CM RizwanColumn

روہانسی آنکھوں، روتے دلوں کا سوال

سی ایم رضوا ن
بارہ ربیع الاول کے مبارک روز پر کوئٹہ کے علاقے مستونگ میں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوس پر خود کش دہشت گرد حملے میں پچاس سے زائد ہلاکتوں اور اتنی ہی تعداد میں زخمیوں کی اطلاعات سن کر اور جائے وقوعہ پر خاک و خون میں لتھڑی معصوم بلوچوں کی بریدہ لاشوں کی ویڈیوز دیکھ کر اور اسی روز کے پی کے شہر ہنگو کے تھانہ دوآبہ کی مسجد میں ایک دیگر خودکش دھماکے میں پانچ پختون بھائیوں کی ہلاکتوں کی خبریں سن کر اور ویڈیو فوٹیجز دیکھ کر ہر محب وطن پاکستانی کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے جبکہ آشوب چشم کی ملک گیر وبا کے باعث لاکھوں پاکستانی بچوں، بوڑھوں، جوانوں اور خواتین کی آنکھیں پہلے ہی روہانسی نظر آرہی تھیں۔ روہانسی آنکھوں کے ساتھ روتے دل سوال کناں ہیں کہ ہمیں قوم کے اس طرح کے سنگین درد کب تک اور کس حد تک سہنا ہیں؟ جس طرح ہم یکطرفہ طور پر معمول کے مطابق اور بغیر سوچے سمجھے ایسے واقعات کے رونما ہونے پر اپنے انتظامی اداروں، حساس اداروں اور سکیورٹی فورسز پر گھر بیٹھے ہی غفلت اور کوتاہی کے الزام لگا دیتے ہیں کم از کم ان دو واقعات میں ایسا ہر گز ممکن نہیں کیونکہ ان دونوں خوں آشام واقعات میں معصوم پاکستانیوں کے مقدس خون کے ساتھ متعلقہ پولیس اہلکاروں کا موقر خون بھی شامل ہوا ہے۔ اس صورت میں بھی کہ اسی روز عوب میں دہشت گردوں کے حملے کے خلاف کارروائی اور کے پی کے میں بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں متعدد دہشت گردوں کے جہنم واصل ہونے اور متعدد سکیورٹی اہلکاروں کی شہادتوں کی خبریں بھی سامنے آئیں۔ عام طور پر عید میلاد النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوسوں اور ریلیوں میں دہشت گردی کے ایسے خطرناک واقعات اور خطرات معمول نہیں سمجھے جاتے۔ اس کے باوجود ان دونوں مقامات پر پولیس اہلکار ڈھال کی صورت میں جان قربان کرتے نظر آئے اور دونوں واقعات میں خودکش بمباروں کو متوقع سافٹ ٹارگٹس سے پہلے ہی خود کو اڑانا پڑا۔ غیر معمولی طور پر ابھی تک ان دونوں واقعات کی کسی دہشت گرد گروہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی البتہ محض الزام ہی لگایا جا سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کے عاشقان اس طرح کے خطرناک ترین واقعات کے الزامات بغیر سوچے سمجھے اپنے سیاسی مخالفین پر لگا دیتے ہیں۔ یہ الزام بھی چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کے عسکری ونگ پر لگایا جا سکتا ہے کیونکہ اب تو ایف آئی اے کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق وہ اور ان کے سابق وزیر خارجہ سائفر کیس میں ملزم قرار دیئے جا چکے ہیں۔ یعنی جو شخص سائفر لہرا کر امریکہ، پاکستان جیسے ازلی دوست ممالک کو باہم لڑوانے کی کوشش کرتا پکڑا گیا ہے کیا وہ کسی ایسے دہشت گرد گروہ کا سہولت کار نہیں ہوسکتا جس نے عید میلاد النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے دو جلوسوں پر خودکش بمباری کی ہے۔ خاص طور پر اس وقت بھی جبکہ مشہور زمانہ فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس میں نظرثانی کی سات درخواستیں واپس لینے کی درخواستیں بھی کی گئی ہوں۔
اس الزام کی ایک اور دلیل یہ بھی ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے دور حکومت میں تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کا عندیہ دیا تھا۔ اس وقت ایک نجی ترک ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستانی طالبان سے بات ہو رہی ہے۔ تب کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان میں شامل کچھ گروپوں سے مذاکرات کی تصدیق اور معاف کرنے کی ان کی پیشکش پر سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل بھی آیا تھا۔ اس انٹرویو میں چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان میں شامل کچھ گروپوں سے بات چیت کر رہی ہے اور اگر وہ ہتھیار ڈال دیں تو انہیں معاف کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات چیت افغان طالبان کے تعاون سے افغانستان میں ہو رہی تھی۔ یاد رہے کہ اس سے قبل سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کو مشروط معافی دیئے جانے کے بیان کے جواب میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا کہنا تھا کہ معافی غلطی پر مانگی جاتی ہے اور ہم نے کبھی دشمن سے معافی نہیں مانگی۔ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں کچھ طالبان گروپ ان کی حکومت سے مفاہمت اور امن کی خاطر بات کرنا چاہتے تھے۔ اور وہ ایسے کچھ گروپوں سے رابطے میں تھے۔
اس سوال پر کہ کیا یہ بات چیت ان کے ہتھیار ڈالنے پر ہو رہی تھی تو خان کا کہنا تھا کہ یہ مفاہمتی عمل کے بارے میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہتھیار ڈالنے کی صورت میں ہم انہیں معاف کر دیں گے اور وہ عام شہری بن جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ معاملات کے عسکری حل کے حق میں نہیں ہیں اور کسی قسم کے معاہدے کے لئے پرامید ہیں تاہم یہ ممکن ہے کہ پاکستانی طالبان سے بات چیت نتیجہ خیز ثابت نہ ہو لیکن ہم بات کر رہے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا افغان طالبان اس عمل میں پاکستان کی مدد کر رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ اس لحاظ سے مدد ہو رہی ہے کیونکہ یہ بات چیت افغان سرزمین پر ہو رہی ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ایک جانب انکی حکومت تحریک طالبان پاکستان سے بات چیت کر رہی ہے تو ان کی دوسری تنظیم پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر حملے کیوں کر رہی ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ یہ حملوں کی ایک لہر تھی۔ واضح رہے کہ تب تک ٹی ٹی پی نے ہر مذہب، مسلک، قومیت اور سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے 70ہزار لوگوں کو قتل کیا تھا۔ سابقہ فاٹا کے لوگ سب سے زیادہ ان حملوں سے متاثر ہوئے۔ تاہم اُن متاثرہ لوگوں کی بات سننے کے بجائے سابق وزیرِ اعظم انہیں معاف کرنا چاہتے تھے۔ حالانکہ اس وقت کے ریاستی بیانیے کے مطابق این ڈی ایس اور را ٹی ٹی پی کے پیچھے تھے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے میں ہم اپنے بدترین دشمن کو معاف کیوں کر رہے تھے؟ یہ بھی ریکارڈ پر تھا کہ ٹی ٹی پی نے سینکڑوں بچوں اور بڑوں کو قتل کیا تھا۔ اس سب کے باوجود کچھ لوگ چیئرمین پی ٹی آئی کی اس پالیسی کی حمایت بھی کرتے نظر آئے۔ سابق وفاقی وزیرِ فواد چودھری نے اس حوالے سے کہا تھا کہ ریاست کو ایسے لوگوں کو موقع دینا چاہیے کہ وہ زندگی کے دھارے میں واپس آ سکیں۔ البتہ اس وقت کی حزب اختلاف کی جماعت پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفی نواز کھوکھر کا اس معاملے پر کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اس پر اپنا واضح موقف دے چکے ہیں ۔
کہ حکومت کی جانب سے کالعدم تنظیم پاکستان تحریک طالبان کے ساتھ بات چیت یا مذاکرات کی ایسی کوئی بھی کوشش دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہلاک ہونے والے ہزاروں پاکستانی افراد کی توہین کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کی کوشش ان کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے ہزاروں بے گناہ شہریوں، سکیورٹی فورسز کے جوان و افسران اور آرمی پبلک سکول پشاور کے ڈیڑھ سو معصوم بچوں کے خون کی توہین ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کا کوئی بھی بیان دینے سے قبل وزیر اعظم عمران خان کو پارلیمان کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا اور یہ صورتحال ایوان کے سامنے رکھنی چاہئے تھی کہ حکومت ایسا ارادہ رکھتی ہے اور اس پر پارلیمان اپنی رائے دیتی۔ واضح رہے کہ سابق پی ٹی آئی حکومت نے دو مواقع پر تحریکِ طالبان پاکستان کے شدت پسندوں کو معافی دینے کی پیشکش کی تھی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کا ایک اور حوالہ یہ بھی ہے کہ سابقہ نواز شریف دور میں جب طالبان اور حکومت کے مابین مذاکرات کی بات ہوئی تھی تو طالبان نے عمران خان کو اپنا نمائندہ اور ضامن مقرر کیا تھا۔ تاہم اپنے سیاسی فائدے کے لئے تب انہوں نے اس ضمانت اور نمائندگی سے اجتناب کیا تھا۔ اب یہ بھی سوچا جا رہا ہے کہ جس طرح پی ٹی آئی نے سابق آئی ایس آئی چیف جنرل ر فیض حمید سے بظاہر دوری اختیار کرنے کا تاثر دیا ہے۔ ہوسکتا ہے اب ان کے عسکری ونگ کے کسی دھڑے نے یہ دہشت گرد کارروائیاں شروع کر دی ہوں۔ بہرحال اس ضمن میں مکمل ثبوت ملنے سے قبل کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button