Ahmad NaveedColumn

ہندوستان ایک بٹا ہوا معاشرہ

احمد نوید
76سال قبل1947ء کو جو بٹوارہ ہوا تھا۔ بھارت آج بھی اس پر تلما رہا ہے۔ جس کی ایک مثال اسی اگست میں دیکھنے میں آئی ہے۔ جب بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے 14اگست کو تقسیم کی ہولناکیوں کو یاد کرنے کے دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سکولوں، کالجوں اور دیگر اداروں کو طرح طرح کے پروگرام منعقد کرکے اس دن کو سیاہ دن کے طور پر منانے کا حکم دیا گیا ہے۔
حالانکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج ہندوستان کو اپنے اندر کئی طرح کے بٹواروں کا سامنا ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال مسلمانوں اور دیگر اقلیتی مذہبی فرقوں اور ذاتوں کو جس طرح سے ملیا میٹ کرنے کے واقعات سامنے آرہے ہیں ۔ اُس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ مودی حکومت کا 14اگست پر رونے پیٹنے سے کہیں بہتر ہوگا کہ وہ اپنے گریبان میں جھانکیں اور اس اصلیت کو تسلیم کریں کہ آج ہندوستان انسانی حقوق اور مذہبی اقلیتوں کے لئے خطرناک ترین ملک بن چکا ہے۔ مودی حکومت کو چاہیے کہ آنکھیں کھولے اور دیکھے کہ برطانوی راج سے آزادی کے بعد 76سالوں میں آج کا ہندوستان سب سے زیادہ بٹا ہوا ہے۔ اس تقسیم کو منی پور میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ بات مودی حکومت کو جتنی بھی بری لگے مگر سچ یہی ہے کہ منی پور ایک نہیں ہے۔ یہاں اکثریتی اور اقلیتی مذہبی فرقوں اور ذاتوں میں تشدد کے واقعات مودی حکومت کے منہ پرتمانچہ ہیں ۔ منی پور کی تقسیم کتنی گہری ہے اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاںکُکی لوگ منی پور پولیس کو میتیئی پولیس مانتے ہیں اور میتیئی کو آسام رائفلز پر بالکل بھروسہ نہیں ہے۔ منی پور میں اتنے شدید تشدد کے بعد بھی آخر کیوں فوج کو حالات کو سنبھالنے کے لیے نہیں بلایا گیا، کیونکہ میتیئی دہشت گرد گروہ ایسا نہیں چاہتا تھا۔
منی پور کی تقسیم، خاندانوں کی تقسیم بھی ہے۔ کُکی میتیئی مخلوط خاندانوں میں بھی لوگ خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے۔ کُکی بیوی کو کُکی کے علاقے میں بھیج دیا گیا ہے۔ میتیئی ماں کے ساتھ ہونے کے باوجود ایک زخمی بچے کو، جس کا باپ کُکی تھا، اس کی ماں کے ساتھ میتیئی کے لوگوں نے مار ڈالا۔ منی پور میں ہر کمیونٹی شہریت کی رجسٹر کا مطالبہ کر رہی ہے۔ خود آسام کے وزیر اعلیٰ آسام میں مسلسل تفریق پیدا کر رہے ہیں۔ بنگالی مسلمانوں اور عام آسامی لوگوں کے درمیان بھی فاصلے بڑھ رہے ہیں۔
اتر پردیش کے لوگوں کو سمجھایا جا رہا ہے کہ انہیں کیرالہ یا بنگال جیسا نہیں بننا ہے۔ ہندی بیلٹ میں کیرالہ کے تئیں نفرت، تمل ناڈو کے خلاف نفرت کی تشہیر بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاست کا حصہ ہے۔ دوسری جانب جموں و کشمیر میں جو کچھ کیا گیا اس کے لئے باقی ہندوستان کے لوگوں کو تسلی دی گی کہ اس ریاست میں مسلم غلبہ کو ختم کرنے کے لیے یہ ضروری تھا۔ اس آئیڈیالوجی کے مطابق ہندو تعداد کا غلبہ تو ٹھیک ہے لیکن مسلم تعداد سے خطرہ ہے۔ اسی لیے ہندوستان کے ہر انتخابی حلقے کی حد بندی اگلے الیکشن کے لئے اس طرح کی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کا اثر ہی ختم کر دیا جائے۔ یہ ایسا انضمام ہے جو بھارت میں بٹوارے کی ہی دوسری شکل ہے۔
منی پور کی تقسیم کے بعد ہریانہ کی طرف دیکھیں۔ ہزاروں مسلمان جو اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے گڑگائوں آئے تھے، تشدد کے بعد اپنی آبائی ریاستوں کو واپس جا رہے ہیں۔ کوئی انہیں روکنے کی کوشش نہیں کر رہا اور مودی حکومت نیرو کی طرح چین کی بانسری بجا رہی ہے۔
ہریانہ کے گڑگائوں کی مسجد کے امام کو جب اسکے بھائی نے کہا کہ تنائو ہے۔ وہ ان کے پاس آ جائے تو امام مسجد نے جواب دیا کہ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں، پولیس مسلمانوں کی حفاظت کے لیے موجود ہے اور اس پولیس نے مسجد کے امام کو قتل ہو نے دیا۔ قاتلوں کو روکنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گی۔ آج بھارت میں مسلمان پولیس پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ ہریانہ کے باقی علاقوں میں ذہنی اور جذباتی تقسیم ہو چکی ہے۔
بھارت میں آج ایک زبان، ایک مذہب، ایک علاقے کے لوگ دوسری زبان، دوسرے مذہب اور دوسرے علاقے کے لوگوں کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ہندوستان میں جگہ جگہ دراڑیں پڑ رہی ہیں یا پڑ چکی ہیں۔ اس کو اس طرح کہنا بہتر ہو گا کہ مودی حکومت کی جانب سے یہ دراڑیں ڈالی جا رہی ہیں۔ آج ہندوستان ایک بٹا ہوا معاشرہ ہے۔ یہ ذات پات میں بٹا ہوا معاشرہ ہے۔ کوئی بھی ذات کسی دوسری ذات سے کسی قسم کا جذباتی تعلق نہیں رکھنا چاہتی اور اسی لیے تقسیم ہندوستان کے لیے فطری ہے۔ یہاں کئی نئے ملک بننے کی رہ پر گامزن ہیں۔
ایک قوم بننے کا سفر ایک دوسرے کے تئیں ذمہ داری کے تجربے اور اس ذمہ داری کو نبھانے کی کوشش سے ہی شروع ہوتا ہے۔ اسی طرح قوم ایک مشترکہ بنیاد کی تلاش ہے جس پر سب اکٹھے کھڑے ہو سکیں۔ قوم سے پہلے کے معاشروں میں موجود عدم مساوات کو ختم کر کے پیچھے رہ جانے والوں کا ہاتھ پکڑ کر آگے لانا ہی قوم کی تعمیر ہے۔ لیکن اگر قوم مسابقتی مفادات کا مجموعہ بن جائے تو کیا ہوگا؟ وہ ہو گا جو آج بھارت میں ہو رہا ہے۔
15اگست 1947ء کے بعد کا جو ہندوستان تھا، آج کے ہندوستان کے مقابلے میں متحد تھا مگر آج کا ہندوستان کہیں زیادہ بٹا ہوا ہے اور ایک سیاسی نظریہ جو دوستی کے اصول کے بجائے غلبہ کے اصول پر یقین رکھتا ہے اس تقسیم کو ہر سطح پر گہرا کر رہا ہے۔ نئے بٹوارے پیدا کیے جا رہے ہیں۔ آج ان بٹواروں کو ہر جگہ دیکھا جاسکتا ہے۔ سکولوں، کالجوں، محلوں اور نئے بنائے گئے اپارٹمنٹس یا کالونیوں میں۔ جب سرکاری طور پر مسلمانوں کو بعض علاقوں میں مکانات یا زمین خریدنے سے منع کر دیا جائے تو کیا ایک ہی شہر میں دو قومیں بنانے کی بنیاد نہیں۔ جب مسلمانوں سے کہا جائے کہ وہ اپنے تہوار نہیں منا سکتے، نماز نہیں پڑھ سکتے، جب عیسائیوں کو اپنی عبادت کرنے سے روکا جانے لگے اور انہیں کہا جائی کہ وہ اپنی جگہ تلاش کریں۔ یہ تقسیم ہے!
جغرافیائی تقسیم ذہنی اور جذباتی تقسیم سے شروع ہوتی ہے۔ ہندوستان میں ایک ہی نہیں بلکہ کئی بٹواری کیے جا رہے ہیں اور مودی حکومت اس کی ذمہ دار ہے۔ اب کیا ہی بہتر ہو کہ بھارتیہ جنتا پارٹی 14اگست کو سیاہ دن کے طور پر منانے کی بجائے 15اگست کو یوم سیاہ کے طور پر منائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button