Editorial

پی آئی اے کی بہتری کیلئے راست اقدامات ناگزیر

گزرے وقتوں میں پی آئی اے کا شمار دُنیا کی بہترین ایئر لائنز میں ہوتا تھا۔ اس نے دُنیا کی کئی معروف ایئر لائنز کی آبیاری میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان پرواز کمپنیوں کے عملے کی تربیت پی آئی اے کی زیر سرپرستی کی گئی۔ اُن کو تمام اسرار و رموز سے آشنا کیا گیا۔ آج وہ دُنیا میں منفرد مقام رکھتی ہیں اور اُن کی تعریف و توصیف میں ہر مسافر زمین و آسمان کے قلابے ملاتا نظر آتا ہے جب کہ ان پودوں کو پروان چڑھانے والی قومی ایئر لائن آج اپنی قسمت پر ماتم کناں ہے۔ عرصہ دراز سے پی آئی اے کی تنزلی کا سفر متواتر جاری ہے۔ اس میں بہتری کی کوئی سبیل دِکھائی نہیں دیتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ حالات دگرگوں ہوتے چلے جارہے ہیں۔ خسارہ بڑھتا چلا جارہا ہے اور قرضوں کا انبار لگتا چلا جارہا ہے۔ ایک زمانے میں یہ انتہائی نفع بخش ادارہ تھا اور قومی خزانی میں اپنا بھرپور حصہ ڈالتا تھا۔ اس کے ذریعے سفر کرنے والے مسافروں کو تمام تر سہولتیں فراہم کی جاتی تھیں۔ شکایات کا ہلکا سا اندیشہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ بہترین سروسز پر ہر کوئی تعریف کرتا تھا۔ پھر نہ جانے اس ادارے کو کس کی نذر لگ گئی اور یہ آہستہ آہستہ گراوٹ کا شکار ہوا۔ حالات سنورنے کے بجائے بگڑتے چلے گئے۔ سُدھار کی سنجیدہ کوششیں نہ کی جاسکیں اور آج صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ پی آئی اے کے فلائٹ آپریشن کے بند ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ ’ جہان پاکستان‘ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق قومی ایئر لائن ( پی آئی اے) کے مالی بحران کے باعث فلائٹ آپریشن بند ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا،2دن میں رقم نہ ملنے پر 15طیارے گرائونڈ کرنا پڑیں گے۔ پی آئی اے کا مالی بحران مزید سنگین ہوگیا اور نگراں حکومت تذبذب کا شکار ہے، ذرائع نے بتایا کہ فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے فلائٹ آپریشن بند ہونے کا خدشہ ہے۔ ذرائع پی آئی اے کا کہنا ہے کہ 2دن میں فنڈز نہ ملے تو فلائٹ آپریشن شدید متاثر ہوگا اور اندرون و بیرون ملک جانے والی 30سے زائد پروازیں معطل ہونے کا خدشہ ہے۔ ذرائع نے کہا ہے کہ رقم فوری طور پر مہیا نہ ہونے سے 15طیارے گرائونڈ کرنا پڑیں گے، پی آئی اے کو فلائٹ آپریشن جاری رکھنے کے لیے فنڈز کی فوری اشد ضرورت ہے اور نگراں حکومت نے پی آئی اے کو فنڈ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پی آئی اے کو قرضوں، سود، طیاروں، انجن کی لیز، پرزہ جات کی ادائیگیوں پر مشکلات کا سامنا ہے، جس میں پی آئی اے کو 20ارب روپے سے زائد ادائیگیوں میں فیول، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، لیز پر طیاروں کی ادائیگیاں شامل ہیں۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ پی آئی اے کی تنظیمِ نو کے اعلان کے بعد وزارت خزانہ مزید فنڈز یا قرضوں میں تعاون کو تیار نہیں۔ وزارت ہوا بازی کا کہنا تھا کہ پی آئی اے تنظیمِ نو پیچیدہ عمل ہے، جسے مکمل کرنے میں ایک سال درکار ہوگا، تنظیمِ نو کے دوران پی آئی اے کا آپریشنل رہنا ضروری ہے ورنہ سنجیدہ سرمایہ کاری نہیں آسکے گی۔ دوسری جانب ترجمان پی آئی اے عبداللہ خان نے کہا کہ ہم نے حکومت پاکستان کے تعاون سے بینکوں کے ذریعے قرض حاصل کرنے کے لیے اقدامات کر لیے ہیں، فنڈز کا اجرا ہوتے ہی طیاروں کے پرزہ جات، انجن اور سود کی ادائیگیاں کی جائیں گی۔ عبداللہ خان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے اپنی تاریخ کا بلند ترین ریونیو کما رہا ہے، لیکن بینک اور لیزنگ کمپنیاں اس کو پہلے ہی اُٹھا لیتی ہیں۔دوسری جانب ذرائع یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ پی آئی اے ملازمین کو تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔ طیاروں کے لیے ایندھن ملنے میں مشکلات کا سامنا ہے جب کہ فنڈز کی قلت کے باعث کراچی سے فیصل آباد، اسلام آباد اور لاہور کی دو طرفہ پروازیں منسوخ کردی گئی ہیں۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ کراچی سے تربت، بہاولپور اور سکھر کی پروازیں بھی منسوخ کردی گئی ہیں جبکہ کراچی سے بیرونِ ملک جانے والی مسقط کی بھی دو طرفہ پروازیں منسوخ کردی گئیں۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ فنڈز کی قلت سے پی آئی اے کے تمام ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی بھی نہ ہوسکی، جس کے لیے پی آئی اے نے حکومت سے فنڈز کی فوری فراہمی کی درخواست کی ہے۔ ترجمان پی آئی اے کے مطابق انتظامیہ وزارت خزانہ سے بھی رابطے میں ہے اور فنڈز ملتے ہی ملازمین کی تنخواہیں ادا کردی جائیں گی۔ مذکورہ بالا صورتحال تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکریہ بھی ہے۔ ملک کا ایک اہم ادارہ خاصی مشکلات کا شکار ہے۔ محب وطن عوام اس اہم قومی ادارے کی اس کیفیت پر شدید کرب سے دوچار ہیں۔ پی آئی اے کی بہتری کے لیے ایسے اقدامات ناگزیر ہیں، جن سے صورتحال بہتر رُخ اختیار کر سکے۔ ضروری ہے کہ پی آئی اے کو پھر سے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا نا صرف بندوبست کیا جائے، بلکہ اسے ملک و قوم کے مفاد میں نفع بخش بنانے کے لیے بھی راست اقدامات ممکن بنائے جائیں۔ اس میں پائی جانے والی خرابیوں کو تلاش کیا جائے اور ہنگامی بنیادوں پر ان کا خاتمہ کیا جائے۔ سُدھار کے لیے بہترین لائحہ عمل ترتیب دیا جائے۔ قومی ایئر لائن آج بھی منافع بخش ادارہ بن سکتا ہے۔ بس اس کے لیے ایمان دار اور بے داغ کردار کی حامل شخصیات کا انتخاب کیا جائے اور اُنہیں اس کو بہتری کی راہ پر گامزن کرنے کا ٹاسک سونپا جائے۔ بدعنوانی کا عنصر اگر اس میں موجود ہے تو اُسے سختی سے اُکھاڑ پھینکا جائے۔ کرپٹ عناصر کی کسی بھی ادارے میں چنداں ضرورت نہیں۔ یہ وہ دیمک ہیں جو اہم قومی اداروں کو عرصہ دراز سے چاٹتی چلی آرہی ہیں۔ ان کا سختی کے ساتھ تمام قومی اداروں سے خاتمہ کیا جائے۔ یقیناً درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے اور قومی ایئر لائن پھر سے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کر سکے گی۔
دہشت گردوں کے حملے میں 2 اہلکار شہید
ملک عزیز میں چند سال دہشت گردی کا عفریت قابو میں رہا، اب پچھلے کچھ مہینوں سے یہ پھر سے کنٹرول سے باہر ہوتا نظر آرہا ہے۔ دہشت گرد سیکیورٹی فورسز کو نشانے پر رکھے ہوئے ہیں اور مسلسل ان پر حملے کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں کئی اہلکار شہید ہوچکے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز نے پھر سے دہشت گردی کے عفریت کے خاتمے کے لیے آپریشنز کا آغاز کر دیا ہے اور ملک کے مختلف حصوں میں شرپسندوں کے خلاف کارروائیاں عمل میں لائی جارہی ہیں، جن میں کامیابیاں بھی نصیب ہورہی ہیں۔ کئی دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا جا چکا ہے۔ کئی گرفتار ہوچکے۔ یہ کارروائیاں دہشت گردوں کے مکمل خاتمے تک جاری رہیں گی۔ پاک افواج دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے پُرعزم ہیں اور جلد ان کو کنٹرول کرنے میں سرخرو ہوں گی۔ گزشتہ روز بھی دہشت گردوں نے تخریبی کارروائیاں کیں، جن کے نتیجے میں دو اہلکار شہید ہوگئے۔ اخباری اطلاع کے مطابق پشاور میں سیکیورٹی فورسز کی گاڑی کے قریب دھماکے اور ڈیرہ اسماعیل خان میں فائرنگ سے دو اہلکار شہید، 7زخمی ہوگئے۔ پشاور میں ورسک روڈ پر سیکیورٹی فورسز کی گاڑی کے قریب بم دھماکے میں ایک اہلکار شہید ہوگیا۔ ترجمان ریسکیو کے مطابق دھماکے میں فرنٹیئر کور کے 5اہلکار اور 2شہری بھی زخمی ہوئے، جنہیں طبی امداد کے لیے لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ ایس پی ورسک نے بتایا کہ دھماکا خودکُش نہیں، آئی ڈی بلاسٹ تھا، پہلے سے کوئی تھریٹ نہیں تھی، تحقیقات جاری ہے، پولیس اور بم ڈسپوزل سکواڈ کے اہلکاروں نے جائے وقوعہ کا محاصرہ کرکے شواہد اکٹھے کر لیے۔ نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے فورسز کی گاڑی کے قریب دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شہید ہونے والے سیکیورٹی اہلکار کے بلند درجات کے لیے دعا گو ہیں، شہید سیکیورٹی اہلکار کے غم میں برابر کی شریک ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے پولیس اہلکار شہید ہوگیا۔ دہشت گردوں کی فائرنگ سے جاں بحق پولیس اہلکار کی شناخت سمیع اللہ کے نام سے ہوئی۔ ریسکیو اہلکاروں نے شہید پولیس اہلکار کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال منتقل کر دیا جبکہ واقعے کی تحقیقات اور ملزموں کی گرفتاری کے لیے کارروائی کا آغاز کر دیا۔ شہید اہلکاروں کے غم میں پوری قوم ان کے لواحقین کے ساتھ شریک ہے۔ شہدا ہمارا فخر ہیں۔ انہی کی بدولت پوری قوم چین کی نیند سوتی ہے۔ ملک کی خوش قسمتی کہ اسے ایسے سپوت وافر تعداد میں میسر ہیں، جو ملک و قوم کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ملک سے تمام دہشت گردوں کا صفایا کرنا ناگزیر ہے۔ امن کے ان دشمنوں کے خلاف قوم میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ افواج پاکستان ان کا خاتمہ کرنے کے لیے مصروفِ عمل ہیں اور ملک بھر میں کارروائیاں عمل میں لائی جارہی ہیں۔ ان شاء اللہ جلد ہی ملک سے ان کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا اور ملک بھر میں امن و امان کی فضا بحال ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button