Ali HassanColumn

ریاست اور سماجی بحران

علی حسن
پاکستان دنیا کی چند ریاستوں میں شامل ہوگا جو سماجی بحران سے دوچار ہوں گی۔ پاکستان میں تو سماجی بحران زیادہ ہی گہرا محسوس ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ انتخابات، اقتدار، حکومت، سیاست وغیرہ کسی بھی ملک کے لئے اہم عنصر ہوتے ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ معیشت اہمیت رکھتی ہے اور اس سے بھی بہت زیادہ اہمیت سماجی اقدار اور انصاف کو حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان میں سیاست کا مقصد اقتدار کا حصول لیا جاتا ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد سے یہ تماشہ ابھی تک جاتی ہے۔ کسی بھی حکومت نے ریاست کی سماجی ذمہ داریوں توجہ ہی نہیں دی ہے۔ ججوں کے گھروں میں روٹی کے چند نوالوں کے عوض غلامی کرنے والی لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ سندھ میں بعض پیروں کے گھروں میں غلامی کرنے والی خواتین کے ساتھ عمومی رویہ ، تعلیمی اداروں میں طالبات کے ساتھ جنسی ہراساں کرنے کے واقعات، سکولوں میں بچوں کے ساتھ رویہ۔ منگل ( گزشتہ روز) کی ہی خبر ہے کہ کس طرح سکول کے بچے چیئر لفٹ کے راسے ٹوٹ جانے کی وجہ سے زندگی اور موت کے درمیان لٹکے رہے۔ اس چیئر لفٹ کی دیکھ بھال اس کے مالک کے علاوہ تو کسی سرکاری اہل کار کی بھی ہوگی۔ عیسائیوں کی عبادت گاہوں کو نظر آتش کر کے راکھ میں تبدیل کرنے والوں کو تو حکومت تلاش کر رہی ہو گی لیکن ا بتداء میں ہی یہ ہونا لازمی تھا کہ جس بھی افراد کے گھر و ں کو نظر آتش کیا گیا ہے ان کی فوری طور پر مالی مدد کی جائے تاکہ انہیں محسوس ہو کہ ان کے نقصان کا کچھ نہ کچھ تو ازالہ ہوا۔ کہیں کوئی نظر آتا ہے جو ریاست کی طرف سے ذمہ داری پوری کرتا ہو۔ حکمران افسوس کا اظہار کرنے کے بیانات کے علاوہ کچھ اور نہین کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے ؟ حیران کن بات ہے کہ ملک بھر میں سارے ہی شہری اپنے بل بوتے پر زندگی گزار رہے ہیں۔ ریاست کہیں بھی نظر نہیں آتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس پر ملک کے تمام مقتدر حلقوں کو سوچنا چاہیے۔
صوبہ سندھ کے ایک بڑے ضلع خیر پور کی ایک تحصیل رانی پور ہے۔ رانی پور اس علاقے کے پیروں کی وجہ سے مشہور ہے۔ رانی پور کے خاندان ہمیشہ منتخب ہوتے ہیں۔ اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں۔ خیر پور پیروں کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ وہاں سے ایک خبر تیزی سے گردش میں ہے کہ پیروں کی حویلی میں کام کرنے والی ایک دس سالہ لڑکی ہلاک ہو گئی۔ اس کی ہلاکت کو معمول کی ہلاکت قرار دے کر لڑکی کو دفن کر دیا گیا تاکہ کیس کا بھی جرم مٹی تلے دفن ہو جائے لیکن سوشل میڈیا پر شور کے بعد پولس کے ضلعی سربراہ کو تبدیل کیا گیا جنہوں نے ابتدائی تحقیقات کے بعد ہی اسد شاہ نامی شخص کو حراست میں لیا۔ لڑکی فاطمہ ان کے گھر میں ہی کام کاج کرتی تھی۔ اسد شاہ کے چچا فضل شاہ قومی اسمبلی کے سابق رکن ہیں۔ پولس نے تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا تو شکوک پیسا ہوئے اور اسد شاہ نے اپنی گرفتاری کے بعد پولس کے سامنے اعتراف کر لیا کہ لڑکی ہلاک ہو گئی ہے۔ پولس نے قبر کشائی کرائی اور ڈاکٹروں سے معائنہ کرایا گیا تو ابتدائی رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا کہ لڑکی تو تشدد کی وجہ سے ہلاک ہوئی ہے۔ ڈاکٹروں نے بعد میں انکشاف کیا کہ دس سالہ لڑکی کی عصمت دری کے علاوہ اس کے ساتھ غیر فطری فعل بھی کیا گیا تھا۔ پولس کا کہنا ہے کہ اسد شاہ نے اعتراف کر لیا ہے۔
فاطمہ کیس میں گرفتار پیر اسد شاہ کی والدہ جو اپنے بیٹے کی بے گناہی کے سلسلے میں ہاتھ میں قران مجید لے کر پریس کانفرنس کر رہی تھیں۔ جن ان سے حویلی میں موجود نوکرانیوں کی تعداد کے بارے میں معلوم کیا گیا تو ان کا جواب تھا کہ سیکڑوں ہیں، آج تک کبھی گنی ہی نہیں ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا گیا ہے ۔سندھی میں اس قسم کی نوکرانیوں کو ’’ بانجھ‘‘ کہا جاتا ہے، جن کا باقاعدہ کوئی معاوضہ مقرر نہیں ہوتا۔ بس روٹی کے دو ٹکڑوں پر ان کے والدین اپنی بچیوں کو حویلی میں چھوڑ جاتے ہیں کہ مرشد کی شفاعت سے جنت کا راستہ آسان ہو جائے گا۔ اب پیر صاحب، ان کی بیگمات اور حویلی میں موجود ملازمائوں، ان بچیوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں، یہ وہ راز ہیں جو حویلی کی حرم سرائوں تک ہی محدود رہتے ہیں۔ والدین کبھی پلٹ کر ان کی خبر تک نہیں لیتے کہ مرشد ناراض ہوا تو دین اور دنیا دونوں ہی ختم ہو جائیں گے۔ یہ سب کچھ صدیوں سے ایک منظم نظام کے تحت ہوتا آرہا ہے اور اس میں سرکاری افسران، پولیس، ڈاکٹرز اور دیگر اہلکار اپنا حصہ وصول کرکے سہولت کاری فراہم کرتے ہیں۔ فاطمہ کیس میں بھی یہی ہوا۔ معصوم بچی کا مبینہ ریپ ہوا، ایس ایچ او اور ڈاکٹر کی مدد سے پوسٹ مارٹم کئے بغیر ہی لاش کو دفنا کر معاملہ نمٹا دیا گیا اور بچی کے والدین کو اس کی بیماری کا بتا کر چار پیسے دے کر خاموش کروا دیا گیا۔ یہ سب کچھ ایک بالکل نارمل اور روٹین پریکٹس کے تحت کیا گیا۔ کیونکہ ایسے کتنے ہی کیس ہیں جو آج تک منظر عام پر ہی نہیں آسکے۔ لیکن فاطمہ کی بات کسی نہ کسی طرح باہر نکل گئی اور سوشل میڈیا پر آگئی۔ جس کے نتیجے میں ایسا احتجاج ہوا کہ فاطمہ کی قبر کشائی کے احکامات جاری کئے گئے۔ اسد شاہ کی والدہ نے فاطمہ پر تشدد کی ذمہ داری اپنی بہو پر عائد کی ہے اور انہوں نے بہو کے والد کو بھی فاطمہ کا ایک ملزم قرار دیا ہے۔ کیا سچ ہے، کیا جھوٹ ہے۔ یہ تو پولس ہی تحقیقات کے دائرے کو مزید وسیع کر کے بتا سکے گی۔
تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ جس حویلی کے اوپر کبھی نر پرندہ بھی پرواز نہیں کر سکتا تھا، آج وہاں پولیس چوکی قائم کردی گئی ہے۔ حویلی مکمل طور پر سر بمہر ہونے کی وجہ سے ویران ہے، کیونکہ اس کے سارے مکیں مرد اپنی خواتین سمیت فرار ہیں اور رانی پور کی قومی شاہراہ پر احتجاج ہورہا ہے اور ہزاروں گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے فاطمہ کا کیس تو سامنے آگیا ہے جس کے بعد مسلسل احتجاج ہو رہے ہیں۔ صوبہ بھر کے اکثر پریس کلب بھی احتجاج میں شامل ہیں۔ دس سالہ لڑکی فاطمہ کو حویلی میں پیر اسد شاہ کی جانب سے مسلسل زیادتی کے بعد بے رحم طریقے سے قتل کرنے کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکال کر دھرنا دئیے جار رہے ہیں۔ سیاسی، سماجی، مذہبی صحافتی، وکلا، تاجر برادری کی تنظیموں سمیت شہریوں کی اکثریت شریک ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ دیگر فاطمائوں کو پیروں کی حویلیوں سے نکالا جائے تاکہ انہیں غلامی سے نجات مل سکے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وسائل سے محروم اور لاچار خواتین کو با عزت طریقے سے زندگی گزارنے میں مدد اور سہولت فراہم کرے۔ رضوانہ نامی لڑکی جو اپنی مالکن کے ہاتھوں تشدد اور زد و کوب ہونے کی وجہ سے شدید زخمی ہوئی اور پھر اسپتال میں داخل ہے، قانون تو اگر کارروائی کر سکا تو جج کی اہلیہ کے خلاف کوئی کارروائی ہو سکے گی ورنہ ریاست کی تو ذمہ داری ہے کہ رضوانہ کے مکمل علاج کے ساتھ ساتھ اس کی ماں کی اطمینان بخش مالی امداد کی جائے۔ ریاست کی یہ ہی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ریاست جب اپنے مقتدر حلقوں سے وابستہ افراد کو پال سکتی ہے تو ان بے سہارا لوگوں کی مالی مدد کیوں نہیں کر سکتی۔ ریاست کو اپنی سماجی ذمہ داریاں نبھانی چاہئے تاکہ ملکی حالات سے لاتعلق ہونے والے شہری مطمئن ہوں کہ ان کا ملک اور اس کی حکومت ان کا خیال رکھتی ہے۔ ختم شد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button