ColumnImtiaz Ahmad Shad

ذرا سوچئے

امتیاز احمد شاد
آہ و بقا، چیخ و پکار اب آسمان کا سینہ چیر چکے۔ تباہی تمام درودیوار گرا کر صحن کے عین وسط میں خیمہ زن ہو چکی۔ بربادی ہر دروازے پر زور دار دستک دے چکی۔ شاید ہی کوئی فرد ایسا ہو جو اس کی لپیٹ میں نہ آیا ہو۔ سب کے خانے خراب ہو چکے مگر مقتدر حلقے ابھی بضد ہیں کہ خانہ جنگی کا کوئی خدشہ نہیں۔ کسی بھی ملک میں خانہ جنگی کی ایک اہم وجہ مہنگائی ہوتی ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہر گزرتے دن کے ساتھ مہنگائی میں اضافہ ہوتا آرہا ہے ۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جس چیز کی قیمت ایک دفعہ بڑھی ہو اور پھر اس میں کمی لائی گئی ہو، لیکن سابق حکومت کے16ماہ میں جو ریکارڈ مہنگائی ہوئی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اگرچہ اس مہنگائی کی ایک بڑی وجہ کرونا ایسی وبا کا آنا بھی ہے جس کے اثرات ابھی تک ترقی پزیر ممالک میں موجود ہیں مگر بنیادی وجہ حکومتوں کی غلط پالیسیاں اور حکمرانوں کی ترجیحات ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اتحادی حکومت جب تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں قائم ہوئی تو اس نے عوام کو جو خواب دکھائے ، اور اپنی آمد کی جو وجوہات بیان کیں ان میں کسی ایک چیز میں بھی بہتری نہیں لا سکے، بلکہ حالات کو بد سے بد تر کر دیا۔ آج حالات یہ ہیں کہ مہنگائی گزشتہ ایک سال سے اس قدر بڑھ چکی کہ لوگو میں اب قوت خرید ہی نہیں رہی۔ آج سب مان رہے ہیں کہ ہم بری طرح سے آئی ایم ایف کے جال میں جکڑے جاچکے۔ پٹرول کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے کرایہ آسمان سے باتیں کر رہا ہے جب کہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو پر لگ چکے ہیں۔ آٹا، سبزی، گھی، دودھ سب ہی عوام کی پہنچ سے دور ہیں۔ نگران حکومت جہاں کوئی بہتر پالیسی نہیں بنا پا رہی وہیں ملک میں موجود مافیا کے آگے بھی بے بس ہے۔ ملک میں دودھ 200 روپے سے 210روپے فی کلو تک فروخت کیا جارہا تھا کہ ڈیری فارمرز کی جانب سے دودھ کی قیمتوں میں مزید بیس روپے کے اضافے کا اعلان کر دیا گیا۔ لہٰذا عوام نہ آٹا کھائیں، نہ سبزی خریدیں اور نہ ہی دودھ پیئیں۔ حال یہی رہا تو وہ وقت زیادہ دور نہیں جب ہر طرف بھوک و افلاس کے سائے ہوں گے۔ ملک میں عوام کی ایک بڑی تعداد غربت کے عذاب سے دوچار ہے۔ مہنگائی کے بے قابو جن نے ملازمت پیشہ افراد کی کمر توڑ دی ہے۔ ایسا جہاں بھی ہو اس ریاست میں جرائم میں اضافہ ہوجاتا ہے اور یہی سب اب وطن عزیز میں بھی ہورہا ہے۔ جہاں بھوک ہو وہاں تہذیب نہیں رہتی۔ جسم فروشی عام ہورہی ہے، لوگ بھیک مانگنے پر مجبور ہیں، کہیں فاقہ و افلاس
اور کہیں چوری ڈکیتی، لیکن سیاستدان اس سب سے منہ موڑے ایک دوسرے پر الزام لگانے اور عیاشیوں میں مشغول ہیں۔ اس ملک میں ہر شعبہ حیات اس وقت مکمل بے قابو ہے۔ جب دل چاہے قیمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں اور پھر اس اضافے کا ذمے دار حکومت کی پالیسیوں کو قرار دے کر پرسکون ہوجاتے ہیں۔ اس بار قیمتوں میں اضافے سے عوام کا جو کچومر نکلا ہے اس حوالی سے ادارے سنجیدہ نہیں۔ اشیائے ضروریہ کو سستا کرنے کیلیے منسٹری آف کامرس اور منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ میں بیٹھے افراد درست فیصلے کریں تو اشیائے ضروریہ عوام کی قوت خرید میں آجائیں گی اور اگر اب بھی ڈیری و پولٹری سیکٹر کی ضرورت پوری کیے بغیر اجناس کے بائی پروڈکٹس کی ایکسپورٹ جاری رہے گی تو ہمارا انحصار امپورٹڈ اجناس پر ہی ہوگا، جس سے مہنگا دودھ، گوشت، مرغی اور انڈے پیدا ہوں گی اور اس ایکسپورٹ کے نتیجے میں بڑھنے والی مہنگائی کا خمیازہ صارف ہی بھگتے گا۔ ڈیری فارمرز نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر حکومتی پالیسی یہی رہی تو دودھ کی قیمتیں300روپے کلو تک بھی جاسکتی ہیں۔ نگران حکومت کی عدم دلچسپی اور مافیاز کی اس ہٹ دھرمی سے جہاں عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے، وہیں کاروبار بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ملک میں کاروباری طبقہ اپنی جگہ پریشان ہے جب کہ عوام اپنا رونا رو رہے ہیں۔یہ سب ہمارے حکمرانوں کا کیا دھرا ہے کہ آج ہم آئی ایم ایف کے اس حد تک مرہون منت ہو چکے کہ عوامی استعمال کی کسی بھی چیز کی قیمت کا ہم تعین کرنے سے بھی عاجز ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ملک و قوم کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرنے والے آج ایک مرتبہ پھر عوام کو جھانسہ دینے کے لئے نگران حکومت کو کوستے نظر آتے ہیں۔ مسائل اس قدر لاتعداد اور لامتناہی ہیں کہ ان کے حل کی جانب ریاستی دماغ بھی جانے سے گھبراتا ہے۔ غصے سے لبریز عوامی لہجہ یہ نوید سنا رہا ہے کہ جھونپڑیوں میں سکون انہیں میسر نہ آیا تو پھر محلات میں چین سے وہ بھی نہیں بیٹھیں گے جو عوامی درد سے مکمل بے خبر ہیں۔ اقوام پر مشکل وقت آتے رہتے ہیں، قومیں ہمیشہ مشکلات سے نکل کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوتی ہیں۔ جن اقوام کے لیڈر مال و دولت جمع کرنے میں لگ جائیں وطن عزیز کے لیئے ان کی ہر قربانی رائیگاں جاتی ہے۔ قوم بیچاری 76سال سے قربانیاں ہی تو دیتی آرہی ہے، مگر اشرافیہ ہر دور میں ان سے قربانی لے کر خود کو مزید طاقتور کرتا آیا ہے۔ کبھی تو رکنا پڑے گا، اجتماعی قربانی دینا پڑے گی۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر جو بچا ہے وہ لٹ جائے گا اور جو امید ہے وہ بکھر جائے گی۔ ہر بار عوام کو دھوکہ دینا جن کا وتیرہ بن چکا اس بار انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دھوکہ کھانے والوں میں اب سکت نہیں رہی۔ نیت درست کرو، مسائل سامنے ہیں، گھبرانے کے بجائے حل تلاش کرو یقینا حل مل جائے گا۔ کسی بھی مسئلے کے متعلق تحقیقات کرنے کے بعد ایک سوال جو ہمیشہ سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا اس مسئلے کا حل ممکن ہے یا نہیں؟ تو یاد رکھئے دنیا میں کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں جس کا حل ممکن نہ ہو۔ اس وقت ملکی مسائل کا واحد حل اتحاد ہے۔ سیاستدان اپنی انا کی بھینٹ اس ملک کو چڑھانے سے گریز کریں۔ ملک میں انتخابات کرائے جائیں اور عوام کو اپنا حکمران چننے کا مکمل اختیار دیا جائے۔ انتخابات کے بعد سیاسی انتقام اور کارروائیوں سے گریز کرکے سب ایک میز پر بیٹھ کر ملکی مسائل کا حل تلاش کریں۔ ملک کے اخراجات کو کم کیا جائے، امپورٹ کو کم اور ایکسپورٹ کر بڑھایا جائے۔ ملک میں موجود مافیاز کو لگام دی جائے۔ عوام سے تعاون کی اپیل کی جائے اور سودی نظام کا خاتمہ کیا جائے۔ ملک میں کسان اور چھوٹے کاروبار کو مستحکم کیا جاءے تاکہ ملازمتوں میں اضافہ ہو اور سب سے اہم یہ کہ مزید قرض لینے سے گریز کیا جائے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا اعتماد بحال کیا جائے تاکہ ملک میں پیسہ آسکے۔ آنے والی ہر حکومت آئی ایم ایف سے معاہدوں اور بین الاقوامی برادری سے قرض لینے کو اپنی کامیابی قرار دیتی ہے اور ایسا کرنے کے بعد ان کے سامنے نظریں جھکا کر، عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈال کر، ملک گروی رکھوا کر بغلیں بجاتی ہے۔ کیا کبھی کوئی قرضوں میں ڈوبا ہوا فرد یا ملک بھی کامیاب ہوا ہے؟ یہ وقت اب قربانی کا ہے۔ ملک کے ہر فرد کو کم آمدنی میں گزارا کرنا ہوگا۔ اس ملک کی خاطر آسائشوں کو چھوڑنا ہوگا ۔ عوام سے لے کر سیاستدانوں اور اہم اداروں تک ہر ایک کو اب اخراجات میں کمی لانا ہوگی، ورنہ شاید ہم بس تاریخ کے اوراق میں ہی باقی رہ جائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button