ColumnRoshan Lal

بجلی بحران اور تاریخی حقائق

روشن لعل
اشرافیہ کے مفادات اور ان کی پرتعیش زندگی کے لوازمات کا مسلسل تحفظ کرتے ہوئے بجٹ خسارے کا بوجھ عوام پر ڈالنے کے لیے بجلی کی قیمتوں میں جو ظالمانہ اضافہ کیا گیا اس کے نتیجے میں عوام کی بلبلاہٹ آج کل ملک کے کونے کونے میں نظر آ رہے ہیں۔ یہ مناظر دیکھنے کے بعد سوچا تو یہ تھا کہ عوام کی بلبلاہٹ اور اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے اچانک سرگرم ہونے والے لوگوں کے متعلق کچھ لکھا جائے مگر اس معاملے میں کے پی کے باسی اور ایک بڑے میڈیا گروپ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی کی طرف سی کچھ ایسا تبصرہ سننے کو ملا کہ ذہن مذکورہ موضوع پر کچھ مختلف لکھنے کی طرف مائل ہو گیا۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ مذکورہ سینئر صحافی نے کیا کہا۔ معروف ٹی وی چینل کے ایک پروگرام کی میزبان نے جب مذکورہ صحافی سے یہ سوال کیا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے پر عوام کے رد عمل کی وجہ سے پیدا ہونے بحران کی و جہ کیا ہے تو موصوف کا فوری جواب تھا کہ اس بحران کی وجہ پیپلز پارٹی ہے جس نے آئی پی پیز کے ساتھ مہنگی بجلی خریدنے کے معاہدے کیے ۔ اس بات پر سخت حیرت ہوئی کہ موصوف صحافی نے حالیہ بحران کو پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرف سے کیے گئے جن معاہدوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی وہ معاہدے کوئی کل کی بات نہیں بلکہ 1996میں بے نظیر بھٹو شہید کی دوسری حکومت ختم ہونے سے پہلے کیے گئے تھے۔ اس کے بعد گو کہ2008سے2013تک یہاں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم رہی مگر عدالتوں نے اس حکومت کو بجلی سمیت کسی بھی منصوبے پر اپنی مرضی سے کام کرنے نہیں دیاتھا۔ پیپلز پارٹی کی اس حکومت کی مدت پوری ہونے پر یہاں بننے والی حکومت نے سی پیک کے مرہون منت بجلی پیدا کرنے کے جو منصوبے شروع کیے ان کی نوعیت تو بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں لگائے گئے منصوبوں جیسی تھی مگر انہیں لگانے کے لیے نسبتاً کہیں زیادہ سخت شرائط تسلیم کی گئیں۔ اب اس بات کو مذکورہ صحافی کا اپنی مثال آپ تبصرہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ جسے پیپلز پارٹی کی حکومت میں 20برس سے بھی زیادہ عرصہ پہلے لگائے گئے بجلی کے منصوبے تو یاد رہے مگر نہ جانے کیوں اس نے یہ دیکھنا اور سوچنا گوارا نہ کیا کہ موجودہ بحران کی وجہ جن بجلی کے منصوبوں کو قرار دیا جاسکتا ہے وہ اس وقت لگائے گئے جب یہاں پیپلز پارٹی کی نہیں بلکہ مسلم لیگ ن کی حکومت تھی۔
مذکورہ صحافی نے بجلی کے موجودہ بحران پر گئے اپنے تبصرے میں جو کچھ مد نظر رکھا اور جو نظر انداز کیا ، اس کے پیش نظر بعض لوگوں نے اس کی باتوں کو طویل عرصہ سے پیپلز پارٹی کے لیے ظاہر ہونے والے تعصب اور مسلم لیگ ن کے لیے محبت قرار دیا۔ ایسی باتوں کو کسی طرح بھی مناسب نہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ اگر کوئی اپنے تبصروں میں کسی کے لئے موافق یا اس کے برعکس جذبات ظاہر کرتا ہے تو اس کے لیے محبت یا تعصب کے فتوے جاری کرنے کی بجائے زیادہ بہتر یہ ہے کہ اس کے تبصروں کو تاریخ کے تناظر میں سچ یا جھوٹ کے ترازو میں تولا جائے ۔ موصوف صحافی کے مذکورہ تبصرے کو تاریخ کے تناظر میں دیکھنے کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا جانا چاہیے کہ اس نے تاریخی حقائق بیان کیے یا تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ موصوف صحافی نے جو کچھ کہا اس کا نتارا ذیل میں پیش کیے گئے ان تاریخی حوالوں کو مد نظر رکھ کیا جاسکتا ہے جنہیں ناقابل تردید میڈیا رپورٹوں اور سرکاری ریکارڈ سے اخذ کیا گیا ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے دوسرے دور حکومت میں 1993سے 1996تک بجلی پیدا کرنے کے جو پلانٹ لگائے گئے ان کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ 1985کے بعد سے پاکستان میں بجلی کے کنکشنوں کی طلب میں 12فیصد سالانہ اضافہ ہو رہا تھا جبکہ اس طلب کے مقابلے میں صرف 7فیصد کنکشن دیئے جارہے تھے۔ یہ کنکشن بھی نئی بجلی پیدا کر کے نہیں بلکہ پہلے سے جاری لوڈ شیڈنگ میں اضافہ کر کے دیئے جارہے تھے۔ بے نظیر بھٹو کو جب بڑی مشکل سے صرف اٹھارہ مہینے پہلی حکومت کرنے کا موقع دیا گیا تو انہوں نے ملک میں کئی برسوں سے جاری لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کے لیے بجلی گھر لگانے کے لیے مشاورت شروع کردی۔ اس مسئلے پر مشاورت کے بعد بے نظیر بھٹو کو بجلی لگانے کے منصوبوں پر کام کرنے کا موقع تو نہ مل سکا لیکن طویل عرصہ سے جاری لوڈ شیڈنگ ختم کرنے لیے انہوں اپنی دوسری حکومت شروع ہونے کے فوراً بعد وہاں سے کام شروع کیا جہاں پہلے ختم کروادیا گیا تھا۔
ان منصوبوں پر کام شروع کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ نظیر بھٹو جب 1993ء میں دوسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو انہوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری اور صنعتی ترقی کے لیے بیرونی دنیا کے ساتھ کئی ایم او یو ز سائن کیے ۔ پاکستان میں بجلی کی کم پیداوار اور توانائی کے بحران کی وجہ سے مذکورہ ایم او یوز کے مطابق عمل درآمد ممکن نہ تھا۔ ملک کی کمزور معاشی حالت کی وجہ سے قومی خزانہ اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا اس کے تصرف سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہکیا جاسکے۔ لہذا بجلی کی کم از کم وقت میں فراہمی کے لیے 1994ء کی پاور پالیسی کے تحت تھرمل بجلی کی پیداوار کی غرض سے مختلف آئی پی پیز کے ساتھ دس برس کی مدت تک کے لیے بجلی پیدا کرنے کے معاہدے کیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی 1994ء کی پاور پالیسی میں یہ بھی طے کیا گیاکہ سستی پن بجلی کے منصوبے جن کی تعمیر کا دورانیہ طویل ہوتا ہے پر بھی کام شروع کر دیا جائے تاکہ جب تھرمل بجلی پیدا کرنے والے آئی پی پیز کے ساتھ دس برس کا معاہدہ ختم ہو تو وافر مقدار میں پن بجلی کی دستیابی کی وجہ سے نئے سرے سے لوڈ شیڈنگ کا بحران پیدا نہ ہو ا۔ اس بات کی سب سے بڑی مثال بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران شروع کیا گیا غازی بروتھا پن بجلی منصوبہ ہے جس سے تقریباً 1400میگا واٹ کے قریب بجلی پیدا ہوتی ہے۔ بے نظیر بھٹو کی پاور پالیسی کی وجہ سے یہ ملک 2006تک لوڈ شیڈنگ سے محفوظ رہا ۔
سازش کے تحت ، بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے خاتمے کے بعد ، یک جنبش قلم ان کی پاور پالیسی 1994ء بھی ختم کر دی گئی جس سے نہ صرف مہنگی تھرمل بلکہ سستی پن بجلی کے مستقبل کے منصوبے بھی درگور ہو گئے۔ آج اگر کوئی موجودہ بحران کی جڑیں تلاش کرنا چاہے تو وہ مذکورہ حقیقتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے با آسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ بیس سال قبل سستی پن بجلی کے جو منصوبے ختم کیے گئے ان کی وجہ سے مہنگی بجلی پیدا کرنے اور طویل عرصہ سے جاری لوڈ شیڈنگ کی راہ کیسے ہموار ہوئی۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ناقابل تردید حقائق کو نظر انداز کر کے یہاں نامور صحافی بڑے بڑے ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر کس قدر آسانی سے تاریخ مسخ کرتے رہتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button