ColumnFayyaz Malik

خودکشی نہ کریں، ایمرجنسی 15پر کال کریں

فیاض ملک
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں چالیس فیصد سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ انکی آمدنی کے ذرائع انتہائی محدود ہیں، دوسری جانب حکومت مہنگائی اور غربت کے خاتمے کیلئے سوائے زبانی جمع خرچ یا بیانات دینے کے عملی طور پر کچھ نہیں کر رہی، آئے روز حکومت جس سادگی اور معصومیت کے ساتھ مہنگائی میں جو اضافہ کر رہی ہیں عوام اسکے بوجھ تلے سسک رہے ہیں، گزشتہ چند برسوں میں خوردنی اشیا مثلاً سبزی، دالیں، گوشت اور دیگر اشیا کی قیمتیں ساتویں آسمان پر پہنچ چکی ہیں اور ان میں مسلسل اضافے کا بھی سلسلہ جاری ہے، ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ جب کھانے پینے کی اشیاء بازار میں وافر مقدار میں دستیاب ہیں اور انکی ترسیل بھی معمول کے مطابق ہو رہی ہے تو پھر کیوں ان کو انتہائی مہنگا فروخت کیا جاتا ہے ان اشیاء کی قیمتیں فوراً ہی کیوں آسمان کو چھونے لگتی ہیں جس سے معاشرے میں غربت، مفلسی، تنگ دستی کا شکار افراد کیسے اپنے گھر کا چولہا جلائیں گے، کس طرح اپنے بچوں کیلئے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کریں گے اب کوئی حاکم وقت کو کیسے بتائے کہ موجودہ دور میں جاری جان لیوا مہنگائی میں غریب کے گھر میں چولہے کیسے جلتے ہیں، روٹی اور سالن کیسے پکتے ہیں، اب تو عام لوگوں کیلئے تو گھر کا چولہا جلانا مشکل ہے، گزشتہ دنوں ایک سبزی فروش کی دکان پر بڑی محبت اور پیار سے سبزیوں اور پھلوں کے بھائو پوچھنے کی جسارت کی تو دوکاندار نے تمام سبزیوں اور پھلوں کے بھائو بتائے، جن کو سن کر میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ عوام ان سبزی فروشوں اور پھلوں کی دکانوں سے تمام اشیا خریدتے ہیں ان میں شاید ہی کوئی سبزی یا پھل باہر سے منگوایا جاتا ہو باقی تقریباً مقامی پیداوار ہے او ملک کے اندر پیدا ہوتے ہیں، پھر کیوں اچانک ہر روز ان کی قیمتوں کو پر کیوں لگ جاتے ہیں؟ ان حالات میں عوام کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول دشوار ہوتا جا رہا ہے، یہی نہیں بچوں کیلئے معیاری تعلیم، ادویات، مکانوں کے کرائے اور دیگر روز مرہ کی اشیاء غریب کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہیں، مہنگائی کی اس خوفناک اور دہشت ناک صورتحال کو دیکھ کر مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ملک اور اسکے عوام کس صورتحال سے دوچار ہو سکتے ہیں، ہمارا ملک میں مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے معاشرے کا کون سا ایسا طبقہ ہے جو اس کمر توڑ مہنگائی سے براہ راست متاثر نہ ہوا ہو۔ بیشتر گھرانے ایسے ہیں، جہاں مہینے کا اکٹھا سامان لانے کا رواج دن بہ دن ختم ہوتا جا رہا ہے، اس ناگفتہ صورتحال میں مزید پیٹرول، گیس، بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ بھی عوام کی مشکلات و پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے، پٹرول، ڈیزل اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ صرف مہنگائی بڑھنے کا نہیں بلکہ گداگری اور غربت میں اضافے کا بھی دوسرا نام ہے۔ اس صورتحال میں گزشتہ دنوں ہر وقت تنقید کی زد میں رہنے والے محکمہ پولیس کا ایک ( سافٹ امیج) سامنے آیا، لیہ پولیس کو ایمرجنسی 15پر ایک شہری کی جانب سے کال موصول ہوئی کہ اس کے بچے کچھ دن سے بھوکے ہیں اور کھانے کو کچھ نہیں وہ زندگی سے تنگ آچکا ہے۔ ڈی پی او لیہ اسد الرحمان نے معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے اپنی جیب سے راشن خریدا اور اس شہری کے گھر پہنچ گئے، جہاں انہوں نے اسکو حوصلہ دیا اور کہا پورے ضلع میں کوئی بھی بندہ غربت اور بیروزگاری سے مجبور ہو تو خودکشی کے بجائے ہمیں کال کریں ہم مدد کو پہنچیں گے۔ ڈی پی او لیہ اسد الرحمان کی یہ کاوش جب منظر عام پر آئی تو اس کو عوامی سماجی سیاسی حلقوں نے خوب سراہا ہے جس کے بعد ایک ویڈیو پیغام میں آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے غربت اور بے روزگاری سے تنگ افراد سے اپیل کی ہے کہ وہ خودکشی نہ کریں اور نہ ہی اپنے بچوں کو ماریں، بلکہ ایمرجنسی 15پر کال کریں پولیس ان کیلئے راشن کا بندوبست کرے گی، ان کی موجودگی میں ڈی آئی جی آپریشز پنجاب وقاص نذیر نے کہا کہ ہم پولیس کا سافٹ چہرہ سامنے لانا چاہتے ہیں اور مشکلات میں گھرے افراد کی مدد کیلئے ہر وقت تیار ہیں، گزشتہ چند دن میں پولیس کو ایمرجنسی 15پر مختلف اضلاع میں سے ایسی کالیں موصول ہوئیں، جن میں پولیس سے راشن کی فراہمی کی اپیل کی گئی جس کے بعد پولیس کے اہلکار امدادی سامان کے ساتھ ان 242خاندانوں تک پہنچے ہیں جو مایوسی کے عالم میں کوئی انتہائی قدم اٹھانے کے بارے میں سوچ رہے تھے، پولیس رپورٹ کے مطابق 21اگست سے 7ستمبر تک لاہور میں 17، اوکاڑہ میں 23، راولپنڈی میں 22، لیہ میں 18خاندانوں کو راشن فراہم کیا گیا۔ اسی طرح رحیم یار خان میں 20، ڈی جی خان میں 15، مظفر گڑھ میں 10، فیصل آباد میں 11اور گوجرانوالہ میں 15خاندانوں کو راشن فراہم کیا گیا، ملتان میں 10، لودھراں میں 8، وہاڑی میں 7، اٹک میں 6، شیخوپورہ میں 5گھرانوں کو راشن فراہم کیا گیا۔ جھنگ، خانیوال، منڈی بہائوالدین اور بہاولپور میں 4،4خاندانوں کو جبکہ سرگودھا، قصور، جہلم اور بہاولنگر میں 12گھرانوں کو راشن فراہم کیا گیا۔ واضح رہے کہ صوبے کے تمام اضلاع میں معاشی مشکلات کا شکار شہریوں کو پولیس نے اپنے وسائل سے راشن مہیا کیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حالات میں یہ پولیس کا ایک اچھا اقدام ہے اور اس سے کئی لوگوں کی جان بھی بچی بھی اور مزید بچ بھی سکتی ہے خاص طور پر ان لوگوں کو منفی قدم اٹھانے سے روکا جا سکتا ہے جو پہلے غربت کی وجہ سے بچوں کو مارتے ہیں پھر خود کو مار دیتے ہیں بلا شبہ یہ تمام کام بڑے احسن ہیں، قابل تعریف بھی ہیں، پولیس کو انتہائی مجبوری کے عالم میں راشن کیلئے کال کرنیوالوں میں بیشتر افراد کے مطابق انہوں نے اپنے پڑوسیوں سے بھی مدد طلب کی تھی لیکن انہوں نے مدد نہیں کی اور نہ ہی دکاندار نے مزید ادھار دیا، اب بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے پر سبقت کی دوڑ میں، ہر شخص اپنے مفاد کی خاطر اپنی ضروریات کی تکمیل کے حصول کیلئے انسانی قدروں کو پامال کر رہا ہے، کوئی بھی ایک دوسرے کی مدد کیلئے تیار نہیں ہے، دولت کے نشے نے ما دی ترجیحات کو انسانیت سے بلند کر دیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ معاشی مشکلات کا شکار شہریوں کو راشن کی فراہمی پنجاب پولیس کا نہیں بلکہ سوشل ویلفیئر اور بیت المال کی ذمہ داری ہیں مگر شاید ابھی ان محکموں کواپنی ذمہ داری کا احساس نہیں ہو رہا، حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا، مفہوم: ’’ اے ابوذر! جب شوربہ ( والا سالن) بنائو تو پڑوسیوں کو اس میں سے دینے کیلئے کچھ پانی بڑھا لو‘‘۔ اس حدیث مبارک کا مقصد یہ ہے کہ پڑوسیوں کے حقوق ادا کرتے وقت معمولی چیزیں دینے میں بھی کوتاہی سے کام نہ لو، بل کہ اگر سالن بنانا ہے تو اس کی کچھ مقدار اضافہ کرلو تاکہ پڑوسیوں کو بھیجا جا سکے۔ اسلام کی پاکیزہ تعلیمات ایسے شخص کو کامل ایمان والا قرار نہیں دیتیں کہ جو خود تو پیٹ بھر کر سو جائے اور اس کے پڑوس میں بچے بھوک و پیاس سے بِلبلاتے رہیں، چنانچہ فرمان مصطفیؐ ہے جو خود شکم سیر ہو اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو وہ ایمان دار نہیں۔ ایک مسلمان کی مروت و شرافت کا یہ تقاضہ نہیں کہ خود راحت اور عیش و آرام سے زندگی بسر کرے اور اپنے ہمسائے کے رنج و تکلیف اور گھریلو ضروریات کی پروا نہ کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button