ColumnRoshan Lal

پستول سے فیصلہ

تجمل حسین ہاشمی
روزانہ دو چار سے زیادہ ایسی خبریں ملتی ہیں جن سے 25کروڑ لوگوں خوفزدہ ہو جاتے ہیں ، ان خبروں میں زیادہ قتل اور خودکشی اور حکمرانوں کی لوٹ مار شامل ہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا نہیں صرف ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان اور اس کے ہمسایہ ملک جہاں ایسے واقعات زیادہ پائے جاتے ہیں، معمولی سی بات پر لوگوں ایک دوسرے پر پسٹل نکالا لیتے ہیں، معمولی معمولی باتوں سے اپنے پیاروں کو قتل کر دیتے ہیں، ایسے واقعات کا ذمہ دار کون ہے؟ ان 76سال میں ذمہ داری کا تعین نہیں ہو سکا۔ گزشتہ روز پنجاب پولیس کے جوان کی ویڈیو وائرل ہوئی۔ وہ ایسی مُغَلَّظات بک رہا تھا جس کی کوئی انتہا نہیں رہی، یہاں تک کہ وہ صحافی کو مارنے کی بھر پور کوشش میں تھا، معاشرہ میں ایسے رویہ کے حامل افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کیا ایسے رویوں کی پیدائش میں حکومتی نا اہلی سمجھی جائے یا پھر موجودہ نظام کی ناکامی سمجھی جائے، ہمارے ہاں بجلی کے بل پر خود کشی کی دھمکیاں اور گلی میں بچوں کی لڑائی پر قتل تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ ہر چند ماہ بعد کوئی نا کوئی کھمبے پر چڑھ جاتا ہے اور صوبائی حکومت کو لینے کے دینے پڑھ جاتے ہیں، حکومت کے پاس وسائل نہیں یہ کہنا مناسب نہیں ہم یہ کہ لیتے ہیں اداروں کو ملنے والے فنڈز پر ایسے ہاتھ دھوئے جاتے ہیں جیسے یہ نیک کام ہے اور اگلے جہاں میں قابل فخر تسلیم ہو گا۔ ہزاروں قاتل جیل میں ہیں اور اس سے کئی گنا زیادہ باہر بیٹھے لوگوں کو دھمکا رہے ہیں۔ ہر دوسرا فرد ایک دوسرے کے خلاف سازش کر رہا ہے، کچھ حاصل ہو نہ ہو، ایسے ہزاروں کردار روزانہ ملیں گے، میں ذاتی طور پر ایسے رویوں کا کئی دفعہ سامنا کر چکا ہوں ، ہمارا سچ لکھنا بھی برداشت نہیں۔ چور کو چور کہنا گناہ بن جاتا ہے ۔ دوسرے کی ترقی پر حسد کر کے کسی کا نقصان نہیں کر رہے بلکہ اپنے سکون کو تباہ کر رہے ہیں ۔ ایسے رویے محلوں، گلیوں سے نکل کر آج کل حکومتی حلقوں اور سرکاری اداروں میں عام ہو چکے ہیں، سندھ پولیس کے سربراہ، جس کو انسپکٹر جنرل کہتے ہیں، کی پوسٹنگ پر میڈیا پر چھوٹا گریڈ، بڑا گریڈ کے تبصرے ملے۔ جو ادارے کی تفریق و تقسیم کو ہوا دے رہے ہیں۔ جن کا ذکر اشفاق احمد کرتے ہیں کہ اللّہ پاک کے احکامات اور فعل کے فرق کو سمجھو۔ جس حال میں اللّہ رکھے شاکر رہنا چاہئے۔ زندگی کافی آسان ہو جاتی ہے۔ لیکن ہم کہاں چاہتے ہیں کہ زندگی آسان ہو، ہم سچے کو مل کر دباتے ہیں، جھوٹے کی واہ میں اپنی حیثیت بھول جاتے ہیں کہ میں بھی انسان ہوں اور اللّہ نے سچ بولنے کے لیے پیدا کیا ہے، اگر سچ کہنے کی ہمت نہیں تو واہ، واہ کی بھی ضرورت نہیں۔ جس غیرت کے نام پر لوگ قتل ہوتے ہیں، ذاتی خیال میں غیرت نہیں جاہلیت ہے۔ ہندوئوں سے آزادی تو حاصل کر لی لیکن ان کی سوچ، رسم و رواج کو ختم نہ کر سکے۔ آج کل بجلی کے بل زیادہ آ رہے ہیں، میں نے پچھلے کالم میں ماضی کے معاہدوں پر لکھا تو ایک جاننے والے نے بیان داغ دیا کہ پی ٹی آئی کے بیانیے کی ترجمانی ہے، لیکن جب بھی ان عوامل کی نشان دہی کی، ماضی میں ان منصوبوں پر بات کی، جن حکومتوں نے بجلی کے مہنگے پراجیکٹ لگائے جن کی وجہ سے مہنگی بجلی مل رہی ہے لیکن مسلم لیگ ن کی قیادت 2013ء سے 2018 ء تک سستی بجلی دینے کا کریڈٹ لینا چاہ رہی ہے لیکن یہ نہیں بتا رہی کہ اس وقت آئی ایم ایف کی شرائط اتنی سخت نہیں تھیں، جو خان اور خاص کر ابھی 16ماہ کی حکومت ڈیفالٹ کے نام پر تسلیم کر کے جا چکی ہے۔ کچھ بھی کریں نگران حکومت نے ہاتھ کھڑے کر دئیے ہیں۔ مہنگائی سے معاشرہ تفریق کا شکار ہوتا ہے۔ کوئی ایک دوسرے سے خوش نہیں ہے، لیکن اچھے سوچنے والوں کی بھی ہمت جواب دے چکی ہے، چوروں میں اکیلا راجہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکے گا۔ اللّہ پاک نے دنیا کے تمام انسانوں کو بنیادی سہولتوں بلا تفریق دی ہیں، ان کے استعمال کی کوئی قیمت نہیں اور استعمال میں آزاد ہیں۔ کسی فرد خواہ وہ مسلمان ہو یا پھر کافر، کوئی قدغن نہیں رکھی، خالق نے آکسیجن کائنات کو مہیا کر دی ہے، کرونا میں دیکھا کہ اس آکسیجن کی کتنی قیمت وصول کی جا رہی تھی، اللّہ پاک نے فری مہیا کی ہوئی ہے، روشنی، پانی، دن اور رات جیسی ہزاروں نعمتیں دی ہیں جو امیر اور غریب سب کے لیے برابر ہیں، لیکن پھر بھی انسان ایک دوسرے کے حسد میں لکڑی کی طرح جل رہا ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر انسان گولی چلاتا ہے، منہ کے فائر داغ دیتا ہے جو نفرت کو جنم دیتے ہیں۔ معاشرہ میں عدم برداشت ختم ہو چکی ہے، کیا اس عدم برداشت کی ذمہ داری حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ یقینا اس میں آپ حکومتوں کو بری ذمہ قرار نہیں دے سکتے، غریبوں کی کفالت کے پروگراموں میں اربوں روپے کا غبن کرنے والے کون ہیں۔ قائدؒ کے مزار سے پارکوں تک پر مافیا قابض ہے جو آواز اٹھائے گا پستول اس کے خلاف چل جائے گا۔ غریبوں کی کفالت ریاستوں کی ذمہ داری لیکن حکمرانوں کے شاہی محلوں کٹ اخراجات غریب برداشت کر رہا ہے۔ ہم اسلامی ریاست ہیں، لیکن غیر اسلامی ممالک حشرات الارض اور جانوروں تک کے تحفظ کا خیال کرتے ہیں۔ وہاں پستول سے کوئی قتل نہیں ہوتا، کوئی روٹی، کپڑے اور حسد کی آگ میں نہیں جلتا، کوئی بجلی کے بل کے لیے خود کشی نہیں کرتا۔ وہاں سچ اور انصاف کا حصول برابر ہے۔ ادارے انسان کے احترام میں کھڑے ہیں لیکن یہ سب کچھ ہمارے معاشرہ کا حصہ کیوں بن چکا ہے۔ تحفظ دینا اور بنیادی سہولتوں دینا ریاست کا کام ہے لیکن اربوں روپے کے ڈاکوئوں پر خاموش کھڑی ہے۔ غریب کا استحصال جاری ہے، اس کو روکنے میں ادارے ناکام ہو چکے ہیں۔ طاقتور ہاتھوں میں معاشی نظام جکڑا چکا ہے۔ تسلیوں سے کام نہیں چلے گا۔ زندہ قوم کی روح کو زندہ رکھنے کے لیے انصاف پر مبنی اور آئین پاکستان پر اداروں کو عمل کی ضرورت ہے، ان کی ہٹ دھرمی اور نا اہلی سے معاشرہ بے راہ راوی کا شکار ہو چکاہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button