ColumnHabib Ullah Qamar

شبیر احمد شاہ کا تہاڑ جیل سے پیغام

حبیب اللہ قمر
شبیر احمد شاہ جدوجہد آزادی کشمیر کا ایک بڑا نام ہے۔ ان کی زندگی کا اکتیس سال سے زائد عرصہ جیلوں اور عقوبت خانوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے گزرا ہے۔ اس وقت بھی وہ پچھلے کئی برسوں سے بھارت کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں قید ہیں۔ انہیں آخری مرتبہ تقریبا پانچ سال قبل بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے نے یہ الزام لگا کر حراست میں لیا کہ انہوںنے دو ہزار پانچ میں مبینہ طور پر منی لانڈرنگ کی تھی۔ بعد ازاں بھارتی ایجنسیوں کی جانب سے یہ کہا گیا کہ اٹھائیس مارچ دو ہزار پندرہ میں انہوںنے ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کی نام نہاد خود مختاری اور سالمیت کے خلاف شدید نعرے بازی کی تھی جس پر انہیں گرفتار کیا گیا ہے۔ اس کے بعد سے شبیر احمد شاہ جیل میں ہیں جہاں انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ کشمیری قوم کے اس عظیم لیڈر کی پوری زندگی جرات و استقامت اور مضبوط عزم و حوصلے سے عبارت ہے۔ ان کا قصور صرف یہ ہے کہ جب سے ہوش سنبھالا کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی وکالت انتہائی بے باکی اور دیانت داری سے کی ہے۔ تین دہائیوں سے زائد عرصہ جیلوں میں گزارنے پر انہیں کشمیر کا نیلسن منڈیلا بھی کہا جاتا ہے۔ انہوںنے جموں کشمیر ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی کے نام سے ایک سیاسی تنظیم قائم کی اور آج تک اسی پلیٹ فارم سے تحریک آزادی کے حوالے سے بھرپور جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جموں کشمیر چھوڑ دو تحریک ہو ، آرٹیکل 370جیسی دفعات ختم کرنے کا معاملہ ہو یا کوئی اور اہم موقع، شبیر احمد شاہ نے ہمیشہ حریت قیادت کے ساتھ مل کر غاصب بھارت کے دہشت گرد اقدامات کے خلاف لازوال کردار ادا کیا ہے۔ وہ جذبہ ایثار اور قربانی کی عظیم مثال ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انہوںنے وصیت کی کہ وفات کے بعد ان کی دونوں آنکھیں کسی ایسی بچی کو عطیہ کی جائیں جو رواں تحریک کے دوران اپنی آنکھیں گنوا چکی ہے۔ اسی طرح انہوںنے بھارتی فورسز کی جانب سے پیلٹ گن کے چھرے لگنے سے بینائی سے محروم ہونے والی معصوم کشمیری بچی انشاء مشتاق کو گود میں لینے کا اعلان کیا اور کہا کہ جس طرح وہ اپنی بیٹیوں کا خرچ اٹھاتے ہیں، ایسے ہی انشاء مشتاق کے بھی تمام تر تعلیمی و دیگر اخراجات برداشت کریں گے۔ شبیر احمد شاہ کی بیٹی سحر شبیر شاہ نے اپنے بے گناہ والد کی رہائی کے لیے آن لائن مہم شروع کی جب کہ ان کی اہلیہ ڈاکٹر بلقیس شاہ نے انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے اپیل کی کہ وہ بھارت کی مودی حکومت پر دبائو بڑھائیں کہ اگر وہ انہیں رہا نہیں کرتی تو کم سے کم انہیں مقبوضہ کشمیر کی کسی جیل میں ہی منتقل کر دے تاکہ وہ اور ان کی بچیاں ان سے ملاقات تو کر سکیں مگر افسوس کہ اقوام متحدہ سمیت کسی ادارے اور ملک کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور شبیر احمد شاہ کو تاحال رہا نہیں کیا گیا۔ جموں کشمیر فریڈم پارٹی کے سربراہ شبیر احمد شاہ نے تہاڑ جیل سے ایک خط جاری کیا ہے جس میں مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورت حال بیان کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیری قوم کو حوصلہ دیا گیا اور انہیں اسی طرح تحریک آزادی جاری رکھنے کی اپیل کی گئی ہے۔ شبیر احمد شاہ لکھتے ہیں کہ بھارت سرکا رکی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت والی دفعات ختم کرنے کے بعد مقبوضہ ریاست میں انسانی حقوق کی صورت حال خطرناک حد تک بگڑ چکی ہے۔ خاص طور پر پانچ اگست کا واقعہ کشمیر کی تاریخ کا سیاہ باب ہے جسے کشمیری عوام کسی صورت فراموش نہیں کر سکتے۔ کشمیری عوام کی جدوجہد بھارتی غاصبانہ قبضے کے خاتمے اور حق خودارادیت کے حصول کے لیے جاری رہے گی اور اس کے لیے کشمیری قوم کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی ۔کشمیری نوجوانوں کو تحریک دشمن عناصر سے پوری طرح خبردار رہنا چاہیے اور صبرو استقامت کے ساتھ دشمن کی سازشوں کا بھرپور انداز میں مقابلہ کرنا چاہیے۔ کشمیری قوم کی قربانیاں ان شاء اللہ جلد رنگ لائیں گی اور جنت ارضی کشمیر میں بسنے والے عوام آزادی کی نعمت سے سرفراز ہوں گے۔ تحریکوں میں اتار چڑھائو کا آنا ایک فطری امر ہے لیکن تحریک کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے مستقل مزاجی اور قربانیوں کے تسلسل کو جاری رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ دنیا کی سبھی قوموں نے جابرانہ تسلط سے گلو خلاصی کے لیے عظیم قربانیوں کی تاریخ رقم کی ہے اور اس راہ پر چلتے ہوئے محکوم قوموں نے غلامی اور جابرانہ تسلط سے نجات حاصل کی ہے۔ گزشتہ برسوں سے کشمیری عوام نے حق خود ارادیت کے حصول کی جدوجہد کے دوران لاکھوں جانوں کی قربانی پیش کی ہے۔ بھارت سرکار کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ رات چاہے کتنی ہی تاریک اور طویل کیوں نہ ہو، نئی صبح اس کا مقدر ہوتی ہے ۔ بھارتی فوج اور حکومت چاہے جتنا بھی ظلم کیوں نہ ڈھائے کشمیریوں کو ان کے پیدائشی حق، حق خود ارادیت سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ کشمیری قوم عزم و استقلال کے ساتھ اپنی منزل کی طرف سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ موجودہ حالات میں کشمیری عوام کو مایوسیاں پھیلانے والے عناصر سے بھی ہر صورت خبردار رہنا چاہیے۔ بھارتی حکمران اور ان کے حاشیہ بردار شاید اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ مار دھاڑ اور قتل و غارت گری کے ذریعے ہمارے مضبوط عزائم توڑ سکتے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے۔ کشمیری عوام نے بھارت کے غاصبانہ قبضہ کو کبھی تسلیم کیا ہے اور نہ کبھی پانچ اگست کے متنازعہ، غیر جمہوری اور غیر قانونی اقدامات کو قبول کیا ہے۔ بھارت کشمیر سے متعلق اپنی روایتی ہٹ دھرمی، غیر حقیقت پسندانہ اور جنگجوانہ سوچ ترک کرے اور مسئلہ کشمیر جو بنیادی طور پر ایک دیرینہ حل طلب مسئلہ ہے، اس کے پرامن حل کے لیے دنیا کی کوششوں کا مثبت جواب دے، بلاشبہ مسئلہ کشمیر خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ ، نا ختم ہونے والی کشیدگی، سیاسی و معاشی عدم استحکام ، بھوک اور بے روزگاری جیسے مسائل کا سبب ہے۔ تاریخی حقائق کو طاقت کے استعمال یا دھونس کے سہارے جھٹلایا نہیں جاسکتا، لہٰذا یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جموں کشمیر کے عوام نے کبھی بھی بھارت کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس جبری قبضے کے خلاف گزشتہ سات اور بالخصوص پچھلی تین دہائیوں سے جدوجہد کر رہے ہیں۔ جموں کشمیر میں تحریک آزادی کا عظیم مقصد حاصل کرنے کے لیے قربانیوں کے تسلسل کو جاری رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ بھارت کی ہندو توا سرکار اس وقت کشمیر کا سیاسی، تاریخی اور مذہبی تشخص مٹانے کے درپے ہیں، ان حالات میں پوری کشمیری قوم اور سیاسی و مذہبی قیادت کو متحد ہو کر اس بہیمانہ سازش کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑے ہوجانا چاہیے تاکہ کشمیر سے متعلق بھارت کی نسل پرست حکومت کے مذموم مقاصد کو ناکام بنایا جاسکے۔ جب تک مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نہیں ہوتا اس وقت تک جنوب ایشیا میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button