جمہوریہ آذربائیجان کے شہدا کا یادگاری دن
امتیاز عاصی
27ستمبر کا دن آذربائیجان کے ان شہدا کی یاد میں منایا جاتا ہے جنہوں نے اپنے مقبوضہ علاقوں کو آرمینیاء کے تیس سالہ غیر قانونی تسلط سے جانوں کا نذرانہ دے کر آزاد کر ایا تھا۔یہ دن آذربائیجان کے عوام کا آرمینیائی جبروتسلط سے آزادی کے طور پر بھی منایا جاتا ہے ۔شہدا کی یاد کی مناسبت سے یہ دن اس لحاظ سے بھی یادگاری تھا جس میں نگورنو کاراباخ جنگ میں آذربائییجان کی کامیابی بارے لکھی گئی کتاب ڈی ہسٹری آف دی پیٹریاٹاک وار پرسنالٹی فیکٹر کی رونمائی بھی تھی۔وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں آذبائیجان کے سفارت خانے میں ہونے والی تقریب میں دیگر اسلامی ملکوں کے سفراء بھی شریک تھے ۔تین سال قبل آذربائیجانی افواج آذربائیجانی عوام پر ظلم وستم کے خلاف آذربائیجانی فوج کے فوجی کمانڈر چیف ،صدر الام علییف کی قیادت میں آرمینیاء کے فوجی حملوں کے خلاف جوابی کارروائی کرکے چوالیس روزہ حب الوطنی کی جنگ کے بعداپنے علاقوں کو آرمینیائی تسلط سے آزادی دلائی تھی۔ جنگ کے بعد ایک سہ فریقی معاہدے کے تحت جس پر روس سمیت آذربائیجان اور آرمینیا کے دستخط کے باوجود آرمینیاء نے اپنی اشتعال انگریزی جاری رکھی اور آذربائیجان کے علاقوں میں بارودی سرنگیں بچھائیںجس سے تین سو سے زیادہ لوگ مارئے گئے۔ گزشتہ کئی دہائیوں میں آمینیائی قوم پرستوں نے نگورنو کاراباخ کو آذربائیجان سے علیحدہ کرنے کی بھرپور کوشش کی ۔ اسی کی دہائی کے وسط تک سوویت یونین کی قیادت نے بین النسلی تعلقات کے معاملے پر سخت موقف اپنا اور آرمینیائی، جارجیانی اور آذربائیجان کے ساتھ ساتھ کئی دوسری قوموں اور نسلی گروپوںکے درمیان امن برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ چوالیس روزہ جنگ کے دوران حکومت پاکستان نے سابقہ کاراباخ تنازعہ کے پہلے دن سے آذربائیجان کی حب الوطنی کی جنگ کے منصفانہ موقف کی اخلاقی اور سیاسی حمایت کی جسے آذربائیجان کی حکومت اور عوام دونوں نے بہت سراہا ۔آزادی کے فوری بعد آذربائیجان نے آزاد کرائے گئے علاقوں میں بڑے پیمانے پر تعمیر نو اور بحالی کا کام شروع کیا جس کے بعد فزولی اور زنگیلان میں بین الاقوامی ہوائی اڈے بنائے گئے۔قابل ذکر پہلو یہ ہے شوشا جو آذربائیجان کا ثقافتی دارلحکومت اور اگدم بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔یہاں تک کہ پاکستان کلرز گروپ نے مئی 2022میں شوشا میں ہونے والے پانچویں خریبل بل بین الاقوامی لوگ کلر فیسٹیول میں بھنگڑا رقص پیش کیا۔ درحقیقت The History of Patriotic War personality Factorآذربائیجان کی تاریخ پر مشتمل ایک شاندار کتاب ہے جس میں آذربائیجان کی تاریخی فتح،کاراباخ جنگ کی داستان،اس کی شکست کی وجوہات،قومی رہنما حید علینیف کے اقتدار میں آنے کے بعد کئے گئے اقدامات کے علاوہ جمہوریہ آذربایئجان کے صدر اور کمانڈر چیف الہام علیئیف کی حکمت عملی پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔یہ کتاب محب وطن جنگ کی فتح کی جامع تصویر پیش کرتی ہے۔1989 سوسائیٹی آف آذربائیجانی مہاجرین کے طور پر قائم کی گئی تھی جسے 2022کمیونٹی آف وسیٹرن آذربائیجان کا نام دیا گیا تھاجو آذربائیجان سے بے دخل کئے گئے لوگوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق ہے۔یہ وہ علاقہ ہے جو صدیوں سے ان کا آبائی وطن تھا جسے اب آرمینیاء کہا جاتا ہے۔آذربائیجانیوں کے خلاف نسلی معاملات میں ریاستی حکام کی منظم کوششوں سے تشدد، قتل عام اور انسانیت کے خلاف دیگر جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوںکے ذریعے کی گئی۔حقیقت یہ ہے آذربائیجانی ثقافتی اور تاریخی ورثہ بشمول آرمینیاء میں مساجد اور قبرستانوں کو تباہ کر دیا گیا ہے اور ملک میں آذربائیجانیوں کے خلاف منظم نسلی امتیاز برتا گیا ۔نسلی صفائی اور نسلی آذربائیجانیوں کے خلاف دیگر جرائم میںملوث افراد اور ان کی بد اعمالیوں کو آرمینیا میں ریاستی پالیسی کے معاملے کے طور پر سراہا جاتا ہے۔آذربائیجانیوں پر ظلم وستم کی داستان تو بہت پرانی ہے 1901سے 1991آذربائیجانیوں پر تشدد اور ظالمانہ کارروائیوں کا دور تھا۔ خاص طور پرسابق سوویت یونین کے رہنما جوزف اسٹالن جس نے رنگیزور اور دیگر آذربائیجان کی منتقلی پر یقینی بنایااور آرمینیاء کے اکثریتی علاقوں اور آرمینیاء سے ایک لاکھ نسلی آذربائیجانیوں کی ملک بدری کے نسل پرستانہ کام کی قیادت کی۔چنانچہ نسلی صفائی کے نتیجے میں1991 سے خاص طور پر نسلی آرمینیائی باشندوں کی آباد کاری کی گئی۔ آذربائیجان کے ان باشندوں کو جنہیں آرمینیاء سے نکال دیا گیا تھا اپنے گھروں کو واپس آنے میں ناکامی اور آرمینیاء میں یک نسلی ریاست ،نسلی تطہیر اور نسلی امتیاز کی پالیسی کا تسلسل بہت بڑی ناانصافی کی نشاندہی کرتا ہے جس سے دیرپا امن کی بحالی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔اصولی طور پر آرمینیاء سے نکالے گئے آذربائیجانیوں کی وطن واپسی کو قانونی طور پر بین الاقوامی معاہدے کے فریم ورک کے اند ر مناسب تصدیق اور ضمانت کے طریقہ کار کے ساتھ یقینی بنانا چاہیے تاکہ آرمینیاء سے نکالے گئے آذربائیجانیوں کی ان کے گھروں کو واپسی کو ممکن بنا کر ان کے انفرادی اور اجتماعی حقوق کو یقینی بنا کر خطے میں پائیدار امن قائم کی راہ ہموار ہو سکے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آذربائیجان کے سفیر خضر فرہادوف نے بتایا آرمینیاء کے ساتھ جنگ کے دوران ان کی افواج نے شہری علاقوں کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ اپنے مقبوضہ علاقوں کی آزادی کی جنگ لڑی۔ پروقار تقریب سے سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود، سینیٹر مشاہد حسین سید نے بھی خطاب کیا ۔سنیٹر مشاہد حسین نے کہا پاکستان اور آذربائیجان گہری دوستی کے رشتوں میں باندھے ہیں بلکہ ہم آذربائیجان کو اپنادوسرا گھر سمجھتے ہیں۔جمہوریہ آذربائیجان اور پاکستان کے درمیان تجارتی روابط بھی ہیں اب تو آذربائیجان اور پاکستان ریل سے منسلک ہونے کی طرف گامزن ہیں۔حال ہی میں آذربائیجان کے سفیر اور نگران وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور ریلوئے کے وزیر کے درمیان اس سلسلے میں ابتدائی بات چیت کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے ۔پاکستان نے جمہوریہ آذربائیجان کے علاقوں پر آمینیائی قبضے اور آمینیاء کی طرف سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مسلسل خلاف ورزی کے پیش نظر آمینیاء کو تسلیم نہیں کیا ہے ۔دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے وسیع مواقع ہیں جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ایک محتاظ اندازے کے مطابق کئی سو پاکستانی کمپنیاں آذربائیجان میں رجسٹرڈ ہیں جو اس امر کا واضح ثبوت ہے پاکستان اور جمہوریہ آذربائیجان برادر ملک دوستی کے گہرے رشتوں میں منسلک ہیں۔