Ali HassanColumn

نتیجہ خیز کارروائی ضروری ہے

علی حسن
پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں نئی بات کیا ہے۔ اس میں اضافہ ہوتے ہوتے ہی تو قوم موجودہ بحران کا شکار ہو گئی ہے۔ وسائل سے محروم لوگ لب دم ہیں۔ آٹا کا بحران اور ذخیرہ اندوزی، ، چینی کا بحران اور ذخیرہ اندوزی، کھاد کی ذخیرہ اندوزی، بجلی کی چوری، پھر آئی ایم ایف کا مقرر کردہ ریٹ، ڈالر کا ذخیرہ اور سمگلنگ، چینی کی سمگلنگ، ایران سے پٹرول کی سمگلنگ، آٹا کی سمگلنگ، وغیرہ وغیرہ۔ ان سب چیزوں نے قوم کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ یہ ساری خرافاتیں پیسہ بنانے کے لئے ہیں اور لوگوں نے خوب پیسہ بنایا۔ ملک میں کالا دھن تلاش کریں تو مٹی میں بھی ملے گا، سونے میں بھی ملے گا، تجوریوں میں بھی ملے گا۔ حکومتیں ان تمام خباثتوں پر قابو پانے میں نا کام رہی ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت تیرہ سیاسی جماعتوں کے سیاسی اتحاد پی ڈی ایم کی حکومت کوئی بھی نتیجہ خیز کارروائی میں ناکام رہی۔ اب نگران حکومت ہے جس کی آئینی ذمہ داری ملک میں عام انتخابات کا پر امن انعقاد کرانا ہے۔ وہ بھی خباثتوں پر قابو پانے کے اقدامات کرنے کا یقین بھی دلا رہی ہے اور کر رہی ہے جس کا نتیجہ برآمد ہوتا نظر اس لئے نہیں آتا کہ یہ خباثتیں اور بیماریاں فوری پیدا نہیں ہوئی ہیں اور نہ ہی ان کا خاتمہ فوری ہوگا۔ پاکستانی معاشرہ میں پائی جانے والی یہ دائمی بیماریاں ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے تو 11اگست 1947 کو پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں ان بیماریوں کو ذکر کیا تھا اور زور دے کر تلقین کی تھی کہ ان بیماریوں کو یہیں ( ہندوستان میں) چھوڑ کر پاکستان جائیں اور اپنے ساتھ لے کر نہیں جائیں۔ آج ہم نتیجہ دیکھ رہے ہیں کہ پاکستانیوں نے قائد اعظمؒ کی تلقین پر کان ہی نہیں دھرے، اسی لئے موجودہ صورت حال سے دوچار ہو گئے ہیں۔ فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کی صنعتکاروں اور تاجر رہنمائوں کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران کی گئی گفتگو کے بعد ملک بھر میں انتظامیہ ذخیرہ اندوزی اور چوریوں کے خلاف اس طرح سر گرم ہو گئی ہے جیسی وہ پلک جھپکتے ہی تمام خرابیوں کا قلع قمع کر دے گی۔ فوج کی پٹ سن کی سمگلنگ کے خلاف پہلی کارروائی آپریشن کلوز ڈور تھی۔ اس سے لے کر آج تک ہر کارروائی کو وقتی یا چند ہفتوں کا نتیجہ نکلا ہے اور اس کے بعد وہ ہی پرانی ڈگر۔ انتظامیہ ہو یا پولس وہ کیوں نہیں خباثتوں اور خرابیوں کے خاتمہ کے خلاف سرگرم کیوں نہیں رہتی ہیں۔
نگران حکومت کے سربراہ وزیر اعظم کا ارشاد ہے کہ ’’ ہوسکتا ہے ہم ٹیکس سے متعلق کچھ سخت فیصلے لیں۔ دو تین طبقات ہیں جو ٹیکس نیٹ میں آنے پر مزاحمت کر رہے ہیں، ہوسکتا ہے کہ ہم ٹیکس سے متعلق کچھ سخت فیصلے لیں ۔ ملک میں 90فیصد لوگ ٹیکس میں حصہ ہی نہیں ڈالتے، کوشش ہے کہ ٹیکس نیٹ 20، 22فیصد تک بڑھائیں، ٹیکس چوری روکنی ہے اور ٹیکس نیٹ بھی بڑھانا ہے، ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے فوج کی نہیں ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے، ٹیکس سے متعلق پلان موجود ہے جلد اس پر کام شروع کر رہے ہیں۔ نگراں وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ معاشی میدان میں کچھ فیصلوں کے اختیارات دئیے گئے ہیں، اختیارات اس لیے دئیے گئے ہیں کہ وہ مشکل فیصلے ہوں جو شاید سیاسی جماعت مستقبل میں بھی نہ لے سکے، مشکل فیصلوں کا فائدہ عوام کو ہوگا، جو بھی جماعت مستقبل میں حکومت بنائے گی وہ اس مدت کے فیصلوں کو جاری رکھ سکے گی۔
وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ہم چاہ رہے ہیں کہ سمت ٹھیک ہو جائے، منتخب حکومت جو بھی آئے آگے لیکر چلے، میثاق معیشت ایک خوشنما اور اچھا نعرہ ہے، میثاق جمہوریت سیاسی جماعتوں نے کرنی ہے، مجھے خوشی ہوگی اگر سیاسی جماعتوں کے درمیان میثاق جمہوریت ہو، میثاق جمہوریت کیلئے سیاسی جماعتیں کام شروع کرے ہماری دعائے خیر ساتھ ہوگی۔ یہ نگران وزیر اعظم کی خوش فہمی ہے۔ اس ملک میں کوئی بھی حکومت سمت ٹھیک نہیں کر سکی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں تمام کام، کارروائیاں اور اقدامات مصلحتوں اور سمجھو توں کے پیش نظر کی جاتی ہے۔ جن معاشروں میں مصلحتوں اور سمجھوتوں کو قانون پر فوقیت اور ترجیح دی جاتی ہے ان ممالک کو پاکستان جیسی تکلیف دہ صورت حال کا ہی سامنا رہتا ہے۔ یہاں بڑے بڑے میدان میں لنگوٹ کس کر آئے تھے لیکن ٹیکس ادا نہ کرنے کی جن لوگوں نے ٹھان رکھی ہے انہوں نے انہیں بھگا دیا۔ اول تو لوگ جن کو ٹیکس دینا چاہئے اپنی رضا مندی سے ٹیکس کھبی ادا نہیں کریں گے، دوم یہ کہ جن عمال کی ذمہ داری ٹیکس وصول کرنا ہے وہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی بجائے پیسہ بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔ ساری خباثتوں کی جڑ رشوت ہے اور پاکستان کے سرکاری محکمہ اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ کسی بھی خباثت کو چھان پھٹک کریں، اس کی بنیاد میں رشوت کا عنصر ہی ملے گا۔ جب یہ عنصر ہوگا تو خرابی تو اپنی جگہ برقرار ہی رہے گی۔ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی ہو یا پڑوسی ملک منتقلی، ایرانی تیل کی ملک میں سمگلنگ اور کھلے عام فروخت وغیرہ۔
پاکستان میں حکومتوں کی ایک اور بڑی خرابی ہے کہ یہاں اقدامات، پالیسیوں اور منصوبہ بندی کا تسلسل قائم نہیں رکھا جاتا ہے۔ اس وجہ سے کبھی بھی کسی کا نتیجہ سامنے نہیں آیا البتہ خاطر خواہ رقم ضرور پانی کی طرح بہہ گئی۔ کسی بھی حاکم کو دکھ اس لئے نہیں ہوا کہ پیسہ ان کا نہیں تھا۔ پیسہ تو آئی ایم ایف سے قرضہ لیا گیا جس کی واپسی پاکستان کے ذمہ ہے۔ عام لوگوں کو تسلی دینے کے لئے اس طرح کی خبریں دی جاتی ہیں۔ ’’ ڈالر ذخیرہ اندوزی کے خلاف کریک ڈائون کے لیے آخری معرکے کی تیاریاں، فہرستیں بنا لی گئیں‘‘، ’’ ایف آئی اے، حساس ادارے اور سٹیٹ بینک نے ڈالر ذخیرہ اندوزی کے خلاف گرینڈ آپریشن کیلئے کمر کس لی، ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کرنے والی کمپنیز اور افراد کی نشاندہی کر لی گئی ہے‘‘، ’’ ایف آئی اے اور حساس اداروں نے ایکسچینج کمپنیوں کا دو سال کا ڈیٹا حاصل کر لیا، غیر معمولی تعداد میں ڈالر لینے والوں کی بھی فہرست بھی تیار کر لی گئی ہے ‘‘ ، ’’ ایف آئی اے اور حساس اداروں نے بینکوں سے لاکرز مالکان اور سامان کی تفصیلات بھی جمع کرنا شروع کر دیں، ایف آئی اے اور سٹیٹ بینک کو اطلاعات ہیں کہ ڈالرز بڑی تعداد میں بینک لاکرز میں ذخیرہ ہیں‘‘، ’’ ایف آئی اے ڈالرز ریکوری آپریشن میں جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے بینک لاکرز کو سکین کر سکیں گے، ایف آئی اے اور حساس اداروں کو ڈالرز ذخیرہ اندوزی کیخلاف کریک ڈائون سے ڈالرز کی قدر میں بڑی کمی کا یقین ہے‘‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button