ColumnHabib Ullah Qamar

مسئلہ فلسطین پر اقوام متحدہ کا منافقانہ رویہ

تحریر :حبیب اللہ قمر
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ اسرائیلی قابض ریاست کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے رواں اور گزشتہ سال مغربی کنارے میں فلسطینی بچوں کے لیے پندرہ برسوں میں سب سے زیادہ خونی سال ہیں۔ بین الاقوامی تنظیم نے اپنی ایک رپورٹ میں تصدیق کی ہے کہ مغربی کنارے میں 22اگست تک اسرائیلی قابض ریاست کی گولیوں سے 34فلسطینی بچے شہید ہوئے مگر ان معصوم بچوں کے قتل پر اسرائیل میں کسی قسم کی تحقیقات نہیں کی گئی۔ تنظیم کی رپورٹ میں نومبر 2022سے مارچ 2023کے درمیان قابض افواج کے ہاتھوں فلسطینی بچوں کے قتل کا سبب بننے والی فائرنگ کے واقعات کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم نے وضاحت کی ہے کہ قابض فوج فلسطینی بچوں کو بڑھتی ہوئی شرح سے قتل کر رہی ہے۔ انسانی حقوق گروپ نے خبردار کیا کہ جب تک اسرائیل کے اتحادی اس پر راستہ بدلنے کے لیے دبا نہیں ڈالیں گے فلسطینی بچوں کے قتل کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد دنیا کو تباہی و بربادی سے بچانا تھا اور اس کے منشور میں یہ بات شامل تھی کہ دنیا میں امن کے قیام کیلئے مخلصانہ کوششیں کی جائیں گی، تمام قومیں برابر ہوں گی، انہیں مساوی حقوق ملیں گے اور انہیں حق خودارادیت دیا جائے گا لیکن حقیقت ہے کہ یہ ادارہ اپنے طے کردہ مقاصد میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ مشرقی تیمور اور سوڈان کی تقسیم کا معاملہ ہو تو یہ ادارہ فی الفور حرکت میں آجاتا ہے لیکن فلسطین، کشمیر، برما اور دیگر خطوں میں مسلمانوں کے قتل عام پر اقوام متحدہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یو این کی طرف سے ہر سال فلسطینی عوام سے یکجہتی کا دن بھی منایا جاتا ہے مگر جب اسرائیلی ظلم و بربریت روکنے کی بات آتی ہے تو مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ یعنی فلسطین میں قیام امن کی باتیں زوروشور سے کی جائیں گی مگر اس حوالے سے یو این کی جانب سے کوئی عملی کاوش کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس نے ہمیشہ امریکہ ، یورپ، اسرائیل اور دیگر بین الاقوامی طاقتوں کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ فلسطین اور کشمیر کے مسئلہ پر یو این نے درجنوں قراردادیں منظور کر رکھی ہیں لیکن اسرائیل اور بھارت نے ان قراردادوں کو ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھا اور کبھی ان پر عمل درآمد نہیں کیا مگر لاکھوں انسانوں کا خون بہانے والے ان دہشت گرد ملکوں کیخلاف کبھی کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔ اقوام متحدہ میں شامل بڑی طاقتوں نے اس ادارے کو اپنی لونڈی بنا رکھا ہے اور دنیا میں امن کی بجائے وہ اسے مسلمانوں کیخلاف کھل کر استعمال کر رہے ہیں۔ مسلمان ملکوں میں رفاہی و فلاحی تنظیموں پر یہ کہہ کر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں کہ یہ نام نہاد دہشت گردی میں ملوث ہیں لیکن اس کی اپنی یہ صورتحال ہے کہ عراق پر اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر حملہ کرکے لاکھوں انسان قتل کر دئیے گئے لیکن یو این کا ادارہ مصلحتوں کا شکار رہا۔افغانستان میں بھی اسی طرح نہتے انسانوں کا خون بہایا گیا۔ فلسطین،کشمیر، اراکان برما اور دیگر خطوں کی بھی یہی صورتحال ہے مگر اقوام متحدہ کی طرف سے ان بڑے عالمی دہشت گردوں کے خلاف کبھی کوئی مضبوط بیان تک نہیں دیا گیا۔ اس وقت بھی دیکھ لیں فلسطین میں آتش و آہن کی بارش ہو رہی ہے مگرامریکی صدر جوبائیڈن ٹرمپ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور اسرائیلی دہشت گردی روکنے کی بجاءے حماس کی کارروائیوں کی مذمت کی جارہی ہے۔ امریکہ نے فلسطین کی حمایت میں منظور کردہ قراردادوں کے موقع پر ہمیشہ صیہونی ریاست کا ساتھ دیا ہے۔ کبھی قراردادوں کی منظوری کی مخالفت کرتے ہوئے ویٹو پاور کا استعمال کیا تو کبھی رائے شماری سے ہی راہ فرار اختیار کر لی۔ یعنی امریکہ نے ہر اہم موقع پر فلسطینیوں کو جائز حقوق دئیے جانے کے لیے کی جانے والی کوششوں کی حوصلہ شکنی کی ہے جبکہ دوسری طرف اقوام متحدہ کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ایک اجلاس تک نہیں بلا سکتے۔ اسرائیل نصف صدی سے زائد عرصہ سے نہتے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ ہر روز بمباری اور دہشت گردی کی دیگر وارداتوں کے ذریعہ پھول جیسے بچوں کو مسلا جاتا ہے۔ بچوں،بوڑھوں اور خواتین سمیت کوئی فلسطینی اسرائیلی جارحیت اوراس کی بدترین دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہے مگر کوئی اس غاصب سرطانی جرثومے اسرائیل کا ہاتھ نہیں روک رہا کہ وہ انبیاء کی
سرزمین فلسطین پر آگ اور خون کی ہولی کیوں کھیل رہا ہے؟ سب بین الاقوامی طاقتیں اور ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر معصوم بچوں کے قتل و خون کی ایسی تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔اسرائیلیوں نے غزہ کو خاص طور پر کھنڈر بنا کر رکھ دیا ہے مگر اس کی بربریت رکنے میں نہیں آرہی۔ ہزاروں لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہیں۔ مظلوم فلسطینی مد د کیلئے پکا ررہے ہیں۔ مسلمان ملکوں کو چاہیے کہ وہ باہم متحدہو کر اس حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ جس طرح شاہ فیصل شہید نے مسلم دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کی کوشش کی ایک بار پھر انہی جذبوں سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمان ملکوں کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ جیسے اداروں کی طرف دیکھنا چھوڑ دیں یہ مسلمانوں کے مسائل کبھی حل نہیں کریں گے بلکہ ان کا مقصد ہی مسلمانوں کو تنازعات میں الجھانا ہوتا ہے۔سعودی وزیرخارجہ شہزاد فیصل بن فرحان نے درست کہا ہے کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ پورے خطے کو غلط سمت میں دھکیل دے گا اور یہ کہ اس تنازع کا حتمی تصفیہ ایک فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں ہونا چاہیے جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو۔او آئی سی نے بھی اپنے اجلاس میں فلسطینیوں پر ظلم و دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیل کے توسیعی منصوبے کو مکمل طور پر مسترد کیا ہے۔ او آئی سی کی طرف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مقدس مقامات کی بے حرمتی اور اسرائیلی حملے فوری بند کروائے۔ پاکستان ، سعودی عرب اور دوسرے مسلمان ملکوں میں عوامی سطح پرفلسطینی مسلمانوں پر مظالم کے حوالے سے سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان اور دوسرے مسلمان ملکوں کی حکومتیں بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائیں اور مسلم دنیا کو ساتھ ملا کر تمام بین الاقوامی فورم پر اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف نا صرف یہ کہ بھرپور آواز بلند کی جائے بلکہ آئندہ کے لیے متفقہ طور پر کوئی مضبوط لائحہ عمل بھی اختیار کیا جائے۔ اسی طرح عالمی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف ہر فورم پر آواز بلند کریں تاکہ مظلوم مسلمانوں کو غاصب اسرائیل کی دہشت گردی سے تحفظ دلایا جاسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button