مستونگ خودکُش حملے میں 59افراد جاں بحق

خاتم النبیین حضرت محمدؐ کی آمد کی مناسبت سے، جب پورے ملک میں جشن یوم ولادت مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جارہا تھا کہ اس موقع پر ایک ایسا سانحہ رونما ہوا، جس پر ہر آنکھ اشک بار اور ہر دردمند دل خون کے آنسو روتا دِکھائی دیا۔ دشمنوں نے پھر چھپ کر وار کیا۔ ملک میں ایک بڑی دہشت گرد کارروائی کر گزرے اور درجنوں بے گناہ انسانوں کی موت کی وجہ بنے۔ مستونگ لہو لہو ہوگیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بلوچستان کے ضلع مستونگ میں عید میلاد النبیؐ کے جلوس میں ہونے والے خودکُش دھماکے میں ڈی ایس پی مستونگ سمیت 59افراد جاں بحق اور 65 افراد زخمی ہوگئے۔ ضلع مستونگ میں خودکُش حملہ مدینہ مسجد کے باہر عیدمیلاد النبیؐ کے جلوس کے لیے جمع افراد پر کیا گیا۔ شرکا نعت خوانی میں مصروف تھے کہ جلوس میں شامل گاڑی کے قریب دھماکہ ہوا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دھماکے کی شدت کی وجہ سے ان کے کان بند ہوگئے تھے اور کچھ لوگ لاشوں اور زخمیوں کی حالت دیکھ کر بے ہوش ہوگئے تھے۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق دھماکے میں ڈی ایس پی نواز گشگوری سمیت 59افراد جاں بحق اور 65زخمی ہوئے جب کہ دھماکے کے زخمیوں میں سے بیشتر کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ ایمبولینسیں کم تھیں، زخمیوں اور جاں بحق افراد کو رکشوں، ڈاٹسن اور دوسری گاڑیوں میں اسپتال منتقل کیا گیا۔ دہشت گردی کے اس مذموم واقعے کے حوالے سے نگراں وزیر اطلاعات بلوچستان جان اچکزئی کا کہنا ہے کہ ریسکیو ٹیموں کو مستونگ روانہ کردیا گیا، شدید زخمیوں کو کوئٹہ منتقل کیا جارہا اور کوئٹہ کے اسپتالوں میں بھی ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔ انہوں نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے بتایا کہ متعدد زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہونے کے باعث مستونگ دھماکے میں جاں بحق افراد کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت زخمیوں کے علاج معالجے کے تمام اخراجات برداشت کرے گی، ضرورت پڑی تو شدید زخمیوں کی فوری کراچی منتقلی کا انتظام کیا جائے گا، محکمہ صحت کی جانب سے کراچی کے اسپتالوں سے بھی رابطہ کیا جا رہا ہے۔ جان اچکزئی کا کہنا ہے کہ غیر ملکی آشیرباد سے دشمن بلوچستان میں مذہبی رواداری اور امن تباہ کرنا چاہتا ہے۔ نگراں صوبائی وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے شہریوں سے مستونگ دھماکے کے زخمیوں کے لیے خون عطیہ کرنے کی اپیل بھی کی ہے۔ صدر عارف علوی، نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور وزیر داخلہ سینیٹر سرفراز بگٹی سمیت دیگر سیاست دانوں نے بھی مستونگ میں ہونے والے خودکُش دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے مستونگ دھماکے میں ہونے والے جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جاں بحق افراد کے اہل خانہ سے اظہارِ تعزیت کیا اور زخمیوں کو بہترین طبی سہولتیں فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ نگراں وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ دہشت گردی کی بزدلانہ کارروائیوں سے قوم کے حوصلے پست نہیں ہوسکتے، پورا پاکستان دہشت گردی کی لعنت کے خلاف متحد ہے۔ مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا دہشت گرد عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں، سیکیورٹی فورسز اور عوام کے تعاون سے دہشت گردی کے عفریت کا مکمل خاتمہ کریں گے۔ جشن عیدِ میلادالنبیؐ کے موقع پر دہشت گردی کی یہ مذموم کارروائی، دشمن کی ملک عزیز کو نقصان پہنچانے اور یہاں منافرت کو ہوا دینے کی مذموم سازش ہے۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔ 59بے گناہ انسان جاں بحق ہوئے۔ ان کے گھرانوں میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ پورے ملک میں سوگ کی فضا برقرار ہے۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو پچھلے کچھ عرصے سے ملک میں دہشت گردی کا عفریت پھر سے سر اُٹھارہا ہے۔ سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو متواتر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس دوران کئی جوان جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ ان مذموم کارروائیوں سے صوبۂ بلوچستان اور خیبر پختون خوا زیادہ متاثر دِکھائی دیتے ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف سیکیورٹی فورسز مختلف آپریشنز میں مصروف ہیں۔ کئی دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا جاچکا، کئی گرفتار ہوچکے، بعض علاقوں کو ان کے ناپاک وجودوں سے پاک کیا جاچکا ہے، گویا یہ علاقے کلیئر ہوچکے، اب بھی آپریشن پوری شدّت کے ساتھ جاری ہے اور دہشت گردوں کے قلع قمع تک جاری رہے گا۔ یہ خودکُش حملہ کسی دشمن کی گہری سازش معلوم ہوتی ہے، جسے ملک میں امن و امان کی صورت حال کسی طور گوارا نہیں ہے۔ اس ضمن میں نگراں وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’ را’’ ہے، منصوبہ سازوں، سہولت کاروں اور دہشت گردوں کی نانی ایک ہے۔ کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو میں سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے 12ربیع الاول کے دن معصوم لوگوں کو بیدردی سے مارا، دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا پیچھا کریں گے اور پاکستانیوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے یہ کون ہے اور کہاں سے کر رہا ہے، دہشت گردوں کے خلاف جس قسم کی فورس استعمال کرنا پڑی کریں گے، ہم اپنی رِٹ کو ہر حال میں قائم کریں گے۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں کے لیے کوئی جگہ نہیں، دہشت گردی کے تمام واقعات کے پیچھے’’ را’’ ہے، ان کے بلوں سے نکال کر انجام تک پہنچائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو سال میں دہشت گردوں سے نرمی کی پالیسی اپنائی گئی۔ انہوں نے جمعیت علمائے اسلام کے رہنما حافظ حمداللہ پر حملے کے ماسٹرمائنڈ کو ہلاک کرنے کا انکشاف کیا۔ نگراں وفاقی وزیر داخلہ کا بیان حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ماضی اور حالیہ مذموم کارروائیوں میں بھارت کے ملوث ہونے کے ناقابلِ تردید شواہد سامنے آچکے ہیں۔ پاکستان بھارت کو ابتدا سے ہی بُری طرح کھٹکھتا ہے اور وہ اسے نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ یہ ماضی میں بھی خصوصاً بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال کو تہہ و بالا کرنے میں ملوث رہا ہے۔ کلبھوشن یادیو اس حوالے سے اپنے مذموم جرائم کا کھل کر اعتراف کر چکا ہے اور اس نے بھارتی دہشت گردی کا کھل کر بھانڈا پھوڑا ہے۔ بھارت خطے میں اپنی چودھراہٹ قائم کرنا چاہتا ہے اور اسے پاکستان اپنی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ محسوس ہوتا ہے۔ یہ وقتاً فوقتاً پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروفِ عمل رہتا ہے۔ ہماری بہادر افواج ہر بار اس کے مذموم ایڈونچر کو بُری طرح ناکام بناتی ہیں۔ اس بار بھی یہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔
پنجاب میں آشوب چشم کا تیزی سے پھیلائو
پچھلے کچھ ہفتوں سے ملک کے مختلف حصّوں میں آشوب چشم کی وبا پھیلی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس سے آبادی کا بڑا حصّہ متاثر دِکھائی دیتا ہے۔ اب بھی آشوب چشم کے پھیلائو میں کمی نہیں آسکی ہے، بلکہ تیزی سے اضافہ دِکھائی دے رہا ہے۔ پچھلے دنوں ایک غیر معیاری، ناقص انجیکشن کے استعمال سے پنجاب میں کئی لوگ بینائی سے محروم ہوگئے تھے۔ اس وجہ سے لوگ اس سے بے حد خوف زدہ دِکھائی دیتے ہیں۔ اب خبر آئی ہے کہ پنجاب میں آشوب چشم کے مرض میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ذرائع محکمہ صحت کے مطابق 24 گھنٹے کے دوران صوبے میں آشوب چشم کے 10ہزار 269مریض سامنے آئے، جس کے بعد پنجاب میں مریضوں کی مجموعی تعداد 99 ہزار سے زائد ہوگئی ہے۔ محکمہ صحت کا بتانا ہے کہ آشوب چشم کے سب سے زیادہ بہاولپور میں 1540 مریض رپورٹ ہوئے، فیصل آباد میں 1132، ملتان میں 1048 اور رحیم یارخان میں 608 جب کہ لاہور میں 452 مریض رپورٹ ہوئے۔ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ پنجاب میں اس مرض کے پھیلائو کے حوالے سے صورت حال تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحۂ فکریہ بھی ہے۔ اس حوالے سے لوگوں کو خصوصی احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مرض متاثرہ فرد کی آنکھوں میں دیکھنے سے نہیں لگتا۔ اس کے پھیلائو کا طریقہ کار کرونا وائرس سے ملتا جُلتا نظر آتا ہے۔ متاثرہ فرد کسی چیز کو چھوتا ہے، اس کے جراثیم وہاں منتقل ہوجاتے ہیں، اگر کوئی فرد اُس جگہ کو چُھو لے اور اسے اپنی آنکھوں پر پھیر لے تو اُس کے آشوب چشم میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس وقت عوام النّاس کو آشوب چشم سے بچنے کے لیے خصوصی احتیاط کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ کہا جاتا ہے کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔ آشوب چشم کا شکار ہونے پر مستند ماہر امراض چشم سے اپنا معائنہ کرائیں اور ان کے مشورہ پر سختی کے ساتھ عمل کریں۔ متاثرہ مریض دھوپ میں نکلنے سے اجتناب کریں۔ اگر گھر سے باہر نکلنا ضروری ہو تو سن گلاسز کا استعمال کریں۔ ہاتھوں کو اچھی طرح دھوئیں۔ صفائی کا خصوصی خیال رکھیں۔