پتہ جائے گا‘‘ انہیں کچھ پتہ لگا کہ نہیں، ’’شریف برادران‘‘ کو یہ ضرور پتہ لگ گیا کہ یہ ’’بیانیہ‘‘ نہیں چلے گا؟ لہٰذا انہوں نے بھی عمرانی فارمولے پر کاربند ہوتے ہوتے ’’یوٹرن‘‘ لینے میں تاخیر اس لیے نہیں کی کہ لاہور میں مفاہمت کے بادشاہ زرداری نے ڈیرہ ڈال رکھا تھا، اسی خوف میں یا ردعمل میں شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے اپنے قائد نواز شریف کو مفاہمت پر منا لیا، نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ نواز شریف اپنے مزاحمتی بیانیہ سے دستبردار ہو گئے اور انہوں نے ایک مرتبہ پھر ملک و قوم کو نقصان پہنچانے والوں کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا۔
اب لگ پتہ گیا، سابق مفاہمتی صدر پاکستان آصف علی زرداری کو کہ مدمقابل اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کے ماہر نواز شریف نے بھی مفاہمتی حکمت عملی اختیار کر لی ہے تو آصف زرداری نے ایسے مسکراتے ہوئے آنکھوں ہی آنکھوں میں جواب دیا جیسے کہہ رہے ہوں ’’یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں‘‘۔۔۔۔۔ آصف زرداری موجودہ دور کے زیرک سیاستدان ہیں تمام سیاسی قائدین سے ہمیشہ راہ و رسم بھی رکھتے ہیں جب پی ڈی ایم میں تھے تو تب بھی ان کی سنی جاتی تھی اور باہر ہوگئے تب بھی ان ہی کی سنی گئی،عمران خان کے خلاف آئینی اور پارلیمانی حق عدم اعتماد ان کے مشورے پر ہی استعمال کیا گیا ورنہ سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان تو اسمبلیوں سے استعفے دینے کے قائل تھے یعنی کسی اتحاد میں ہوں یا نہ ہوں آصف زرداری کی اپنی ایک منفرد حیثیت ہے۔ نواز شریف تو پاکستانی سیاست کے’’ بھولے بادشاہ‘‘ ہیں، اسی لیے وہ تین مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد بآسانی نکالے گئے۔ زرداری صاحب نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے دو بار خاتمے سے سبق سیکھ لیا تھا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام محض سیاسی من پسند نعرہ ہے ورنہ حقیقت یہی ہے کہ طاقت کا سرچشمہ جو ہیں ان سے اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں یہی وجہ تھی کہ سیاست میںشہادت بے نظیر بھٹو کے بعد آ کر بھی انہوں نے ’’پیپلز پارٹی‘‘ کے پانچ سالہ اقتدار سے جمہوریت اور جمہوری اقدار کو پروان چڑھایا۔ اسی فارمولے میں مسلم لیگ ن نے دوسرے جمہوری دور میں نواز شریف کی فراغت کے بعد آءینی مدت پوری کی اور عمرانی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی اسمبلی نے پانچ سال پورے کئے، موجودہ سیاسی بحران کا بھی تقاضْا ہے کہ طاقت کے حقیقی سرچشمے سے تعلقات مثالی بنا کر آگے چلا جائے، ابھی چند ماہ پہلے تک زرداری صاحب کامیاب تھے لیکن ’’پیار‘‘ تو دوطرفہ کامیاب ہوتا ہے دوسرے فریق نے بھی تو بہت کچھ سیکھا ہے کیونکہ انکے ہاتھوں سے بننے والے شاہکار نے بھی انہیں چیلنج کر دیا، اس لیے میدان سیاست کے شہسواروں میں سے ان کا انتخاب بھی وہی ہو گا جہاں سیاسی بیماریاں کم اور اقتدار کی خواہش زیادہ ہو، عام لوگوںاور مبصرین کو تو یہ بات یاد ہے کہ جب ماضی میں طاقتوروں نے ایک تاثر قائم کر کے سیاسی ہوا کا اندازہ کیا تھا تو نعرہ تھا’’ نہ بی بی، نہ بابو‘‘ لیکن الیکشن نتائج میں ’’بابو‘‘ بھاری مینڈیٹ سے ابھر کر سامنے آ گیا بلکہ پورے اقتدار میں ’’بھاری مینڈیٹ‘‘ پر فخر بھی کرتا رہا پھر بھی جب زبردستی کے صدر پرویز مشرف نے حکومت کو چلتا کیا تو کوئی احتجاج ، دھرنا، جلائو گھیرائو نہیں ہوا تھا۔ حالات سے نواز شریف اور میاں شریف خاندان کو بہت کچھ پتہ لگ گیا لیکن ’’سیاسی عقل‘‘ کے گھاٹے نے انہیں کچھ سیکھنے نہیں دیا، جبکہ ذمہ داروں نے بی بی کے مدمقابل ’’بابو‘‘ کا فیصلہ ہی اسی لیے کیا تھا کہ اگر ’’بابو جی‘‘ بہکے تو انہیں بی بی کے مقابلے میں آسانی سے قابو کیا جا سکے گا’’ لمحہ موجود‘‘ میں بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہورہا ہے کہ زرداری سے پینگیں بڑھا کر راستہ اسی لیے بدلا گیا ہے کہ ’’بھولے بادشاہ‘‘ چالاک زرداری کے مقابلے میں کم رسک ہو گا۔ متوالے اپنے قائد سے نازاں ہیں اس لیے نعرے لگا رہے ہیں کہ ’’میاں آئے گا تے لگ پتہ جائے گا‘‘ جبکہ قائد تو ایک جارحانہ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ دینے پر ہی قابو کر لیے گئے کیونکہ ذمہ داروں نے بھانپ لیا کہ فوراً ری ایکشن نہ دیا تو ’’لگ پتہ جائے گا‘‘ پھر بھی اقتدار کی خواہش میں ’’میاں صاحب‘‘ کو یہ پتہ نہیں لگ سکا کہ اگر فرینڈلی میچ ایمپائرز سے مل کر کھیلا گیا ہوتو نتائج ماضی کے تین اقتداروں سے مختلف نہیں ہو گا، ان کا بیانیہ بدلنے میں مقتدر حلقوں کے پیارے شہباز شریف نے اسحاق ڈار کی مشاورت سے اہم کردار ادا کیا اور انہیں یقین دہانی کرائی کہ اقتدار کی سیج سج چکی ہے ، وطن واپس آئیں تخت اقتدار پر براجمان ہو جائیں لیکن نگران وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے پیغام دے دیا کہ اگر ریلیف عدالتوں سے نہ مل سکا تو لگ پتہ جائے گا۔ پھر بھی ’’تھپکی‘‘ نے مسلم لیگ ن کو دوبارہ زندہ کر دیا اور نواز شریف نے فتوحات کا سلسلہ سندھ تک بڑھانے کا فیصلہ کر لیا، ’’میثاق جمہوریت‘‘ کو بالائے طاق رکھ دیا لہٰذا آصف زرداری نے بھی چیلنج قبول کر کے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں سیاسی شطرنج بچھا لی ہے اس طرح الیکشن کی تاریخ آنے سے پہلے ہی دو بڑے سیاسی پہلوان آمنے سامنے آ چکے ہیں کس کو کس پر برتری حاصل ہو گی یہ فیصلہ تو وقت ہی کرے گا لیکن اگر اس سیاسی کشمکش میں کسی تیسرے فریق نے ’’سیز فائر‘‘ نہ کرایا تو دونوں کو لگ پتہ جائے گا؟‘‘ اور فائدہ اسی کو ہو گا جس نے کھیل کے لیے اپنی نگرانی میں وکٹ بنوائی ہے۔ مسلم لیگ ن اور مریم نواز کچھ زیادہ ہی خوش فہمی کا شکار ہیں کہ نواز شریف کی واپسی ملکی خوشحالی کی واپسی ہے۔ نواز شریف معیشت بحال، دہشت گردی ختم کریں گے، ملک کو مسائل سے نکالنے کا ایجنڈا تیار ہے۔ مریم نواز کا دعویٰ ہے کہ ایک لیڈر پر مشکل آئی تو جماعت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی اور اللہ پر معاملہ چھوڑنے والا لیڈر مشکلات برداشت کرنے کے بعد ابھی واپس نہیں آیا پھر بھی ہر طرف سے آواز آ رہی ہے کہ ’’چوتھی واری فیر وزیراعظم‘‘ لیکن حقائق بتا رہے ہیں کہ معاملات سنگین ہیں، میاں آئے گا تو لگ پتہ جائے گا کسے؟ یہ فیصلہ بھی حالات اور وقت نے ہی کرنا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button