ColumnNasir Naqvi

دوسرا جنم

تحریر : ناصر نقوی
یہ حقیقت ہے کہ ’’ہندوازم‘‘ کے علاوہ کسی دوسرے مذہب میں ’’دوسرا جنم‘‘ ممکن نہیں۔ خاص طور پر دین حق اسلام میں تو اس کی کوئی گنجائش نہیں، جوآیا ہے اسے جانا ہے پھر روز قیامت اپنے کئے دھرے کا حساب بھی دینا ہے پھر بھی یہ بات ہر شخص کے ذہن میں موجود ہے کہ دنیاوی زندگی برسوں پر محیط ہے لیکن ایک اور بھی زندگی اس ماہ و سال کی گنتی سے آگے ہے، وہی حقیقی زندگی ہے اور اسی کے لیے دنیاوی امتحان کے لیے مالک کائنات نے ہمیں بھیجا اور عقل سلیم دی کہ ہم اس کا کتنا استعمال کر کے اس کی نعمتوں سے نہ صرف استفادہ کرتے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ جب حضرت آدم ؐ کو اس نے اپنا خلیفہ بنا کر زمین پر بھیجا اس وقت بھی وہ فرشتوں کی یاددہانی سے پہلے جانتا تھا کہ آدم زادوں نے زمین پر کسی حد تک اودھم مچانا ہے لیکن پھر بھی فرشتوں نے نہ صرف نشاندہی کی بلکہ ان کے ایک عبادت گزار اعلیٰ ترین فرشتے نے رب کائنات کی حکم عدولی کرتے ہوئے حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اور پھر ارض و سما ء کے مالک کی دھتکار اس کا نصیب بن گئی وہ اپنی شرائط پر رحمان کے مدمقابل شیطان بن گیا۔ اس نے طویل حیات بھی مانگ لی اور پھر آدم زادوں کو بہکانے کا چیلنج بھی دے دیا۔ حالانکہ اس کی ذات، خصوصیات اور سب کچھ وہی مالک کائنات ہی تھا ، لیکن ایسا تکبر کا شکار ہوا کہ اپنی برسوں کی عبادت و ریاضت گنوا بیٹھا۔ خود تو بہکا ہی تھا آج تک نسل آدم کو بھی بہکانے میں مصروف ہے لیکن رحمان نے اس لمحے بھی مسکرا کر جواب دیا تھا کہ میرے بندوں کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکے گا وہ خلق خدا کی بھلائی کو اپنا شعار بنائیں گے اور تجھے منہ نہیں لگائیں گے لوگوں میں مسکراہٹیں بانٹیں گے اور دوسروں کے لیے باعث خوشی ثابت ہوں گے اور ایسا صرف وہی کریں گے جو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں گے۔ اچھے بْرے، خوشحالی اور مشکلات میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کریں گے اور فتنہ و فساد سے دور رہ کر شکر بجا لائیں گے اور میں انہیں لازوال خوشیوں اور نعمتوں سے مالا مال کر دوں گا، وسیع رزق اور پرسکون زندگی عطا کر دوں گا۔ وہ اپنا وعدہ نبھا رہا ہے اس لیے کہ حقیقی انصاف کرنے والا اس سے بڑا کوئی دوسرا نہیں۔ لیکن نسل آدم دنیا کی رنگینیوں اور بھول بھلیوں میں اپنا سبق بھول جاتی ہے اسے یاد ہی نہیں رہتا کہ خوشی اکثر ہوا کے جھونکے جیسی ہوتی ہے اچانک تتلی کی طرح اْڑ جاتی ہے اور پھر آدم زادے بچوں کی طرح ہاتھ ملتے دکھائی دیتے ہیں کیوں؟ اس لیے کہ دکھ تو اکثر پہاڑوں کی طرح ہوتے ہیں جہاں تخلیق ہوتے ہیں وہیں جم جاتے ہیں ہماری اور آپ کی خواہش یقینا یہی ہو گی کہ خوشی مل جائے تو پھر کبھی دکھ نہ ملے لیکن زندگی کی حقیقت یہی ہے کہ اس پیکیج میں ہنسی خوشی اور دکھ موجود ہے بس آدم زادے اپنی کوشش سے اس میں کمی اور اضافہ کر سکتے ہیں پھر عقل سلیم کے باوجود ان میں اتنی صلاحیت ہر کسی میں نہیں کہ وہ ’’ بروقت‘‘ فیصلہ کر کے نتائج اپنے حق میں کر لیں جبکہ جو کر لیتے ہیں اپنی زندگی کا توازن نہیں بگڑنے دیتے۔ مفادات اور حرص و ہوس کے جال میں نہیں پھنستے ان کی زندگی قابل رشک ہو جاتی ہے تاہم دنیا ایک امتحان گاہ ہے ، لہٰذا زندہ لوگوں کا امتحان تمام تر کامیابیوں کے باوجود جاری و ساری رہتا ہے کیونکہ ان کے مدمقابل ناکام ہونے والے انہیں حسد بھری نگاہوں سے گھور گھور کر نشانہ بنا دیتے ہیں ۔ یہ ایسا وار ہے کہ اس کے گھائل اپنی کامیابیوں کے نشے میں اپنے پوشیدہ زخموں سے واقف بھی نہیں ہوتے۔ انہیں کسی کی نظریں دیمک کی طرح نقصان پہنچا رہی ہوتی ہے اور انہیں اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ عرش سے فرش پر آ جاتے ہیں۔ اب اس کہانی کا دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیں۔ غریب، لاچار، کم علم اپنی مثبت سوچ اور خلق خدا کی بھلائی میں کوئی ایسا کارنامہ انجام دے دیتا ہے کہ دو جہانوں کا مالک خوشی سے اس کا ہاتھ تھام لیتا ہے وہ راتوں رات ایسی کامیابیاں حاصل کرتا ہے کہ گردونواح میں بسنے والے لوگ اسے رشک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ عزیز و اقارب بھی حیران و پریشان ہو جاتے ہیں کہ یہ تبدیلی کیسی ہے اور کیسے آگئی؟ حالانکہ سب یہ جانتے ہیں کہ اللہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت ، ’’ لمحہ موجود‘‘ میں بھی یہ کارنامہ ہو چکا کہ صاحب اقتدار جیل میں اور جیل کاٹنے والے تختہ ’’ اقتدار‘‘ پر 16ماہ حکمرانی کی ڈگڈگی بجا کر اچھلتے کودتے، ہنستے مسکراتے مستقبل کی حکمرانی کی منصوبہ بندی کرنے لندن جا بیٹھے۔ اس تذکر ے کا مطلب محض حالات و واقعات کا موازنہ کرتا ہے سیاست ہرگز نہیں۔ ذرا بغور جائزہ لیں اسی ایک زندگی میں دو جنم ہو گئے کہ نہیں؟۔
میری’’ جمع تفریق‘‘ میں دوسرا حقیقی جنم ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتا۔ پہلے جنم میں آپ اور میں پیدائش کے بعد زندگی کے تمام نشیب و فراز سے گزر کر ایسی زندگی اور دور میں آ جاتے ہیں جہاں اللہ کی دی ہوئی نعمت اولاد کو ہم خود سنبھالتے ہیں۔ سردی، گرمی، تعلیم و تربیت، رزق حلال کے ساتھ بہترین دیکھ بھال کرتے ہوئے صرف ایک خواہش کی تمنا کرتے ہیں کہ یہ مستقبل کے کارآمد ایسے انسان بن جائیں جو نہ صرف خود اپنے کھانے کمانے کے قابل ہو جائیں بلکہ ان کی صلاحیتوں کو ایسے چارچاند لگیں کہ یہ قومی دھارے میں اپنا مثبت کردار ادا کرکے خلق خدا کی بھلائی کے لیے کچھ کر سکیں۔ تمام والدین جائز و ناجائز کر کے اپنا ہدف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں شیر خدا دامادِ رسولؐ حضرت علیؓ فرماتے ہیں تم اپنی اولادوں پر ناحق پابندیاں نہ لگائو، نہ ہی ان کے لیے جائز ناجائز کے لیے فکر مند ہو اور نہ ہی انہیں اپنا جیسا بنانے کی جستجو کرواس لیے کہ یہ تمہارے زمانے کے لئے نہیں، ان کا کورس وہ ہرگز نہیں جو تم نے پڑھا، یہ اگلے زمانے کے لیے ہیں۔ لہٰذا ان کی سوچ اور دماغ بھی تم سے مختلف ہے تم ایک اچھے نگران کی حیثیت سے ان کی مثبت تربیت کے لیے سب کچھ کرو جو کر سکتے ہو، اخلاقی، مذہبی اور دنیاوی گْر سکھائو لیکن جائز و ناجائز اس لیے نہ کرو کہ یہ سب تمہاری اگلی زندگی کے لیے ’’زاد راہ‘‘ بن جائے گا۔ اگر تم کامیاب رہے تو یہ اچھے انسان ثابت ہوں گے لہٰذا تمہیں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں اور اگر تم درست تربیت نہ کر سکے اور ان کی غلطیوں سے شخصیت بگڑ گئی یعنی اولاد اچھی ثابت نہ ہوئی تو تمہیں ان کے لیے ناجائز کر کے اپنے گناہوں میں اضافہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ تم نے اگر اپنی اوقات کے مطابق سب اچھا کرنے کی کوشش کی تو’’اللہ دیکھ رہا ہے‘‘ ، اولاد اپنے کئے کی خود ذمہ دار ہو گی۔ کہتے ہیں کہ بوڑھا بچہ ایک برابر۔۔ ہر کسی کو بڑھاپا نصیب نہیں ہوتا۔ حقیقت میں جنہیں یہ نعمت ملتی ہے وہ ان کا دوسرا جنم ہوتا ہے سوچیں ۔۔ جس طرح آپ نے بچپن میں بچوں کی دیکھ بھال اور فکرمندی کی تھی، انہیں بات بات پر روکا ٹوکا بھی تھا۔ اب وہی کام بچے آپ کے ساتھ کر رہے ہیں۔ یہ کھائیں، یہ نہ کھائیں، کہا ں جانا ہے کہاں نہیں جانا؟ ہمیں بتائیں ہمارے بغیر آپ گھر سے نہ نکلیں کہیں راستہ بھول سکتے ہیں؟ سڑک پار کرتے کسی مشکل کا شکار ہو سکتے ہیں، کپڑے جوتے وہ پہنیں جو ہم لائے ہیں۔ وہ ’’برانڈ ‘‘ والے ہیں۔ آپ لاکھ کہیں ، نہیں یار میرے پرانے کپڑے ہیں ، میں پسند کرتا ہوں، مہنگے جوتے مت لایا کرو،’’فوراً‘‘ جواب ملے گا وہ زمانہ اب نہیں ،چھوڑیں پرانی باتیں۔ ہماری عزت و توقیر کا معاملہ ہے، ہر حال میں یہ ’’دوسرا جنم‘‘ ہے ہر بات مختلف، پہلے یہی بچے آپ کے سہارے دوڑتے بھاگتے پھرتے دکھائی دیتے تھے اب یہ اپنے سہارے آپ میں خوشیاں ڈھونڈتے ہیں اس وقت یہ آپ کے سہارے کھڑے ہو جاتے تو آپ مسکراتے خوشی کا اظہار کرتے نہیں تھکتے تھے۔ اب آپ ان کے سہارے کھڑے ہو جائیں۔ دو فرلانگ واک کر لیں تو سارے خاندان میں یہ خوش ہو کر چرچا کرتے ہیں اس لیے کہ ہر دوسرے بزرگ کے گھٹنے جواب دے چکے ہیں یقینا ہر کسی کے حالات کار ایسے نہیں، لیکن انداز اور طریقہ کار میں فرق ہو سکتا ہے، معاملات تقریباً ایک جیسے ہی ہوتے ہیں، جنم پہلا ہو یا دوسرا؟ دعاگو ہوں کہ اس مشکل اور آزمائشوں کے دور میں بھی مالک کائنات ہمارے لئے آسانیاں پیدا کرے اور ہم سب اس کے شکرانے بطور ’’خلق خدا‘‘ کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا رواج آگے بڑھا سکیں ، ’’جنم پہلا ہو کہ دوسرا‘‘ اس جنم کی آخری سزا موت ہے اور پھر اس کے بعد کئے دھرے کا حساب کتاب_اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو اپنی امان میں رکھے، ہمیں دکھوں سے دور ایک دوسرے کے لئے مسکراہٹیں بانٹنے کا وسیلہ بنائے تاکہ جب ہم اس فانی دنیا سے رخصت ہوں تو ہمارے پاس ’’زاد راہ‘‘ کا کثیر سرمایہ ہو۔ آمین۔ اللہ صحت و تندرستی کے ساتھ خوشیاں سکھ اور سکون دے کیونکہ موت ہی اٹل حقیقت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button