ColumnM Riaz Advocate

سی پیک بمقابلہ بھارتی اکنامک کوریڈور

محمد ریاض ایڈووکیٹ
جی 20سربراہی اجلاس کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ’’ انڈیا، مشرق وسطیٰ، یورپ اکنامک کوریڈور‘‘ کا اعلان کیا ۔ اس گیم چینجر کوریڈور کا آغاز بھارت کے شہر ممبئی کی بندرگاہ سے ہوگا اور براستہ سمندر پہلا پڑائو متحدہ عرب امارات کی بندرگاہ جبل علی پر ہوگا ۔ جبل علی پورٹ سے ریلوے ٹریک کے ذریعہ یو اے ای کے شہر الغویفات کے بعد سعودی عرب کے شہروں حرض ، ریاض اور الحدیثہ اور اردن کے شہروں سے گزرتے ہوئے اسرائیلی مشہور بندرگاہ حائفہ تک پہنچے گا۔ حائفہ بندرگار سے یہ سفر دوبارہ سے سمندری راستہ سے شروع ہوکر یونان کی بندرگاہ پائیروس پھر اٹلی، فرانس اور جرمنی تک اختتام پذیر ہوگا۔ اس کوریڈور کی کیا اہمیت ہوگی ؟ اسکا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں ہندو، مسلم، عیسائی اور یہودی مذہب کے ماننے والے شراکت دار ہیں یعنی بھارت، سعودی عربیہ، اسرائیل و یورپی ممالک۔ یعنی بات مذہب سے زیادہ معاشیات پر چلی گئی ہے۔ ایک طرف ہم پاکستانی سعودی حکمرانوں سے چندہ اور قرضہ لیکر بھولے نہیں سماتے دوسری جانب بھارت نے مسلمانوں کیروحانی مرکز کے خادمین اور اسرائیل و یورپ کو ایک فورم پر اکٹھا کرکے اپنا شراکت دار بنا لیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اسے ایک ایسا معاہدہ قرار دیا ہے جس سے مشرق وسطیٰ میں خوشحالی آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اپنے آپ میں ایک بڑی ڈیل ہے جو دو براعظموں کی بندرگاہوں کو جوڑنے سے مشرق وسطیٰ میں زیادہ خوشحالی، استحکام اور ہم آہنگی لائے گی۔ یقینی طور پر بھارت کو اس تاریخی منصوبہ کو کامیاب کروانے میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اسرائیل، امریکہ اور یورپ کی حمایت حاصل ہوگی۔ یہ راہداری منصوبہ ہندوستان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن، اسرائیل اور یورپی یونین کو جہاز رانی، بندرگاہوں اور ریلوے ٹریک کے ذریعے جوڑ دے گا، جس سے ان ممالک کے درمیان تجارت کو تیز تر اور سستا بنایا جاسکے گا اور پورے خطے میں اقتصادی تعاون کے ذریعہ معاشی انقلاب برپا ہوجائے گا۔ جہاں یہ منصوبہ ہندوستان اور یورپ کے درمیان تجارت کو تیز بنانے میں معاون ثابت ہوگا وہیں یہ منصوبہ اسرائیل اور خلیجی ریاستوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے اور خطہ میں موجود کھچائو میں کمی کا باعث بھی ثابت ہوگا۔ یاد رہے امریکہ اور اسرائیل عرصہ دراز سے اسی بات کے خواہاں ہیں کہ فلسطین جیسے دیرینہ مسئلہ کو پس پشت ڈال کر اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے درمیان آزادانہ تجارت اور باہمی تعلقات کو خوشگوار کیا جائے اور یقینی طور پر امریکی اور اسرائیلی حکام اس منصوبہ کی بدولت خطہ میں پائے جانے والے کھچائو کو ختم نہیں تو بہت حد تک کم کرنے میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ اقدام چین کی جانب سے بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ جو اس وقت ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ تک پھیلتا جارہا ہے اس کے مقابل توازن فراہم کرنے کا باعث بھی بنے گا۔ بظاہر اس منصوبہ کی تکمیل میں کسی قسم کی رکاوٹ دیکھنے کو نہیں ملے گی کیونکہ اس کے شراکت داروں میں بھارت، سعودی عرب، اسرائیل اور یورپی ممالک شامل ہیں اور امریکہ بہادر کی آشیرباد بھی حاصل ہے۔ سی پیک کی بات کی جائے تو پاکستانیوں کو ماضی کے واقعات یاد ہی نہیں رہتے اور نہ ہی تاریخ سے کچھ سبق حاصل کرتے ہیں۔ چاہے وہ مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش کا سانحہ ہو، بھٹو کی پھانسی ہو ، امریکی اشاروں پر دو مرتبہ افغانستان کی جنگوں میں شرکت سے اربوں ڈالر اور لاکھوں جانوں کا نقصان ہو۔ قومی لیڈر بے نظیر بھٹو کا قتل ہو یا قومی ہیرو عبدالقدیر خان کی بے قدری یا پھر کارگل کی مہم جوئی۔ کشمیر لیتے لیتے آدھا ملک اور سیاچن ہی گنوا بیٹھے۔ ماضی قریب ہی میں دیکھ لیں ہم نے سی پیک کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا؟ سی پیک کے سنگ بنیاد سے پہلے کیا کیا رکاوٹیں کھڑی نہیں کی گئیں؟ بھارت سمیت دیگر ممالک کی جانب سے سی پیک کے خلاف ظاہری اور پوشیدہ طورپر سازشیں شروع کردی گئیں۔ کٹھ پتلیوں کے ذریعہ سی پیک کی راہ میں رکاوٹوں کے نہ رکنے والے سلسلہ کا آغاز کر دیا گیا۔ ڈی چوک اسلام آباد میں پاکستانی کرکٹر سیاستدان اور کنینڈین بابا کی صورت میں کیا کیا پتلی تماشے نہیں لگائے گئے؟ یہاں تک کہ ایک مرتبہ تو چائنہ کے صدر کے دورہ پاکستان کو ہی سبوتاز کروادیا گیا۔ اللہ اللہ کرکے سی پیک منصوبہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا تو پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر ففتھ جنریشن وار کے نام نہاد مجاہدوں کو سی پیک کے اوپر تبرا کرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا۔ گو نواز گو کے نعرے کو لانچ کیا گیا۔ سی پیک کی راہ میں رکاوٹوں کے نہ رکنے والے سلسلہ نے نوازشریف کو وزیر اعظم ہائوس سے نکال باہر پھینکا۔ سی پیک منصوبوں کے خلاف ایک طرف چینی ہنرمندوں پر دہشت گردی کے حملوں کا سامنا دوسری جانب سیاسی لیڈرشپ کو زبان درازی کے لئے کھلا چھوڑ دیا گیا۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کر دیا گیا۔ سی پیک منصوبوں میں کرپشن کرپشن کی نہ رکنے والی قوالی کو جاری رکھا گیا ۔ سی پیک رفتار کو سوچی سمجھی سازش کے تحت کچھوے کی چال چلایا گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ چین کو سی پیک کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین المعروف پاپا جان پیزے والی سرکار کو عہدہ سی ہٹانے کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا پڑا۔ سی پیک کی موجودہ حالت کا اندازہ درج ذیل سوالات ہی سے لگایا جا سکتا ہے۔ آج سی پیک کے منصوبوں کی رفتار کیا ہے ؟ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر سی پیک منصوبوں بارے کبھی کسی نے کوئی خبر یا پروگرام دیکھا ہو؟ سی پیک کے نام پر کبھی کوئی کانفرس، سیمینار دیکھا ہو؟ پاکستانی یا چائنہ کے حکام کی جانب سے سی پیک کے کسی نئے منصوبہ کا سنگ بنیاد یا تکمیل شدہ منصوبہ کے افتتاح کی تقریب کبھی میڈیا کی زینت بنی ہو؟ آج بھارتی اکنامک کوریڈور پر پاکستان کو طعنے مارنے والے وہی افراد نہیں جو کل تک سی پیک کے خلاف زبان درازی کیا کرتے تھے؟ ان تمام سوالوں کے جوابات اور فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیتے ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button