ColumnRoshan Lal

نریندر مودی کی خطرناک انتخابی مہم

روشن لعل
بھارت کی موجودہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی میں پندرہ برس پہلے تک لال کرشن ایڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کے سامنے نریندر مودی کی کوئی حیثیت نہیں ہوا کرتی تھی۔ بی جے پی میں اگر کسی کو ا یڈوانی اور جوشی سے برتر سمجھا جاتا تھا وہ اٹل بہاری واجپائی تھے۔ یہ بات کسی کے گمان میں بھی نہیں تھی کہ ایڈوانی اور جوشی کی موجودگی میں مودی کو ان سے بھی بڑا لیڈر مان لیا جائے گا۔ ایڈوانی اور جوشی نے ایودھیا میں رام مندر بنانے اور بابری مسجد منہدم کرنے کی مہم شروع کر کے بھارتی ہندوئوں میں مقبولیت حاصل کی تھی۔ ان دونوں کی نسبت نریندر مودی کے زیادہ مقبول ہونے میں گودرا کے ٹرین حادثہ کے بعد گجرات میں کی گئی مسلمانوں کی قتل و غارت گری نے اہم کردار ادا کیا ۔ گو کہ بھارت کے کارپوریٹ میڈیا نے مودی کی وزارت اعلیٰ کے دوران گجرات میں ہونے والی معاشی ترقی کو بھی ان کا پروفائل بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا مگر انہیں بھارتی ہندوئوں کا ہر دلعزیز لیڈر بنانے کی بنیاد گجرات میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے فسادات نے رکھی۔ مسلمانوں کے خلاف ادا کیے گئے نریندر مودی کے کردار کی وجہ سے بی جے پی نے اپنی 2014کی انتخابی مہم سے پہلے ہی یہ اعلان کر دیا تھا کہ وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے وہی ان کے امیدوار ہونگے۔ یوں بی جے پی نے نریندر مودی کی مخصوص وجہ شہرت کی بدولت2014کے انتخابات میں بی جے پی اور ہم خیال جماعتوں کے اتحاد نے لوک سبھا کی 336نشستیں حاصل کیں جن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ذاتی 282سیٹیں تھیں۔ یوں نریندر مودی کی سرکردگی میں بھارتی جنتا پارٹی نے بھارت میں پہلی مرتبہ ایسی حکومت بنائی جو سادہ اکثریت حاصل ہونے کی بدولت اپنے اتحادیوں کے حمایت کے بغیر بھی قائم کی جاسکتی تھی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ2014 کے الیکشن کے بعد بننے والی مودی حکومت کے دور ان بھارت میں ہونے والی معاشی ترقی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ووٹروں کو اس کے ساتھ جوڑے رکھنے میں اہم کردار ادا کیا مگر ان ووٹروں کے ہندو توا کے نعروں کی طرف مائل رجحان کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نے اپنی 2019کی انتخابی مہم کے لیے بھی ایسے ایشوز اور نعروں کا انتخاب کیا جس سے اس کے ووٹروں میں موجود ہندو بنیاد پرستی کے جذبات کو ابھارا جاسکے ۔ 2014 کے الیکشن میں اگر بی جے پی اور مودی کا ٹارگٹ مسلمان تھے تو2019کے انتخابات کے دوران انہوں نے مسلمانوں کے مذہب اور جہاد کو اپنا ہدف بنا کر ہندوئوں کے اکثریتی ووٹ حاصل کیے۔ 2019کی انتخابی مہم کے دوران پلوامہ واقعہ کو انتخابی مہم کے دوران جہاد ی کارروائیوں کے ساتھ جوڑ کر عام ہندو ووٹروں کی حمایت اور ہمدردیاں بٹوری گئیں۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جب پلوامہ واقعہ رونما ہوا اس وقت کشمیر کے گورنر رہنے والے ستیہ پال ملک نے گزشتہ دنوں کچھ ایسے انکشافات کیے، جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مودی حکومت نے پلوامہ واقعہ سے متعلق کچھ اس قسم کے جھوٹ گھڑے جن سے بی جے پی کو انتخابات میں فائدہ حاصل ہو سکے۔ اس قسم کی حکمت عملیوں کے تحت چلائی گئی انتخابی مہم کی بدولت 2019کے الیکشن میں بی جے پی نے 303نشستیں حاصل کیں جو اس کی سابقہ الیکشن میں جیتی ہوئی سیٹوں سے 21زیادہ تھیں۔
2019 کے بھارتی الیکشن اپریل ، مئی کے مہینوں میں منعقد ہوئے جبکہ پلوامہ واقعہ 14فروری 2019کو ہوا تھا۔ بھارت کی 18ویں لوک سبھا کے لیے الیکشن اپریل ، مئی 2024میں منعقد ہونگے ، اس الیکشن کا وقت پہلے سے متعین ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بھارت میں بھی کچھ حلقے یہ امکان ظاہر کر رہے تھے کہ پلوامہ جیسا کوئی ایسا نیا واقعہ رونما ہو سکتا ہے جسے بی جے پی حسب سابق اپنی انتخابی مہم کے دوران ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرے۔ پلوامہ جیسا کوئی واقعہ تو اب تک رونما نہیں ہوا مگر کینیڈا میں خالصتان تحریک سے تعلق رکھنے والے ہردیپ سنگھ نجر کے مبینہ طور پر بھارتی ایجنسیوں کے ہاتھوں قتل کے بعد مودی اور کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے درمیان بیان بازی اور کشمکش شروع ہوئی اور خالصتان کا مسئلہ ایک نئے رنگ میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا ، ایسا ہونے کے بعد اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی اس مرتبہ پاکستان کی بجائے کینیڈا اور جسٹن ٹروڈو کی پالیسیوں کو ٹارگٹ بناتے ہوئے خالصتان کے مسئلہ کو پلوامہ واقعہ کی طرح بھارت کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے کر اپنی انتخابی مہم کے دوران ہتھیار کے طور پر استعمال کرے گی۔
خالصتان تحریک سے تعلق رکھنے والا ہردیپ سنگھ نجر جو کینیڈین شہری بن چکا تھا کو وسط جون میں سرعام قتل کیا گیا۔ تقریباً تین ماہ بعد کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھارتی ایجنسیوں اور سفارتخانے پر اس قتل کا الزام عائد کیا۔ اس الزام کی بنیاد صرف کینیڈا کی اپنی ایجنسیوں کی تفتیش نہیں بلکہ امریکہ ، کینیڈا، نیوزی لینڈ، برطانیہ اور آسٹریلیا کی مشترکہ انٹیلی جنس ایجنسی فائیو آئیز کی رپورٹ بھی بنی۔ فائیو آئیز کی رپورٹ کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھارت حکومت اپنی صفائی پیش کرتے ہوئی مسئلے کو افہام و تفہیم کے ساتھ نمٹانے کی کوشش کرتی مگر ایسا کرنے کی بجائے بھارت نے کینیڈا کے ساتھ بھی اسی طرح کی محاذ آرائی شروع کردی جس طرح وہ اکثر پاکستان کے ساتھ جاری رکھتا ہے ۔ کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹرووڈو نے بھارت پر اپنے شہری ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کا جو الزام عائد کیا اس کی سب سے زیادہ حمایت امریکہ نے کی ہے۔ بھارت نے اس سلسلہ میں کینیڈا اور امریکہ کی طلب کردہ وضاحتوں کا مناسب جواب دینے کی بجائے کینیڈین وزیراعظم پر یہ الزام لگا دیا کہ وہ خالصتان کے قیام کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ اسی تسلسل میں بی جے پی کے سیاستدانوں کی طرف سے بغیر سوچے سمجھے کینیڈا کو یہ دھمکی دی گئی کہ اگر جسٹن ٹروڈو نے خالصتان تحریک کی حمایت جاری رکھی تو وہ بھی کینیڈین صوبے کیوبیک کے علیحدگی پسندوں کا ساتھ دینا شروع کر دیں گے۔ اس طرح کی باتیں بی جے پی سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں نے تو ذاتی طور پر کیں مگر اب بھارتی حکومت نے سرکاری سطح پر کینیڈا کو یہ کہا ہے کہ 10اکتوبر تک بھارت سے اپنے 40سفارتکار واپس بلا لے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو دی ہوئی تاریخ کے بعد ان سفارتکاروں کو حاصل سفارتی استثنیٰ واپس لے لیا جائے گا۔ بھارتی حکومت کے اس رویے کو دیکھ کر ہی بھارت کے اندر اور باہر یہ باتیں کی جانے لگی ہیں کہ مودی سرکار اور بھارتیہ جنتا پارٹی اس مرتبہ جسٹن ٹروڈو اور خالصتان کے مسئلہ کو ہدف تنقید بنا کر انتخابی مہم کے دوران اسی طرح کا فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گی جس طرح کا فائدہ وہ سابقہ انتخابات میں پاکستان پر تنقید کر کے حاصل کرتے رہے ۔ مودی کی یہ حرکت انہیں وقتی سیاسی فائدہ تو دے سکتی ہے مگر بھارت کے مجموعی مفاد کے لیے یہ رویہ انتہائی خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button