Column

کریک ڈائون، نوٹوں کی بندش اور شوگر مافیا

رفیع صحرائی
پورے ملک میں بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈائون شروع ہو چکا ہے۔ واپڈا اہل کاروں کے ساتھ مقامی پولیس بھی اس آپریشن میں شامل ہے۔ متعدد بجلی چور رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں اور ان سے بھاری جرمانے وصول کئے جا چکے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پاور ڈویژن نے وزارتِ قانون سے مل کر صدارتی آرڈیننس تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت بجلی چوروں کو پکڑنے کے لئے رینجرز کی خدمات حاصل کی جائیں گی اور ملک بھر میں گرینڈ آپریشن کے ذریعے بجلی چوروں کو پکڑ کر قرار واقعی سزا دی جا سکے گی۔ حکومت کی طرف سے یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ نئے آرڈیننس کے تحت بجلی چوری کیسز کی سماعت کے لئے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی جو تین سے چار ماہ میں کیس کا فیصلہ کرنے کی پابند ہوں گی۔ بجلی چوروں کو چھ ماہ سے تین سال تک سزا دینے اور پچاس ہزار سے پانچ لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
دیکھا جائے تو بجلی چوروں کے خلاف مجوزہ اقدامات کرنے کا حکومتی فیصلہ خوش آئند ہے۔ یقیناً اس سے بجلی چوری میں نمایاں کمی ہو گی۔ لائن لاسز کی مد میں بھی کمی ہو گی اور صارفین کو بجلی چوروں کی چوری شدہ بجلی کا بل ادا نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن اس کے مضمرات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہو گا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ جب خصوصی عدالتیں بنیں گی تو ان کے لئے عملہ بھی الگ سے رکھنا پڑے گا۔ عملے کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات پر بھاری رقم خرچ ہو گی۔ رینجرز کی خدمات لینے پر محکمے کو اخراجات ادا کرنے پڑیں گے۔ ایسا نہ ہو کہ دھیلے کی بڑھیا کے سر منڈانے پر پورا ٹَکہ خرچ ہو جائے۔ یعنی بجلی چوری کی ریکوری کی آمدن سے اخراجات کا حجم بڑھ جائے۔ بہتر ہوتا کہ بجلی چوری کی وجوہات کا جائزہ لے کر ان وجوہات کا سدِباب کیا جاتا۔ یقیناً اس سی بجلی چوری میں نمایاں کمی آ جاتی اور باقی کام واپڈا ملازمین کو بجلی چور پکڑنے پر Insentiveکا اعلان کر کے پورا کر لیا جاتا۔
یاد رکھئے! چوری کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کوئی چیز قوتِ خرید سے باہر ہو جائے اور اس کا حصول بھی ضروری ہو، تب ضرورت مند چوری کی طرف راغب ہو گا۔ غیر منصفانہ تقسیم اور طرزِ عمل بھی چوری کی ایک بڑی وجہ ہے۔ آج بجلی کی قیمت عوام کی قوتِ خرید کے مطابق کر دیں۔ دعویٰ سے کہتا ہوں کہ بجلی چوری کرنے والوں کی اکثریت چوری نہیں کرے گی۔ اپنی قبر خراب کرے گی نا دنیا میں رسوا ہوگی۔ نا ہی عوام تھانہ کچہری کے چکر کاٹیں گے۔ ساتھ میں الیکٹرک کمپنیوں کا پیسہ بجلی چوروں کو پکڑنے اور اور لیگل ٹیموں پر خرچ ہونے سے بچ جائے گا۔ عوام اور اداروں میں اعتماد کا رشتہ بھی قائم رہے گا۔ اس کے علاوہ مراعات یافتہ طبقے کو مفت بجلی کی ترسیل روک دیں۔
بجلی کی مہنگائی کی ایک بڑی وجہ آئی پی پیز یعنی بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں سے کئے گئے معاہدے بھی ہیں. یہ کمپنیاں با اثر بڑے سرمایہ داروں، صنعت کاروں کی ہیں. جن میں سے بعض وزیر بھی رہے ہیں ۔معاہدوں کے مطابق ان کمپنیوں کو ان کی کیپیسٹی یعنی پیداواری صلاحیت کے مطابق ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ یہ آئی پی پیز ایسی جونکیں ہیں جو ہماری معیشت کی رگوں سے خون نچوڑ رہی ہیں۔ مناسب یہی ہے کہ ان آئی پی پیز کے سربراہان کے ساتھ ایک میٹنگ کر کے انہیں قائل کیا جائے کہ بلاجواز ادائیگیوں کا سلسلہ اب رکنا چاہئے۔ اگر کک بیکس اور کمیشن کا لالچ نہ ہو تو حکومتی زعماء کے لئے ایسے لوگوں کو قائل کرنا مشکل نہیں ہوتا۔
حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ رات آٹھ بجے مارکیٹیں، بازار، شادی ہالز اور شاپنگ مال بند کروا کر توانائی کی بچت کی جائے گی۔ یہ ایک قابلِ عمل منصوبہ ہے۔ ماضی کی حکومتیں اس پر عمل کروانے میں ناکام رہی ہیں۔ نگران حکومت کو سیاسی مجبوری نہیں ہے۔ سپہ سالار بھی اس کے ساتھ ہے جس پر تاجر برادری بہرحال اعتماد کرتی ہے۔ باقی دنیا میں سورج کی روشنی اور حرارت سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ ہمیں بھی اب اسی ڈگر پر چلنا ہو گا۔
گزشتہ دنوں ایک جعلی نوٹیفکیشن سوشل میڈیا پر نظر آیا جس میں 30ستمبر سے 5000روپے کے نوٹ کی بندش کا فرمان تھا۔ سٹیٹ بنک نے اس نوٹیفکیشن کو جعلی قرار دیتے ہوئے ایسی کسی خبر کی تردید کر دی ہے مگر دیکھا جائے تو یہ ایک زبردست تجویز ہے۔ شنید ہے کہ بعض لوگوں نے پورے پورے کمرے لوٹ مار کر کے بڑے نوٹوں سے بھر رکھی ہیں۔ اس لوٹ مار کی دولت کو باہر آنا چاہئے۔ ادھر پنجاب کے سیکرٹری خوراک اور انتہائی ایماندار آفیسر میاں زمان وٹو نے چند روز پہلے شوگر مافیا کی کرپشن بے نقاب کی تھی۔ انہوں نے بتایا تھا کہ شوگر مل مافیا نے عوام کی جیبوں سے 50 ارب روپے لوٹ لئے۔ شوگر ملز کی فی کلو چینی پر منافع سمیت لاگت 95روپے فی کلو بنتی ہے۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ 7لاکھ ٹن سے زائد چینی افغانستان سمگل کر دی گئی ہے۔ میاں زمان وٹو کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ کیا شوگر مافیا جیت گیا ہے؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button