Columnعبدالرشید مرزا

اکنامک ہٹ مین اور مہنگائی

عبد الرشید مرزا
بجلی اور پٹرول کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے پاکستانی عوام کی چیخیں نکل گئیں، پی ڈی ایم کی حکومت نے آئی ایم سے جو معاہدہ کیا، وہ اصل میں پاکستان کے کاروبار اور غریب کی تباہی کا پروانہ تھا، بدقسمتی سے مشرف دور سے شہباز شریف تک برآمدات کو بڑھانے کی بجائے پچھلے قرض اور سود کو ادا کرنے کے لئے مزید قرض لئے گئے، اس جرم میں آصف علی زرداری، نواز شریف، عمران خان اور شہباز شریف شامل ہیں، ان حکمرانوں کی نااہلی نے آج پاکستان کی عوام کی زندگی محال کردی ہے، آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے معیشت کا پہیہ جام ہوگیا ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے مالی سال 2023میں حکومت کی جانب سے لئے گئے قرض کی تفصیلات جاری کردی ہیں۔ سٹیٹ بینک کے مطابق حکومت نے مالی سال 2023میں 13ہزار 7ارب روپے قرض لیا ہے۔ سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق مالی سال 2023کے اختتام پر حکومت کا قرض 60ہزار 839ارب روپے ہوگی۔
ان حالات میں سراج الحق، امیر جماعت اسلامی پاکستان نے ملک گیر ہڑتال کی آواز بلند کی، جس کو عوام، وکلا، ٹرانسپورٹرز، چیمبرز کے عہدیداروں اور کاروباری دنیا نے خوش آمدید کہا پورے پاکستان کی مارکیٹیں2ستمبر کو مارکیٹیں بند نظر آئیں۔ بڑھتی ہوئی افراط زر خاص طور پر بجلی، پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے پیداواری لاگت کا اضافہ ہوا جس سے عالمی اور پاکستانی مارکیٹ میں اشیا کی فروخت کم ہوئی، جس سے فیکٹریاں بند ہونے کے خدشات بڑھ گئے، واضح رہے ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری پہلے ہی 50فیصد بند ہے، مہنگائی کے بڑھنے میں دوسری وجہ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کی ریکارڈ گراوٹ شامل ہے۔ آج پاکستان کا شمار دنیا کے ان پندرہ ملکوں میں ہوتا ہے، جہاں مہنگائی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں بجلی، پٹرول، ڈیزل، گیس اور مٹی کے تیل کی قیمت بہت بڑھ چکی کیونکہ بیشتر ایندھن درآمد ہوتا ہے۔ قدرتی گیس کی قیمت میں بھی ازحد اضافہ کیا جا چکا۔ ٹرانسپورٹ سے لے کر کارخانوں اور دفاتر تک قومی معیشت کا ہر شعبہ ایندھن پر انحصار کرتا ہے، اس لیے اس کے مہنگا ہونے پر ہر شے کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ آج تک صرف پن بجلی کے منصوبے لگائے گئے ہیں اور گزشتہ چار دہائیوں سے تھرمل پراجیکٹس نجی شعبے ( آئی پی پیز) کے پاس ہیں۔ پاکستان میں پاور سیکٹر کے اہم مسائل میں سے (capacity payments)کا مسئلہ بھی ہے، جس کا تعلق آئی پی پیز کے لیے (rate of return)سے ہے، جس کی گارنٹی حکومت نے دی تھی اور اس کا بوجھ بھی سرکاری خزانے پر ہے۔ سرکاری ملازمین کو مفت بجلی کے خاتمے سے عوام کو اس بات کا اطمینان ضرور ہوگا کہ وہ مشکلات کا اکیلے سامنا نہیں کر رہے ہیں، اصل کام یہ ہے کہ ٹرانسمیشن لاسز کم کریں، بجلی چوری روکیں اور بنیادی اصلاحات کریں۔ بجلی میں سولر انرجی اور پن بجلی کی مقدار بڑھائیں، ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ملک میں آٹے، چینی، گھی، تیل، سبزیاں، گوشت اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہو گا جبکہ پاکستان میں 40فیصد سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ ان کی آمدنی کے ذرائع انتہائی محدود ہیں۔ ایک وقت تھا ملک میں بھوک اور غربت سے تنگ آ کر کوئی خود کشی کرتا تھا تو میڈیا آسمان سر پر اُٹھا لیتا تھا، اب حکومتی غلط پالیسیوں کی وجہ سے لوگ خود کشیوں پر مجبور ہو گئے ہیں، ہر پاکستانی 2 لاکھ 30ہزار سے زائد کا مقروض ہے۔ 2کروڑ 50لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ لیکن ان مشکل حالات میں عوام کو ہمارے Hitmanجو کبھی شہباز شریف، آصف علی زرداری اور پرویز مشرف کی طرح آئے، جس کی تعریف جان پرکنز نے اپنی سوانح حیات میں کی، دنیا کے مشہور ہٹ مین جان پرکنز کی سوانح عمری Confessions of an Economic Hitman پڑھنے کو ملی۔ جان پرکنز نے اپنی کتاب میں یہ انکشاف کیا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے پسماندہ ممالک کو قرضے دے کر اپنے جال میں پھنساتے ہیں اور اُن کی معیشتوں کو گروی رکھ لیتے ہیں۔ اِس مقصد کیلئے یہ مالیاتی ادارے ہٹ مین کے ذریعے پسماندہ ممالک کی لیڈرشپ کو قائل کرتے ہیں کہ وہ اپنے ملک میں ترقیاتی منصوبوں کے نام پر عالمی مالیاتی اداروں سے بڑی رقوم قرض لیں۔ جان پرکنز کے بقول عالمی بینک اور آئی ایم ایف جیسے مالیاتی ادارے معاشی قاتلوں کا موثر آلہ ہیں جو قدرتی وسائل سے مالا مال پسماندہ ممالک کیلئے عالمی بینک، آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے بڑے قرضوں کا بندوبست کرتے ہیں۔ اِن قرضوں کا ایک بڑا حصہ مغربی مشاورتی کمپنیوں کی کنسلٹنسی فیس کی مد میں ادا کر دیا جاتا ہے اور پھر پاور ہائوس، انفرا سٹرکچر اور انڈسٹریل پارک جیسے ترقیاتی منصوبے بھی مغربی کمپنیوں کو دے دیئے جاتے ہیں جبکہ اِن قرضوں سے ہونے والی کرپشن بھی لوٹ کر واپس مغربی ممالک پہنچ جاتی ہے۔ اِس طرح یہ پسماندہ ممالک قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں جنہیں وہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ بالآخر اِن ممالک کو عالمی مالیاتی اداروں کی ہر شرائط ماننا پڑتی ہیں، پھر یہ ادارے اُن ممالک کے حکمرانوں کو نادہندگی سے بچنے کیلئے قرضے ری سٹرکچر کرنے کی تجویز دیتے ہیں اور اِس طرح قرضوں کی ادائیگی کیلئے مزید نئے قرضے دے کر عالمی مالیاتی اداروں کو اُن ممالک کی معیشت گروی بنانے کا موقع مل جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں اُن ممالک کے قدرتی وسائل، تیل، گیس اور معدنی وسائل پر مغربی طاقتوں اور مالیاتی اداروں کی ملٹی نیشنل کمپنیاں کنٹرول حاصل کر لیتی ہیں جبکہ اُن ممالک کو مغربی ممالک اپنے فوجی اڈوں کے قیام اور اُن کے راستے دفاعی اشیا کی آمد و رفت جیسے معاہدے کرنے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اگر بجلی کے گھریلو صارفین کے لیے 200یونٹ کے بجائے 300یونٹ کا رعایتی حد ہو تو ان کو 16روپے فی یونٹ بجلی ملے گی اور اس سے 2کروڑ 80لاکھ گھریلو صارفین میں سے 2کروڑ 43لاکھ صارفین کے بجلی کا بل غیر معمولی کم ہو جائیگا۔ جس پر ٹوٹل خرچہ سالانہ 326ارب روپے ہے۔ اس کے لیے فوج کے 2000ارب روپے کے بجٹ میں سے 100ارب روپے، پی ایس ڈی پی کے 1500ارب روپے کے بجٹ میں سے 100ارب روپے۔ خسارے میں جانیوالے ریاستی اداروں جیسے ریلوے، پی آئی اے، سٹیل ملز، واپڈا خسارے میں جارہے ہیں جن کیلئے مختص 350ارب روپے رکھے گئے ہیں ان سے بھی 100ارب لے لیے جائیں تو کسی آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ لیکن حاکم وقت تو اکنامک ہٹ مین ہے اسے ملک سے زیادہ اپنے مفادات عزیز ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button