Columnمحمد مبشر انوار

فلسطینی ریاست ناگزیر

محمد مبشر انوار
دنیا بڑی تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے اور معاملات اکلوتی عالمی طاقت کے ہاتھ سے نکلتے دکھائی دے رہے ہیں کہ کل تک جو ریاستیںبوجوہ امریکہ پر انحصار کرتی تھی، آج ان کا انحصار دوسری طاقتوں کی طرف دکھائی دے رہا ہے۔ امریکی اثر و رسوخ اپنے حلیفوں پر بتدریج کم ہورہا ہے، ایسے بہت سے ممالک جن کے لئے، امریکی خواہشات مقدم رہی ہیں، آج وہی ریاستیں معروضی حالات کے پیش نظر، اپنے ریاستی مفادات کو مد نظر رکھ کر فیصلے کر رہی ہیں۔ امریکی دبا یا کنٹرول ایک طرف تیل پیدا کرنے والے ممالک، بالخصوص مشرق وسطی پر بہت زیادہ رہا ہے تو وہیں امریکہ نے دیگر ممالک میں سیاسی چالوں کے ذریعے اپنی موجودگی کو قائم رکھا ہے لیکن بیشتر ممالک میں امریکی پالیسی یہی رہی کہ ان ممالک کو مسلسل غیر مستحکم رکھا جائے۔ مشرق وسطی کے ممالک میں دوام اقتدار کے ساتھ ساتھ، دفاع کو ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوشش کی تا کہ مشرق وسطی کی بڑی آمدن سے اپنا حصہ وصول کرتا رہے اور یہ ریاستیں اس کی دست نگر بھی رہیں۔ علاوہ ازیں! اسرائیلی ریاست کا مشرق وسطی میں قیام، اسرائیل کو عربوں پر مسلط کرکے، ایک مستقل چوکیدار یا بدمعاش کو اس خطے میں پروان چڑھایا ہے تا کہ عرب ریاستوں کو ہمیشہ اپنی سلامتی کا خطرہ لاحق رہے اور وہ امریکہ کے سامنے سر اٹھانے سے گریز کریں۔ ماضی میں عرب اسرائیل جنگ میں، ایک طرف عرب ممالک متحد ہو کر لڑے تو دوسری طرف، اسرائیل کو امریکی و مغربی حمایت حاصل رہی، نتیجہ یہ کہ عرب اتحاد بری طرح شکست کھا گیا۔ اس شکست میں عرب ممالک اپنی زمینوں سے تو ہاتھ دھو بیٹھے لیکن دوسری طرف اسرائیل کی نہ صرف دھاک بیٹھ گئی بلکہ امریکی و مغربی حمایت کے باعث، اسے فلسطینیوں کے قتل عام کی کھلی چھٹی بھی مل گئی۔ فلسطینیوں کے لئے اپنی ہی سرزمین تنگ ہوگئی اور نہتے جدوجہد آزادی کرتے ہوئے انہیں متعصب مغربی میڈیا، باغی و دہشت گرد قرار دیتا رہا جبکہ اسرائیلی بربریت کو کبھی آشکار کرنے کی جرات نہ کر سکا بلکہ اسرائیلی فوجیوں کو ہمیشہ مظلوم دکھاتا رہا۔
1967ء کی جنگ کے نتیجہ میں ہونے والے مذاکرات میں یہ طے پایا کہ اس خطہ میں دو ریاستوں کا قیام یقینی بنایا جائے گا تاکہ یہاں امن و امان قائم ہو سکے اور خون ناحق بہانے سے گریز کیا جائے لیکن یہ وعدہ ہنوز وفا نہیں ہو سکا بلکہ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ، اسرائیلی بربریت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے۔ یہاں امریکی اثر و رسوخ، جانبدارانہ کردار کا ذکر بے محل نہ ہو گا کہ گزشتہ امریکی حکومت ابراہم معاہدے کے تحت، اس جانبداری میں اس حد تک آگے بڑھ گئی کہ اس وقت بھی جو علاقے فلسطین کے زیر انتظام ہیں، امریکی سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کا اعلان کر دیا، جو سراسر ناانصافی اور امریکی دہرے کردار کو عیاں کرتا تھا۔ ابراہم معاہدے کو جبرا عرب ریاستوں پر مسلط کرنے کی کوششیں ببانگ دہل شروع ہوئی اور چند ایک ریاستیں، جن کے لئے اس سے انکار ممکن نہیں تھا، اسرائیل ریاست کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئی اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی قائم کر لئے۔ اس عمل سے عربوں کو یہ واضح ہو گیا کہ خطے میں ان کی خواہشات و انصاف کے برعکس امریکہ بطور عالمی طاقت، اپنا کردار کس طرح ادا کر رہا ہے اور اس کا جھکائو کس طرف ہے؟ واضح تھا، اور ہے کہ امریکہ کسی بھی صورت اس خطے سے نہ تو اپنا اثر و رسوخ ختم کرنا چاہتا ہے، نہ ہی یہاں امن وا مان کا قیام چاہتا ہے اور نہ ہی وہ، دو ریاستی فارمولے کی اپنی زبان پوری کرنے میں سنجیدہ ہے – یہ صورتحال، سب حکمرانوں کے سامنے ہے لیکن بوجوہ یا مضبوط متبادل حلیف نہ ہونے کے باعث ، ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا، لیکن افغانستان میں امریکی مداخلت نے، متبادل مضبوط حلیف فراہم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا اور یوں صیاد خود اپنے دام میں پھنس گیا۔
اس دورانئے میں چین انتہائی خاموشی و مستقل مزاج سے پیش قدمی کرتا رہا اور آج چین نہ صرف ایک متبادل مضبوط حلیف کے طورپر سامنے آ چکا ہے بلکہ مشرق وسطی میں اپنا بھرپور اثر و رسوخ قائم کر چکا ہے۔ چین کا اثر و رسوخ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ آج مشرق وسطی کی بیشتر ریاستیں، چین کے ساتھ سٹریٹجک پارٹنر بن چکی ہیں بلکہ چین نے دو اہم ترین مسلم ریاستوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرکے، دیرینہ تنازعات کو ختم کروانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ جبکہ ان دو مسلم ریاستوں کے درمیان نفرت کی خلیج کھڑی کرنے ، تنازعات کو ہوا دینے اور بد اعتمادی کی فضا کو قائم رکھنے کے لئے امریکہ ہر حد سے گزر چکاہے کہ اس فضا کو قائم رکھنے میں درحقیقت امریکی مفادات پوشیدہ رہے ہیں، جو آشکار ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف چین کی حیثیت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور اس کا اثر و رسوخ بھی اسی تناسب سے مشرق وسطیٰ میں بڑھتا جا رہا ہے، اسرائیل و عرب ریاستیں، چین کی حلیف بن چکی ہیں اور گمان یہ ہے کہ جس طرح چین کی پیش قدمی مشرق وسطی میں جاری ہے، وہ اسرائیل و فلسطین کا بھی کوئی نہ کوئی منصفانہ حل تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اس سے چین کو دو فائدے حاصل ہوں گے کہ ایک طرف چین اپنی حیثیت کو ثابت کرنے میں کامیاب ہو گا تو دوسری طرف اپنی معاشی حیثیت کے مطابق اس خطے میں سرمایہ کاری کر سکے گا، جو اس وقت تک ممکن نہیں کہ جب تک، امن و امان قائم نہ ہو جائے- اس ضمن میں ماضی قریب میں چین کے صدر نے فلسطینی صدر سے چین میں ملاقات کی ہے تو دوسری طرف اسرائیل کے وزیر اعظم سے بھی چین میں ملاقات طے ہے، یہ ملاقاتیں بے سبب تو ہو نہیں سکتی، لہذا یہ قرین قیاس ہے کہ جلد یا بدیر اس خطے میں امن و انصاف متوقع ہے۔
اب یہ امن و انصاف کس قسم کا ہوگا تو یہ بھی چینی صدر کے بیان کے مطابق، اسی صورت ممکن ہے کہ اگر خطے میں دو ریاستوں کا قیام ہو جائے، تو ہی اسے انصاف کہا جا سکتا ہے وگرنہ جو کچھ آج تک امریکی سایہ میں چلتا رہا ہے، اس کے سوا کچھ بھی نہ ہوگا۔
چینی صدر کے اس بیان کو سامنے رکھیں تو یہ وہی مطالبہ ہے جو ایک طرف فلسطینی کرتے ہیں اور دوسری طرف تمام مسلم ممالک بیک آواز، پائیدار امن کے لئے، دو ریاستوں کا دیرینہ مطالبہ کر رہے ہیں، جسے امریکہ و مغربی ممالک اپنے مفادات کی نذر کرتے چلے آ رہے ہیں۔ بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ مشرق وسطی میں اب معاملات اپنے منطقی و منصفانہ انجام کی طرف بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں، جلد یا بدیر اس خطہ میں، دو ریاستوں کا قیام عمل میں آ جائے گا، اس وقت پس پردہ، علاقوں کی تقسیم کار کا عمل طے ہوتا دکھائی دے رہا ہے کہ اسرائیل نے اس دوران ہمسایہ ممالک کے کئی علاقوں پر زبردستی قبضہ جما رکھا ہے۔ بالخصوص یروشلم اور اس سے ملحقہ براہ راست فلسطینی علاقوں کا الحاق و تقسیم زیر بحث دکھائی دے رہی ہے اور فریقین کو کسی ایک فارمولہ پر قائل کرنے کی کوششیں دکھائی دیتی ہیں، جیسے ہی یہ مرحلہ طے ہوا، فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آ جائے گا، ان شاء اللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button