ColumnImtiaz Aasi

شریک جرم

تحریر :امتیاز عاصی
قوم سانحہ مئی میں ملوث منصوبہ سازوں کے انجام کی منتظر ہے۔ملکی تاریخ کے اس سیاہ روز فوجی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں کا نشانہ بنانے سے جانے کیا مقصود تھا ۔سیاسی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی جماعت کے ورکرز نے فوجی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں کو نقصان پہنچایا ہو۔ البتہ زمانہ طالب علمی میں بسوں کو نذر آتش کرنے کے واقعات ضرور دیکھے۔تعجب ہے سیاسی جماعت کے ورکرز کو فوجی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں کو نقصان پہنچانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ سانحہ سے قبل کوئی نہ کوئی منصوبہ بندی تو ضرورکی گئی ہو گی ورنہ آنا فانا ایسے سانحات کبھی رونما نہیں ہوتے۔ پیپلز پارٹی کے قائداو ر عوام کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو مقدمہ قتل میں تختہ دار پر چڑھایا گیا اس کے باوجود پیپلز پارٹی کے ورکرز یا عوام میں سے کسی نے اہم سرکاری تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں کو نقصان نہیں پہنچایا۔اقوام عالم کی تاریخ سیاسی رہنمائوں کی گرفتاری او ر قیدوبند کی سزائوں سے بھری ہے کبھی یہ نہیں سنا کسی نے ملک کے اہم اداروں اور یادگاروں کو جلایا ہو۔بھٹو دور میں ولی خان، سردار عطاء اللہ مینگل کے علاوہ کئی سیاست دانوں پر غداری کے مقدمات چلائے گئے اور انہیں قید تنہائی میں رکھا گیا، کسی نے اہم سرکاری تنصیبات کو نقصان کو پہنچانے کی کوشش نہیں کی۔سانحہ نو مئی میں ملوث افراد گرفتار ہیں یا ان کی گرفتاری مطلوب ہے ان کے خلاف خصوصی عدالت میں مقدمات چلائے جائیں گے۔ سانحہ نو مئی کا ذمہ دار سابق وزیراعظم عمران خان کو ٹھہرایا جا رہا ہے بقول عمران خان وہ سانحہ کے روز پولیس کی حراست میں تھے۔جہاں تک قانون کی بات ہے کوئی شخص پولیس کی حراست یا جیل میں ہو اس کی عدم موجودگی میں پیش آنے والے واقعہ کا ذمہ دار اسے نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ایک اردو معاصر کی خبر نے سانحہ نو مئی سے متعلق نیا انکشاف کیا ہے ۔کے پی کے سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے حوالے سے شائع ہونے والی خبر میں خٹک نے انکشاف کیا ہے فوجی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں پر حملوں کیلئے باقاعدہ ٹیمیں تشکیل دی گئیںتھیں۔ کے پی کے میں یہ ذمہ داری علی امین
گنڈا پور اور مراد سعید کو سونپی گئی تھی۔اخبار نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے پرویز خٹک کے بیان کے حوالے سے لکھا ہے جیل بھرو تحریک کا مقصد کارکنوں کے دلوں سے خوف ختم کرنا تھا۔پرویز خٹک کے اس بیان کا قانونی پہلوئوں سے جائزہ لیا جائے تو پرویز خٹک کو سانحہ سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا قانون کی نظر میں وہ سانحہ نو مئی کے جرم میں برابر کے شریک ہیں۔بسااوقات سیاست دان اس حد تک گر جاتے ہیں وہ اخلاقیات کو بھلا دیتے ہیں۔ پرویز خٹک سے کوئی پوچھے ان میں حب الوطنی تھی جب پی ٹی آئی قیادت اہم تنصیبات پر حملوں کے لئے ٹیمیں تشکیل دے رہی تھی تو حب الوطنی کا تقاضا تھا وہ اس فیصلے کی مخالفت کرتے اور اس بات کو منظر عام لے آتے۔پرویز خٹک کا تعلق پی ٹی آئی کے سنیئر رہنماوں میں ہوتا تھا ۔جرم سرزد ہونے کے بعد اس طرح کے انکشاف سے ظاہر ہوتا ہے پرویز خٹک شریک جرم رہے ہیں۔ اب جب کہ وہ پی ٹی آئی چھوڑ چکے ہیں پی ٹی آئی کی قیادت جیلوں میں ہے تو ان باتوں کو منظر عام پر لانے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے وہ عمران خان کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران بطور گواہ کے پیش ہو سکتے ہیں۔ پرویز خٹک ایسے فیصلوں میں شریک رہے ہیں لہذا انہیں سانحہ نو مئی کے حوالے سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔یہ علیحدہ با ت ہے پرویز خٹک نے پی ٹی آئی سے قطع تعلق کر لیا ہے اور اپنی جماعت بنا لی ہے اس باوجود انہیں سانحہ کی ذمہ داری سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔۔اصولی طورپر پرویز خٹک کے اس انکشاف کے بعد حکومت کو انہیں حراست میں لے کر اس سانحہ کے تمام پہلوئوں سے تفتیش کرنی چاہیے تاکہ جو لوگ سانحہ کے منصوبہ ساز ہیں ا ن تمام کو قانون کی گرفت میں لایا جا سکے۔طلبہ تنظیموں پر پابندی لگانے سے قبل سیاسی جماعتوں اور ان کی ذیلی تنظیموں میں گھیرائو جلائو کا کلچرتھا ۔ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران طلبہ تنظیموں پر پابندی کے بعد سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے واقعات میں بہت حد تک کمی واقع ہوگئی ۔اہم بات یہ ہے اس دور میں گھیرائو جلائو کے باوجود فوجی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا گیا تھا۔بے نظیر بھٹو کی جلاوطنی سے واپسی پر کراچی میں سانحہ کارساز پیش آیاجس میں بے شمار لوگ شہید ہوئے اس کے باوجود پیپلز پارٹی کے ورکرز نے سرکاری تنصیبات کو نقصان نہیں پہنچایا ۔حکومت کو سانحہ نو مئی سے متعلق تفتیش کا دائرہ اور وسیع کرنا چاہیے تاکہ جو لوگ اس سانحہ میں ملوث پائے جائیں انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے ۔اس سلسلے میں پہلے مرحلے کے طور پر پی ٹی آئی دور کے سابق وزیر پرویز خٹک کی گرفتاری ضروری ہے تاکہ ان کے انکشاف کی روشنی میں سانحہ کے تمام پہلوئوں کی تفتیش کی جا سکے۔سانحہ نو مئی کے ذمہ دار سزائوں سے بچ گئے تو مستقبل قریب میںبھی اس طرح کے واقعات پیش آسکتے ہیں ۔نگران حکومت کو سانحہ نو مئی کے ملزمان کے مقدمات کی سماعت کا جلدآغاز کرنا چاہیے خواہ اس مقصد کے لئے مزید عدالتوںکی ضرورت ہو ۔حالات اورواقعات سے لگتا ہے سانحہ نو مئی کے ملزمان کا ٹرائل سست روی کا شکار ہے ۔اگر دیگر مقدمات کی طرح اس واقعہ کے ملزمان کے کیسوں کی سماعت جاری رہی تو ملزمان کے سزائوں سے بچ نکلنے کا احتمال ہو سکتا ہے۔عام طور پر سنگین مقدمات میں ملوث ملزمان کی کسی نہ کسی بہانے اپنے خلاف مقدمات کو طوالت دینے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، جس سے مقدمات خراب ہونے کا احتمال ہو سکتا ہے لہذا سانحہ نو مئی سے متعلق پوری معلومات کے حصول کی خاطر پرویز خٹک کی گرفتاری بہت ضروری ہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button