ColumnRoshan Lal

مستونگ تا ہنگو براستہ سکرنڈ

تحریر : روشن لعل
تہوار چاہے مذہبی ہو یا ثقافتی اسے منانے کی گہما گہمی ارد گرد ماحول میں ایسے نظر آتی ہے جیسے ہر کوئی اس کا حصہ بنا ہوا ہو۔ عید میلادالنبی کے روز باہر موجود گہما گہمی گھروں کے اندر بھی واضح طور پر محسوس ہو رہی تھی۔ یہ احساس اس وقت مدھم پڑ گیا جب سکرنڈ میں سیکیورٹی ایجنسیوں کی فائرنگ سے لوگوں کی ہلاکت پر ہونے والے تبصرے سوشل میڈیا کی تقریباً ہر پوسٹ میں نظر آنے لگے۔ ان تبصروں میں زیادہ تر یہ کہا تھا کہ سکرنڈ میں جو کچھ ہوا وہ کسی طرح بھی غیر معمولی واقعہ نہیں ہے مگر اس کی باوجود مین سٹریم میڈیا اس واقعہ کو اپنی نشریات کا حصہ بنانے کی بجائے مکمل خاموش کیوں ہے۔ سکرنڈ واقعہ پر میڈیا کی پراسرار خاموشی پر بحث ابھی جاری تھی کہ ٹی وی چینلوں نے پہلے مستونگ اور پھر ہنگو میں ہونیوالے خود کش دھماکوں کی خبریں نشر کرنا شروع کر دیں۔ سکرنڈ میں فائرنگ کا واقعہ گو کہ 28ستمبر کو ہوا مگر مین سٹریم میڈیا کی خاموشی کے باوجود 29ستمبر کو عید میلادالنبی والے دن اس واقعہ کی خبر پورے ملک میں پھیل گئی ، اسی روز مستونگ اور ہنگو میں ہونے والے خود کش دھماکوں کی خبریں سامنے آنے کے بعد عید میلادالنبی کی تہوار کی جو خاص کیفیت تھی وہ غم اور افسوس کے احساس میں تبدیل ہونا شروع ہو گئی۔
خود کش دھماکوں کی وجہ سے جو غم ، افسوس اور خوف کا احساس پیدا ہوتا ہے اس کا طاری ہونا چند برس پہلے تک یہاں کا معمول تھا۔ وہ وقت کیسے بھلایا جاسکتا ہے جب بڑی مشکل سے کوئی ایسا دن دیکھنے کو ملتا تھا جس میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما نہ ہوا ہو۔ خود کش حملہ آوروں کی دہشت گردی سے عوام کے تنگ آنے اور دہشت گردوں کو اپنا ناراض بھائی کہنے والوں کی باتوں سے پوری دنیا کی نفرت سامنے آنے کے بعد جب ہماری ریاست نے دہشت گردی کے خلاف دو ٹوک ایکشن لینے کا فیصلہ کیا تو اس کے بعد یہاں رد الفساد اور ضرب عضب جیسے آپریشن شروع کیے گئے۔ ان آپریشنوں کے نتیجے میں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ تو نہ ہو سکا مگر جن دہشت گرد جن کے متعلق یہ خوف پیدا کر کے ایکشن لینے سے احتراز کیا جاتا تھا کہ وہ جوابی کارروائی کرتے ہوئے پورے ملک کو میدان جنگ بنا دیں گے وہ ہماری سیکیورٹی فورسز کے دلجمعی سے کیے گئے آپریشنوں کے سامنے کہیں بھی نہ ٹھہر سکے۔ جن دہشت گردوں کو یہاں ناقابل تسخیر بنا کر پیش کیا جاتا تھا ان دہشت گردوں کو جب ہماری سیکیورٹی فورسز نے ان کی کمین گاہوں میں گھس کر مارا تو صرف اندرونی طور پر ہی نہیں بلکہ بیرونی دنیا کی طرف سے بھی ہماری سیکیورٹی فورسز کی ستائش کرنے کے ساتھ ساتھ یہ سوال اٹھایا گیا کہ دہشت گردوں کے خلاف جو آپریشن کامیابی سے ہمکنار ہوئے انہیں شروع کرنے سے ایک طویل عرصہ تک کیوں گریز کیا جاتا رہا۔ ردالفساد اور ضرب عضب جیسے آپریشنوں سے قبل جن دہشت گردوں کے متعلق یہاں یہ تصور کیا جانے لگا تھا کہ وہ ملک کے کسی بھی حساس ترین مقام کو کسی بھی وقت نشانہ بنا سکتے ہیں مگر سیکیورٹی فورسز کے آپریشنوں کے نتیجے میں اس حد کمزور ہو گئے کہ کبھی کبھار کہیں چھوٹی موٹی واردات کر کے اپنے زندہ ہونے کا احساس دلانے کے علاوہ کچھ اور کرنے کے قابل نہیں رہے ۔
اب دہشت گردوں نے مستونگ اور ہنگو میں جو حملے کیے ہیں انہیں دیکھ کر یہ کہے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ دہشت گردوں نے اپنی ٹوٹتی ہوئی سانسیں بحال کرنے بعد نہ صرف چھلنی جسم کے زخم مندمل کر لیے ہیں بلکہ اس جسم کو پھر سے اتنا طاقتور بنا لیا ہے کہ اسے مستونگ میں ایک ساتھ 50سے زیادہ معصوم لوگوں کو شہید کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکے ۔ ہنگو میں ہونیوالی دہشت گردی کے نتیجے میں 5قیمتی انسانی جانیں ہوئیں ۔ اس دہشت گردی کے متعلق اطلاعات ہیں کہ اگر سیکیورٹی گارڈ کی بہادری کی وجہ سے دہشت گردوں کا منصوبہ جزوی طور پر ناکام نہ ہوتا تو وہاں بھی شہادتوں کی تعداد مستونگ کی طرح ہو سکتی تھی۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ رواں برس کے گزشتہ 9 ماہ میں سے صرف تین مہینے ایسے رہے جن میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ دیکھنے میں نہیں آیا ۔ گزشتہ 9ماہ میں سے 6مہینوں کے دوران دہشت گردی کے تمام تر واقعات خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں رونما ہوئے ۔ واضح رہے کہ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں ترکیہ کے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اس وقت دہشت گرد ی کی کارروائیوں میں ملوث لوگوں کو معافی دینے کا اعلان کیا تھا جب اپوزیشن ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا اعلان کر چکی تھی۔ یہاں یہ بات سب پر عیاں ہے کہ دہشت گردوں نے عمران خان کے اپنے بیان پر عمل درآمد کے بعد سے ملک میں دوبارہ سراٹھانا شروع کیا۔ دوبارہ سر اٹھانے کے بعد دہشت گردوں نے جو کارروائیاں کر رہے ہیں ، ان کے بعد یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ان کے خلاف نئے سرے سے ضرب العضب اور ردالفساد جیسے آپریشن شروع کیے جائیں۔
مستونگ اور ہنگو میں جو خود کش حملے ہوئے ان کے دہشت گردی کی کارروائیاں ہونے میں کسی کو کوئی شک نہیں ہے مگر سوشل میڈیا پر کئی ایسے کئی لوگ بھی سرگرم ہیں جو سکرنڈ کے واقعہ کو بھی ایک مختلف قسم کی دہشت گردی قرار دیتے ہیں۔ سکرنڈ کے واقعہ پر سیکیورٹی ایجنسیوں اور ہلاک ہونیوالوں کے عزیز و اقارب کے متضاد بیانات سامنے آئے ہیں۔ یہ بیانات عین اسی طرح کے ہیں جس طرح کے متضاد بیانات 2019میں رونما
ہونیوالے سانحہ ساہیوال کے بعد سیکیورٹی ایجنسیوں اور مرنے والوں کے عزیز و اقارب نے دیئے تھے۔ سکرنڈ واقعہ پر متضاد بیانات سامنے آنے کے بعد نگران وزیر اعلیٰ سندھ ( ر) جسٹس مقبول باقر نے اس واقعہ کی انکوائری کرانے کا اعلان کر دیا ہے۔ سکرنڈ واقعہ کے متعلق یہاں مزید کوئی بات کرنے کی بجائے زیادہ بہتر ہے کہ یہ انتظار کر لیا جائے کہ سندھ کے نگران وزیر اعلیٰ نے جس انکوائری کا اعلان کیا ہے اس کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔ سکرنڈ واقعہ پر تو انکوائری کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد ہی کچھ کہا جائے گا مگر یہاں یہ یاد کرانے میں کوئی حرج نہیں کہ سانحہ ساہیوال کے فوراً بعد کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے اس وقت کے آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی کو جو رپورٹ جمع کرائی تھی اس میں یہ کہا گیا تھا کہ ساہیوال میں کیے گئے آپریشن میں چار ایسے دہشت گرد ہلاک ہوئے جن کا تعلق داعش سے تھا۔ یہ تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیںآئی جی کو پیش کی گئی کائونٹر ٹیررازم کی مذکورہ رپورٹ بعد ازاں کس حد تک غلط ثابت ہوئی تھی۔ سانحہ ساہیوال کو مثال بناکر بہت کچھ کہنے کی گنجائش موجود ہے مگر ایسا کچھ کرنے کی بجائے یہاں صرف یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ سکرنڈ واقعہ کی انکوائری اس حد تک شفاف ہونی چاہیے کہ اس کے نتیجوں پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو لوگوں کو آسانی سے یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ جو کچھ مستونگ اور ہنگو میں ہوا وہی کچھ سکرنڈ میں بھی کیا گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button