ColumnImtiaz Ahmad Shad

خود اعتمادی

امتیاز احمد شاد
کامیابی اور ناکامی کے درمیان جو باریک لائن ہوتی ہے اسے اعتماد کہتے ہیں۔ اگر وہ لائن خود اعتمادی اور خود انحصاری سے استوار کی جائے تو کامیابی یقینی ہے ،وگرنہ خود اعتمادی کا فقدان ناکامی کے نہ تھمنے والے طوفان پیدا کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ: ’’ جب آپ ( کسی بات کا) عزم کر لیں تو اللہ پر توکل کیجئے‘‘۔ ( سورۃ آل عمران)۔ خود اعتمادی اور خود انحصاری بہترین وصف ہے۔ خود اعتمادی انسان کا وہ طرز عمل ہے جو انسان کے لئے عظیم مقاصد کا حصول ممکن بنا دیتا ہے۔ اسلام نے مومن میں یہ نقطہ واضح رکھا ہے کہ وہ جب کسی کام کا عزم کرتا ہے تو ناکامی کے خوف کا بت پاش پاش کرتے ہوئے اللہ رب العزت پر توکل کرتا ہے۔ اور یہی بات سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نبی اکرمؐ سے فرما رہے ہیں۔ خود اعتمادی میں جب توکل اللہ کے بجائے غرور اور تکبر داخل ہو جائے تو یقینا بربادی مقدر ہوتی ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ بہت سارے لوگوں کے پاس تعلیم، ڈگری، مہارت، سکلز اور تجربہ بھی ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود صرف چند لوگ ہی اپنی زندگی میں کام یابی کی وہ منزلیں طے کر پاتے ہیں جن کی خواہش ہر انسان رکھتا ہے۔ انسان کی زندگی میں یقیناً ناکامی کی دیگر وجوہات بھی ہوں گی لیکن میری دانست میں شخصیت میں خود اعتمادی کا فقدان ہی عملی میدان میں ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے۔ خوداعتمادی انسانی ترقی کی عمارت کی بنیاد میں سیمنٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔ خود اعتمادی حاصل کرکی ہم سب اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں ترقی کی شاہراہ پر گام زن ہو سکتے ہیں۔ ابن العربی لکھتے ہیں کہ: ’’ جسے خود پر بھروسہ نہیں وہ قادر مطلق پر کامل یقین کی اہلیت ہی نہیں رکھتا اور وہ کسی صورت بڑا مقصد حاصل نہیں کر سکتا‘‘۔ خوداعتمادی کی بنیاد یہ سمجھنا ہے کہ آپ اور صرف آپ اپنی کام یابی کے محرک ہیں۔ یہ وہ نکتہ ہے جہاں آپ کی ذاتی طاقت فروغ پاتی ہے۔ خود پر یقین کرنے کا طریقہ جاننا، ایک گہرے سوال کا دروازہ کھولتا ہے، وہ کون سے یقین اور جذبات ہیں جو ہمارے اندر منفی جذبات جیسے بے یقینی یا اضطراب پیدا کرتے ہیں۔ یہ جذبات زندگی کے تجربات کی بنیاد پر ہمارے اپنے بارے میں ہماری رائے سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کا دماغ آپ کی رہنمائی کر رہا ہوتا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ان محدود عقائد کو جانچیں اور انہیں بااختیار بنانے والے عقائد سے بدل دیں۔ اسے شروع کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اپنی گفتگو پر خود توجہ مرکوز کریں۔ خاص طور پر ان الفاظ پر جو آپ خود سے بات کرتے وقت منتخب کرتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق، اپنی ذات سے مثبت مکالمہ آپ کو مقابلہ کرنے کی مہارتوں، نفسیاتی صحت کو بہتر بنانے اور یہاں تک کہ آپ کی عمر کو بڑھانے میں بھی مدد دی سکتا ہے۔ اسلام نے اپنے جسم اور ذہن کو تندرست و توانا رکھنے پر خصوصی زور دیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شیخ سعدی کا یہ قول بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ’’ خود سے محبت خوداعتمادی کی بنیاد ہے‘‘ ۔ اگر آپ اپنے آپ سے محبت نہیں کرتے تو آپ خود پر بھروسا کرنا کیسے سیکھ سکتی ہیں؟ اور اگر آپ خود کو نہیں جانتے تو آپ اپنے آپ سے محبت کیسے کر سکتے ہیں؟ بعض افراد خود پر تو بہت یقین رکھتے ہیں مگر اپنی اقدار کا درست تعین نہیں کرتے اور نہ ہی ان پر فخر کرتے ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ خود فریبی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ناکامی ان کا مقدر ہوتی ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سارے لوگ ایک دائرے میں گھومتے رہتے ہیں اور اسی کو ہی کامیابی تصور کر لیتے ہیں۔ جب کہ مقصد کے حصول کے لیے اپنی ذہنی طاقت کے ساتھ رابطہ کرنا اور نئے معمولات کو اپنانا نہایت ضروری ہے۔ خود پر یقین کرنے کا طریقہ سیکھنا ایک چڑھائی کے راستے پر دوڑ کے مترادف ہے۔ آپ کو سفر کے لیے ایندھن کی ضرورت ہوگی۔ خوداعتمادی کو فروغ دینے کے لیے، اپنے آپ کو ایسے لوگوں سے جوڑ لیں جو آپ کی حوصلہ افزائی اور مدد کریں۔ یہ کشش کا قانون ہے۔ اس خیال کو ٹونی رابنز نے ’’ قربت طاقت ہے‘‘ کا نام دیا ہے۔ آپ اپنی زندگی میں جو کچھ بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے ایسے لوگوں کو تلاش کریں جو آپ کی حوصلہ افزائی کریں۔ آپ یہ کام کسی کی سرپرستی، یا گروپ میں شامل ہو کر بآسانی کر سکتے ہیں۔ یاد رہے موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں۔ تاہم اچھی صحبت ہی آپ کو اچھی سوچ اور خود اعتمادی کی دولت فراہم کر سکتی ہے۔ کشش کا قانون صرف اس بارے میں نہیں ہے کہ آپ کن لوگوں کے ساتھ وابستہ ہیں، بلکہ یہ اس بات پر فوقیت دیتا ہے کہ آپ اپنے دماغ کی کیسے نشوو نما کرتے ہیں۔ آپ روزانہ کی بنیاد پر کیا پڑھتے اور دیکھتے ہیں۔ کامیاب لوگوں کی زندگیوں کا مطالعہ ہمیشہ ذہن میں کامیابی کے نئے زاویے اور انداز کو جنم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ہی کئی جہان پیدا کیے ہیں، بس انہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ خوداعتمادی کی کمی محسوس کر رہے ہیں، تو آپ کو صرف اپنی ذات کے اندر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ناکامیوں یا کم زوریوں پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اپنے ماضی کے ان لمحات کو یاد رکھیں جن میں آپ اسی طرح کے کام میں کام یاب ہوئے تھے۔ ماضی انسان کے مستقبل کا تعین کرتا ہے۔ ان رکاوٹوں پر غور کریں جن کا آپ نے سامنا کیا اور جرات اور ہمت کے ساتھ ان پر قابو پالیا۔ ان تمام چیزوں پر توجہ مرکوز کریں جن کے لیے آپ کو شکر گزار ہونا ہے، بجائے اس کے جو آپ کے پاس نہیں ہے۔ مثبت چیزوں پر توجہ مرکوز کرکے، آپ اپنے ذہن کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ خوف اور اضطراب کا تجربہ کرنا انسانی فطرت ہے، لیکن جب آپ خود پر یقین رکھتے ہیں، تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ وہ جذبات آپ کو کارروائی کرنے کی ترغیب دینے کے لیے ہیں، نہ کہ آپ کو روکنے کے لیے ہیں۔ جیسے علامہ اقبالؒ نے فرمایا : ’’ تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب، یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے‘‘۔ خود پر یقین کرنا اس لیے ضروری ہے کیوں کہ خود اعتمادی آپ کی اندرونی طاقت کو تلاش کرتی ہے تاکہ آپ زندگی کے اس سفر کو نشیب و فراز کے ساتھ قبول کر سکیں اور یہ سمجھیں کہ ہر چیلنج اپنے ساتھ نئی مہارت، نئی سمجھ اور نئی طاقت لاتا ہے۔ ہم سب پر ایسا وقت آتا ہے جب ہم یہ سوچتے ہیںکہ ہم یہ نہیں کر سکتے ، لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ کبھی ہمت نہ ہاریں۔ آپ کو بے شمار رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن اہم یہ ہے آپ ان پر کس قسم کا ردِعمل ظاہر کرتے ہیں۔ خود پر یقین کرنا اس بات پر توجہ مرکوز کرنا ہے کہ آپ واقعی زندگی میں کیا چاہتے ہیں۔ خود پر یقین کرنے کا طریقہ دریافت کرنا واقعی آپ کی پہنچ میں ہے اور آپ ایک پُراعتماد زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ واضح ارشاد فرماتے ہیں کہ’’ مشکل کے ساتھ آسانی ہے‘‘۔ تھوڑی سے مشکلات آنے پر کامیابی کا متلاشی کبھی ہمت نہیں ہارتا اور نہ ہی وہ اپنے مقصد کے حصول سے پیچھے ہٹتا ہے۔ اسی سوچ کے مالک ہی اجتماعی مثبت سوچ کو پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں جو کسی بھی ریاست کو کامیاب ریاست بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button