ColumnTajamul Hussain Hashmi

ممکن کے لیے اور کتنے سال

تجمل حسین ہاشمی
ہندوستان میں ایک ہی لیڈر قائد اعظم محمد علی جناحؒ پیدا ہوا، جس نے اکثریتی آبادی رکھنے والے ملک ہندوستان سے آزادی حاصل کر کے ثابت کیا کہ لیڈر کی سچائی اور ایمانداری ہی کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے، جس آزادی کی بنیاد کلمہ ہو پھر خدائی مدد یقینی ہے۔ قوم کے محسن قائد اعظم محمد علی جناحؒ زندگی کے 71سال گزار کر اللہ پاک کو پیارے ہو گئے۔ زندگی اور موت کا علم صرف رب کریم کو ہی ہے کہ کون کب دنیا سے چلا جائے گا ۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی محنت اور ایمانداری، سچی لگن نی ثابت کیا کہ لیڈر قوم کی قسمت ضرور بدل سکتا ہے، شرط یہ ہے کہ وہ اپنی قوم کے ساتھ مخلص ہو۔ اس وقت جو لیڈر خود کو پاکستانی سیاست کا سپر سٹار کہتے ہیں، معاشی آزادی کا نعرہ لگا رہے ہیں کیا ان میں جناحؒ جیسی ایک بھی خوبی ہے، کیا یہ مشکلات میں پھنسی قوم کو بچا سکتے ہیں۔ کیا یہ پاکستان کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ قوم کو ان کے نعرے اور جھوٹے بیانیہ کو سمجھ کر ہی فیصلہ کرنا ہوگا۔ برطانوی کیبنٹ مشن آزادی ہند کی گتھی سلجھانے کے لیے مارچ 1946میں ہندوستان آیا، مشن میں لارڈ پیتھک لار نس، سر سٹیفوڈ کرپس اور مسٹر اے وی ایگئزینڑر شامل تھے۔ لارڈ پیتھک لارنس گاندھی جی کی مہا تمائی کے اسیر تھے، ان دونوں کا آپس میں گرو اور چیلے کا سا تعلق تھا۔ پنڈت نہرو کے ساتھ تیز طرار سر سٹیفورڈ کرپس کے گہرے مراسم تھے۔ مشن کی اہم دستاویزات پنڈت نہرو اور گاندھی جی کے خفیہ مشورے کے بعد مرتب کی جاتی تھیں، اس ملی بھگت کے مقابلہ میں قائد اعظمؒ کی ذات یکا و تنہا تھی۔ ان کا واحد ہتھیار ان کا کردار تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو کوئی لالچ نہیں خرید سکا۔ آج جناب کی محنت ، ایمانداری اور سیاسی بصیرت سے پاکستان آزاد ہے اور دشمن کو کئی بار ثابت کیا کہ ہم مضبوط دفاع رکھتے ہیں۔ ان 76سالوں کے ابتدائی 25سالوں میں ایسی وفا اور قربانیاں تاریخی حصہ ہیں جہاں ملک کی سلامتی اور خوش حالی کے لیے دن رات محنت کر کے ثابت کیا گیا کہ پاکستان آباد شاداب رہے گا، آج جو خود کو لیڈر سمجھ رہے ہیں ان قائدین کی عمریں بھی 70کے قریب یا زیادہ ہیں، حکمرانی ایک بار نہیں کئی بار کر چکے ہیں ، ملکی معیشت جوں کی توں وہاں کھڑی ہے، لیکن ان کی اولادوں کی دولت اور غیر ملکی محلات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہے، قوم کے بنیادی مسائل وہیں کھڑے ہیں، ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اربوں ڈالر ملک سے باہر بھجے گئے ، اجناس کو سمگل کیا جاتا رہا، ان ذخیرہ اندوزوں، سمگلروں کی پشت پناہی میں کون ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اپنی زندگی کے 71سال میں ایک آزاد ریاست کے قیام کو یقینی بنایا اور آج اس ریاست کے آزاد شہری ہیں اپنے ہی وطن کے مخالف کام کر رہے ہیں ، ان جمہوری سیاسی لیڈروں کو ریاست نے گھر سے لے کر سفر اور فیملی سے لے کر خاندان تک ہر سہولت دی ہے، اربوں روپے سرکاری دوروں پر خرچ کئے جاتے ہیں لیکن ان اربوں روپے کے بدلے میں محصولات میں کوئی اضافہ نظر نہیں آتا، ایکسپورٹ کے اعداد و شمار وہی کھڑے ہیں۔ اوور سیز پاکستانیوں کے لیے کوئی پلاننگ نظر نہیں ہے، پاکستانی قائدین کی تمام سیاست کا محور صرف دو نقاط پر کھڑا ہے، اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنانا۔ تنقید کے بغیر ان کا گزارہ نہیں، دوسرے اپنے سیاسی حریف پر الزامات اور مقدمات قائم کرنا۔ ان حربوں کے بغیر ان کی سیاست مکمل نہیں ہوتی۔ میڈیا پر چلنے والی خبروں کے مطابق میاں نواز شریف نے اپنے بیانیہ اور تقریر کے لیے مشاورت شروع کر دی ہے، سینیٹر اور نامہ نگار کو بھی لندن حاضری کا آرڈر مل گیا ہے تاکہ وہ 21اکتوبر کو کی جانے والی تقریر کو لکھنے کی شروعات کریں۔ قوم کو ہر دفعہ تقریریں سنا کر اسمبلیوں میں بیٹھے اور پھر کیا ہوا سب کے سامنے ہے۔ کیا اس دفعہ مسلم لیگ ن ملک کو در پیش مسائل کا حل کر سکے گی۔ مریم نواز کا کہنا ہے کہ 21اکتوبر کو خوشحالی آ رہی ہے۔ لیکن عوام ان 17ماہ کی کارکردگی کو کیسے بھول سکتے ہیں جو کہ انتہائی مایوس کن رہی اور ماضی کے تینوں بار لوٹ مار کے الزامات کو کیسے صاف کیا جائے گا۔ کئی مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی اکیلی ذات نے الگ ریاست حاصل کی لیکن ہمارے سیاسی لیڈر ملک کی معاشی سمت کو سیدھا نہ کر سکے، خود کو ارب پتی کہنے والوں کے کارنامے قوم کے سامنے ہیں ، ان کی حکمرانی میں اربوں روپے کے فراڈ منظر عام ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت نے بلاول بھٹو زرداری کو مکمل طور پر فیصلوں کا اختیار دیا ہوا ہے، آئندہ ہونے والے الیکشن میں بلاول وزیر اعظم کے لیے تیار ہے لیکن مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت ابھی تک نواز شریف سے قیادت کی منتقلی میں پھنسی ہوئی ہے، پاکستان تحریک انصاف نے عوام نیا بیانیہ دیا لیکن 9مئی کے واقعات کے بعد قوم کو ایسے بیانیہ کی ضرورت نہیں جس میں قوم اور اعلیٰ اداروں میں تقسیم پیدا کرنا مقصود ہو۔ حساس مقامات کی حفاظت قوم کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے، سیاسی جماعتوں کو بھی ایسے بیانیہ سے دور رہنا ہو گا جس میں اعلیٰ اداروں کے تقدس کی پامالی ہو ، قانون کا احترام سب پر لازم ہے۔ سپریم کورٹ کے سامنے نعرے اور شلواریں نہیں ہونی چاہئیں۔ کیا مسلم لیگ ن اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کے بغیر بیانیہ بنائے گی۔ پیپلز پارٹی کے پاس کون سا بیانیہ ہو گا، کیا ساری جماعتیں 9مئی حملوں کو بنیاد بنا کر الیکشن لڑیں گی یا ان کی پاس معاشی صورتحال کو بہتر بنانے یا ماضی کی کارکردگی عوام کے سامنے رکھیں گے، ماضی میں کیے گئے معاشی فیصلے اس وقت درد سر بنے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ بات انتہائی اہم ہے کہ نگران حکومت کی طرف سے غیر قانونی کاروبار کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں سے حالات تبدیل ہو جائیں گے لیکن ایسی کارروائیوں کا تسلسل سے جاری رہنا بہت ضروری ہے، الیکشن کے بعد منتخب حکومت کو بھی ان کارروائیوں کو سیاسی مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہئے ۔ فری اینڈ فیئر الیکشن کے لیے غیر ملکی مبصرین کو الیکشن کمیشن کی طرف سے دعوت دئیے جانے کی خبریں ہیں۔ الیکشن کی شفافیت کو یقینی بنانا نگران حکومت کی اہم ترین ذمہ داری ہے ، دیکھتے ہیں کہ آزمائے ہوئے پرانے تجربہ کار اب عوام کے لیے کیا نیا معاشی پلان دیتے ہیں، ابھی الیکشن باقی ہیں لیکن میڈیا پر مسلم لیگ ن کی طرف سے نواز شریف آمد کو نجات دہندہ قرار دیا جا رہا ہے ، ابھی وقت باقی ہے ، ماضی کے 76سال میں 40سال سے ان دو بری جماعتوں کے گرد گھوم رہے ہیں، دیکھتے ہیں کیا اب کیا ممکن ہوتا ہے، کئی مسائل میں گھری قوم کو کون معاشی آزادی اور روزگار دے گا، جو دے گا وہی سکندر ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button