بی بی سی ڈاکیومنٹر ی د ی مودی کویسچن
احمد نوید
گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر تین میعاد کے بعد مودی 2014ء میں ہندوستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ دہلی میں حلف برداری کی تقریب کے لیے وہ ایک پرائیویٹ جیٹ میں آئے، جس پر اڈانی کا نام بڑے حروف میں درج تھا۔ مودی کے نو سالہ دور میں اڈانی دنیا کے امیر ترین آدمی بن گئے۔ ان کی دولت 8ارب ڈالر سے بڑھ کر 137ارب ڈالر ہوگئی۔ صرف 2022 میں انہوں نے 72ارب ڈالر بنائے۔اب اڈانی گروپ ایک درجن تجارتی بندرگاہوں کو کنٹرول کرتا ہے، جس کے ذریعے ہندوستان میں مال کی مجموعی نقل و حرکت کا 30فیصد کام کرتا ہے۔ ان کے ہاتھ میں سات ہوائی اڈے ہیں، جہاں سے ہندوستان کے 23فیصد ہوائی مسافر آتے جاتے ہیں۔ ہندوستان کے کل اناج کا 30فیصد اڈانی کے زیر کنٹرول گوداموں میں جمع ہے۔ وہ ہندوستان میں سب سے بڑے پرائیویٹ سیکٹر کے پاور پلانٹس کے مالک ہیں۔ جی ہاں، گوتم اڈانی دنیا کے امیر ترین آدمیوں میں سے ایک ہیں، لیکن اگر آپ انتخابات کے دوران بی جے پی کی چمک دمک کو دیکھیں تو وہ نہ صرف ہندوستان بلکہ شاید دنیا کی سب سے امیر ترین سیاسی جماعت نکلے گی۔ بی جے پی نے 2016ء میں الیکٹورل بانڈ اسکیم کو لاگو کیا تھا، جس میں کارپوریٹ کمپنیوں کو اپنی پہچان عام کیے بغیر سیاسی جماعتوں کو فنڈ فراہم کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ بی جے پی اب تک سب سے زیادہ کارپوریٹ فنڈنگ حاصل کرنے والی پارٹی بن گئی ہے۔
جس طرح مودی کی ضرورت کے وقت اڈانی ان کے ساتھ کھڑے رہے، مودی حکومت بھی اڈانی کے ساتھ کھڑی ہے اور اس نے پارلیامنٹ میں اپوزیشن ممبران پارلیامنٹ کی طرف سے اڈانی کے بارے میں پوچھے گئے کسی ایک سوال کا بھی جواب دینے سے انکار کر دیا ہے۔
جہاں بی جے پی اور اڈانی نے اپنی اپنی دولت بٹوری ہے۔ آکسفیم نے ایک تنقیدی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ہندوستانی آبادی کے سب سے اوپر کے10فیصد لوگوں کے پاس ملک کی کل دولت کا 77فیصد ہے۔ 2017ء میں پیدا ہونے والی دولت کا 73فیصد حصہ امیر ترین 1فیصد لوگوں کے پاس چلا گیا، جبکہ 67کروڑ ہندوستانی جو ملک کے غریب ترین لوگ ہیں۔ ان کی دولت میں صرف 1فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
ہندوستان کو آج گر ایک اقتصادی طاقت کے طور پر جانا جاتا ہے، تو دوسری طرف اس کی زیادہ تر آبادی تباہ کن غربت میں زندگی گزار رہی ہے۔ لاکھوں لوگ گزارے کے لیے راشن کی تھیلیوں پر جیتے ہیں، جو مودی کے چھپے ہوئے چہرے ساتھ تقسیم کی جاتی ہیں۔ ہندوستان انتہائی غریب عوام کا بہت امیر ملک ہے۔ دنیا کے سب سی زیادہ غیر مساوی معاشروں میں سے ایک۔ آکسفیم نے جب مودی حکومت کا پول کھولا تو آکسفیم کو اپنی محنت کا ثمرہ بھی ملا، اس کے دفاتر پر بھی بی بی سی کی طرح چھاپے مارے گئے اور ان کے لئے مسائل پیدا کئے گے ، یہاں تک کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور کچھ دوسرے این جی اوز کو اتنا ہراساں کیا گیا کہ انہوں نے کام کرنا بند کر دیا۔ ان میں سے کسی بھی بات کا مغربی جمہوریتوں کے لیڈروں پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ ہنڈنبرگ اور بی بی سی کے معاملات کے کچھ ہی دنوں کے اندر وزیر اعظم مودی، صدر جو بائیڈن اور صدر ایمانوئل میکرون نے اعلان کیا کہ ہندوستان 470بوئنگ اور ایئر بس طیارے خریدے گا۔ بائیڈن نے کہا کہ اس معاہدے سے 10لاکھ سے زائد امریکی نوکریاں پیدا ہوں گی۔
جولائی میں مودی نے امریکہ کا سرکاری دورہ کیا اور باستیل ڈے پر مہمان خصوصی کے طور پر فرانس گئے۔ کیا دنیا اس بات پر یقین کرے گی کہ میکرون اور بائیڈن انتہائی شرمناک طریقوں سے مودی کی خوشامد کرتے رہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ مودی گجرات کے قتل عام میں ملوث ہے اور آج بھی جس گھنائونے طریقے اور باقاعدگی کے ساتھ مسلمانوں کو سرعام پیٹا جا رہا ہے، جس طرح مودی کی کابینہ کے ایک رکن پھولوں کا ہار لیکر مسلمانوں کے قاتلوں سے ملے، جس طرح مسلمانوں کو ہر ممکن طریقے سے الگ تھلگ اور اکیلا کر دینے کا عمل جاری ہے۔ میکرون اور بائیڈن جانتے ہیں مگر خاموش ہیں۔ انہیں پرتشدد ہندو گروہوں کے ذریعے سینکڑوں چرچ کو جلا دیے جانے کی بھی جانکاری ہے مگر خاموش ہیں۔ انہیں اپوزیشن رہنمائوں، طلبائ، انسانی حقوق کے کارکنوں، وکلا اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے بارے میں بھی خبر رہے، جن میں سے کچھ انسانی حقوق کے کارکنوں، وکلا اور صحافیوں کو طویل قید کی سزائیں تک مل چکی ہیں۔ میکرون اور بائیڈن یہ سب بھی جانتے ہیں مگر خاموش ہیں۔دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ پولیس اور ہندو قوم پرستوں کے ذریعے یونیورسٹیوں پر حملے، تاریخ کی کتابوں کو دوبارہ لکھے جانے کی سازشوں، فلموں پر پابندیاں ،ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے بند ہونے کی کہانی، بی بی سی کے ہندوستانی دفاتر پر چھاپوں کی حرکات، کارکنوں، صحافیوں اور سرکار کے ناقدین کو پراسرار نو فلائی لسٹوں میں ڈالنے اور ہندوستانی اور غیر ملکی مصنفین اور مفکرین پر دبائو، یہ سب مودی کی حکومت کر رہی ہے مگر دنیا بھی خاموش ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ ہندوستان اب ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں 180ممالک میں 161ویں نمبر پر ہے ۔ ہندوستان کے بہت سے بہترین صحافیوں کو مودی نے مین سٹریم میڈیا سے باہر کر دیا ہے اور یہ کہ صحافیوں کو جلد ہی سنسر کے ایسے نظام کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جس میں حکومت کی طرف سے قائم کردہ تنظیم کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہو گا کہ آیا حکومت کے بارے میں میڈیا کی خبریں اور تبصرے جعلی اور گمراہ کن ہیں یا نہیں۔ اور وہ نئے آئی ٹی قانون سے بھی آگاہ ہوں گے، جسے سوشل میڈیا پر اختلاف رائے کو دبانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ انہیں تلواریں لہرانے والی پرتشدد بھیڑ کے بارے میں بھی پتہ ہوگا، جو مسلمانوں کے خاتمے اور مسلم خواتین کے ریپ کی مسلسل اور کھلم کھلا اپیل کرتے ہیں۔ وہ کشمیر کی صورت حال سے بھی واقف ہیں مگر خاموش ہے۔
2019ء میں بھارت کا رابطہ مہینوں تک دنیا سے منقطع کر دیا گیا۔ ایک جمہوریت میں انٹرنیٹ کو بند کرنے کا یہ سب سے بڑا واقعہ تھا۔ کشمیر کے صحافیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ گرفتار کیا جاتا ہے اور پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔ 2019 میں پاس کیے گئے شہریت ترمیمی ایکٹ سے دنیا واقف ہے، جو مسلمانوں کے خلاف واضح طور پر امتیازی سلوک ہے۔ دنیا ان بڑی تحریکوں سے بھی واقف ہے، جو اس کے نتیجے میں پیدا ہوئیں اور یہ بھی کہ وہ تحریکیں اسی وقت ختم ہوئیں، جب اس کے اگلے سال دہلی میں ہندو ہجوم کے ہاتھوں درجنوں مسلمانوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ میکرون اور بائیڈن ہی کیا اقوام متحدہ سمیت دنیا کے بہت سے لیڈر مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک پر خاموش ہیں مگر اس خاموشی کو ہنڈنبرگ اور بی بی سی نے توڑنے کی کوشش کی ہے اور اس میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔