CM RizwanColumn

مودی کو سانپ سونگھ گیا

سی ایم رضوان
تقسیم ہند کے بعد 13ستمبر 1948کی بات ہو یا موجودہ 13ستمبر 2023کے حالات۔ غاصب، ظالم اور انسانی حقوق کا دشمن بھارت ہمیشہ سے ہی مجرم، خائن اور مکار ثابت ہوا ہے۔ آج سے ٹھیک 75برس قبل یعنی 13ستمبر 1948کو انڈین افواج نے ریاست حیدرآباد پر حملہ کیا تھا۔ تب سے خطے کی تین بڑی ریاستوں کشمیر، حیدر آباد اور جونا گڑھ بھارت جیسے غاصب کے پنجہ استبداد میں ہیں۔ ان تینوں ریاستوں نے گو کہ آزاد رہنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے مگر غاصب انڈیا ان کی آزادی پر مسلط ہے۔ تقسیم کے بعد حیدر آباد کو انڈیا میں ضم کروانے والے ہندو رہنما سردار ولبھ بھائی پٹیل نے حیدر آباد کو انڈیا کے دل کا ناسور کہا تھا اور اس کے آپریشن کو ضروری قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف فوجی کارروائی کروائی تھی۔ بھارتی افواج کے اس حملے میں ریاست حیدر آباد کے ایک گاں میں نوجوان خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔ جن میں عثمان نامی شخص کی پانچ بیٹیاں اور قاضی نامی شخص کی چھ بیٹیاں شامل تھیں۔ یہ ظلم صرف یہیں نہیں رُکا بلکہ اِن میں سے کئی لڑکیوں کے ساتھ کئی دنوں تک مسلسل زیادتی ہوتی رہی۔ اسی ریاست کے ایک دوسرے گاں میں لاڈلے نامی شخص کے گھر پر غیر مسلموں نے غیر قانونی قبضہ کر لیا۔ ایک اور گاں میں مسجد کا مینار توڑ دیا گیا اور اس کے اندر بُت رکھے گئے۔ گائوں کے دو مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنایا گیا اور انہیں مسجد میں بھجن گانے پر مجبور کیا گیا۔ ایک اور گائوں میں پیش آنے والے واقعے میں ریپ کا شکار درجنوں خواتین نے کنویں میں کُود کر خودکشی کر لی۔ اس طرح کے دیگر مظالم اور واقعات خود اس کمیٹی کی رپورٹ میں درج ہیں جو اس حملہ کو رپورٹ کرنے کے لئے نہرو حکومت کی طرف سے ’’ گڈ ول مشن ‘‘ کے طور پر بھیجی گئی تھی۔ یاد رہے کہ 1988 میں ایک مصنف عمر خالدی نے اپنے ذرائع سے یہ رپورٹ حاصل کر کے شائع کر دی تھی۔ بھارت کی حکومتی سطح کی یہ رپورٹ ستمبر 1948میں ریاست حیدرآباد کو انڈیا میں ضم کرنے کے بعد وہاں پیش آئے جنسی اور جسمانی تشدد کے دل دہلا دینے والے واقعات کا خلاصہ کرتی ہے۔ اس حملہ کے پانچ دن بعد یعنی 18ستمبر کو نظام حیدرآباد کے کمانڈر اِنچیف سید احمد العیدروس نے باضابطہ ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ انڈین حکومت اس فوجی آپریشن کو سرکاری سطح پر ’ پولیس ایکشن‘ اور ’ آپریشن پولو‘ بھی کہتی ہے۔ اس آپریشن اور اس کے بعد پیش آئے واقعات کے دوران حیدرآباد میں کشت و خون کا جو بازار گرم ہوا اس کی مکمل تفصیلات آج بھی صیغہ راز میں ہیں۔ اس دوران پیش آئے واقعات کے شواہد ’ سندر لال کمیٹی‘ کے ذریعے حکومت کو جمع کروائے گئے لیکن ان شواہد کو بھارتی حکومت نے کبھی پبلک نہیں کیا تاہم 1988میں مصنف عمر خالدی اس کے چند حصے منظر عام پر لے آئے۔ اس رپورٹ کے چند حصے دل دہلا دینے والی کہانیاں بیان کرتے ہیں۔ اس نوعیت کی دستاویزات میں سندر لال کمیٹی کی رپورٹ آج بھی سب سے اہم دستاویز ہے۔ گزشتہ برسوں میں اسے کئی محققین نے ٹکڑوں میں شائع کیا ہے لیکن مکمل رپورٹ، جو کہ وزارت داخلہ کو پیش کی گئی تھی، ابھی تک ڈی کلاسیفائی نہیں ہوئی۔ اس حوالے سے اب تک شائع ہونے والی دستاویزات میں سے ایک معروف آئینی ماہر اور مصنف اے جی نورانی کی ہے لیکن یہ بھی مکمل رپورٹ نہیں۔ کیونکہ رپورٹ جمع ہوتے ہی اسے مکمل طور پر دفن کر دیا گیا تھا۔ جو حصے دستیاب ہیں وہ اس رپورٹ کا مختصر خلاصہ ہیں۔ اموات کی حقیقی تعداد کے بارے میں کچھ وثوق سے تو نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم رپورٹ کے مطابق کم از کم دو لاکھ مسلمان ہلاک ہوئے لیکن اے جی نورانی نے رپورٹ کا جو حصہ شائع کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ایک انتہائی محتاط اندازے کے مطابق پوری ریاست حیدرآباد میں کم از کم 27سے 40ہزار افراد اس پولیس ایکشن میں اور اس کے بعد ہلاک ہوئے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ کمیٹی کے ارکان نے یہ رپورٹ مرتب کرنے کے لئے 29نومبر 1948سے 21دسمبر 1948کے درمیان حیدرآباد کے 16میں سے نو اضلاع کا دورہ کیا اور اضافی 109دیہاتوں میں 500سے زائد افراد کے انٹرویو کیے۔ تقسیم ہند کے دوران ہونے والے تشدد میں بے شمار لوگ ہلاک ہوئے تھے لیکن شاید ہی کسی سانحے کو حیدرآباد میں سرکاری سرپرستی میں ہونے والی فوجی کارروائی کے مقابلے اتنی گمنامی کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ دراصل انڈین حکومت نے شروعات سے ہی اس واقعے اور رپورٹ کو چھپانے کی پوری کوشش کی۔ انڈیا کے اس وقت کے وزیر داخلہ ولبھ بھائی پٹیل نے اس رپورٹ کی مذمت کرتے ہوئے اس کے مصنفین کے اختیار پر سوال اٹھایا اور کہا تھا کہ حکومت ہند کے ذریعے حیدرآباد میں گوڈول مشن بھیجنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تاہم نہرو نے مولانا آزاد، جنہیں پٹیل کی وزارت نے حیدرآباد میں اس وقت جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا، کے اصرار پر یہ کمیٹی بھیجی تھی۔ عمر خالدی کمیٹی کے اراکین میں سے ایک یونس سلیم تھے۔
برسوں بعد 1969میں جب یونس نے دہلی کے ایک اردو اخبار سے اس رپورٹ کا ذکر کیا تو پارلیمنٹ میں ہنگامہ برپا ہو گیا اور اُن پر، جو کہ اس وقت مرکزی کابینہ میں ایک جونیئر وزیر تھے، مسلح افواج کے کردار کو داغدار کرنے کا الزام لگایا گیا۔ اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اس رپورٹ کو طلب کیا اور مطالعے کے بعد اس پر مزید بحث کرنے سے اس بنا پر انکار کر دیا کہ اس سے قومی مفادات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ مطالبات کے باوجود بھارتی حکومت نے ابھی تک اسے پارلیمان میں پیش نہیں کیا۔ فیرفیلڈ یونیورسٹی کے پروفیسر سنیل پرشوتم کے مطابق انہوں نے 2010میں دہلی کے نہرو میموریل میوزیم اینڈ لائبریری میں اس تک رسائی حاصل کی تھی۔ لائبریری کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نورانی نے بھی 2010میں اس رپورٹ تک رسائی حاصل کی جو کہ 2013میں ان کی ’ ڈسٹرکشن آف حیدرآباد‘ نامی کتاب میں شائع ہوئی۔ اگرچہ ان سکالرز نے اس لائبریری سے اس رپورٹ کو حاصل کیا تھا لیکن جب حیدرآباد میں مقیم مورخ کیپٹن پانڈو رنگا ریڈی نے 2013میں آر ٹی آئی ( معلومات حاصل کرنے کے حق کے قانون) کے تحت یہ رپورٹ مانگی تو لائبریری نے یہ جواب دیا کہ ان کے پاس یہ رپورٹ موجود نہیں۔ یہ ممکن ہے کہ نورانی جیسے سکالرز تک رسائی شدہ کاغذات سندر لال کے ذاتی کاغذات کا ایک حصہ ہوں، نہ کہ حکومت کو پیش کی گئی مکمل سرکاری خفیہ رپورٹ جس کو جاری کرنے سے بھارتی حکومت کے گریزاں ہونے کی اہم وجوہات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ رپورٹ حکومت کے ہر دعوے سے برعکس تھی، حکومت یہ رپورٹ عام کرنے سے اس لئے بھی خوفزدہ تھی کیونکہ حیدرآباد کے خلاف جو پراپیگنڈا جنگ چلی تھی وہ بے نقاب ہو جاتی۔ اس کے علاوہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں زیر بحث تھا اور حکومت پوری کوشش کر رہی تھی کہ اس مسئلے کو مزید طول دینے سے روکا جائے۔
اسی درمیان سندر لال رپورٹ کے ایک حصے کو ریڈیو پاکستان نے کراچی سینٹر سے نشر کر دیا جو کہ انڈین حکومت کے لئے باعث ندامت تھا۔ انڈین فوج نے ایک پراپیگنڈا کتاب بھی شائع کی جس کا نام ’ حیدرآباد ری بورن: فرسٹ سکس منتھس آف فریڈم‘ تھا۔ اگرچہ اس کتاب نے مسلمانوں پر ہونے والے تشدد کے چند واقعات کو قبول کیا لیکن افواج کی کارروائی کو ایک ’ خون بہائے بغیر آنے والا انقلاب‘ قرار دیا۔ تاہم جو بات شبے میں ہے وہ ہے اموات کی صحیح تعداد۔ وہ کہتے ہیں کہ صحیح تعداد معلوم کرنا ہمیشہ مشکل ہو گا۔ البتہ اگر آپ کسی حیدر آبادی سے پوچھیں تو وہ کہے گا کہ لاکھوں مرے ہیں، اگر آپ حکومت کے ذرائع کی بات کریں تو وہ صرف دو، چار ہزار کی بات کرتے ہیں مگر یہ بات مستند ہے کی بڑی تعداد میں اموات ہوئی تھیں۔
بھارت کی کوئی بھی حکومت نہ ماضی میں اور نہ ہی حال میں ان اموات پر معافی تو کجا ان جرائم کو تسلیم کرنے سے فراری ہے۔ جس کی تازہ مثال یہ ہے کہ برطانوی جریدے ہیرالڈ نے بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر سوال اٹھا دیئے ہیں۔ 2002کے گجرات اور 2023کے منی پور فسادات میں گہری مماثلت قرار دیتے ہوئے ہیرالڈ نے اپنے 14 جولائی 2023کے شمارے میں نام نہاد بھارتی جمہوریت کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر سوال اٹھاتے ہوئے نسل پرستی اور گرتے صحافتی معیار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ پرتشدد بڑھتے واقعات پر مودی کی مجرمانہ خاموشی کی بنیادی وجہ انتہا پسند اکثریت کی خوشنودی ہے۔ جریدے کا کہنا تھا کہ منی پور میں 250سے زائد چرچ نذر آتش، 115افراد ہلاک ہوئے، ان فسادات، نیز بھارت کے دنیا بھر میں انٹرنیٹ بندش کے لحاظ سے گزشتہ چار سالوں سے سر فہرست رہنے اور ذرائع ابلاغ کی بندش میں بھارت کے یوکرین پر بھی سبقت لے جانے پر بھارتی وزیراعظم مودی کی ڈھٹائی باعث صد افسوس ہے۔ مودی کی تازہ ترین ڈھٹائی یہ ہے کہ حالیہ جی 20اجلاس میں شرکت کے موقع پر امریکی صدر جوبائیڈن نے بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، سول سوسائٹی کو کچلنے اور آزادی صحافت پر قدغن سے متعلق مسائل پر بھارتی وزیر اعظم سے تشویش کا اظہار کیا۔ خاص طور پر منی پور میں نسلی فسادات، اقلیتوں کے حقوق کی پامالی، صحافیوں کی گرفتاری اور تشدد پر بات کی اور نریندر مودی سے بھارت میں انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔ واضح رہے کہ مذکورہ اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ میں بھی رہنمائوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ آزادی اظہار رائے، جمہوریت، انسانی حقوق اور شہریوں کے لئے مساوی مواقع کی مشترکہ اقدار تمام ممالک کی کامیابی کے لئے اہم ہے۔ لیکن مودی کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا اور اس نے کسی بھی حوالے سے کوئی وضاحت یا مثبت عزائم کا اظہار نہ کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button