CM RizwanColumn

روایتی سرپرائز یا حقیقی مظلومیت؟

سی ایم رضوان
بندہ پی ٹی آئی کا ہو اور سستی شہرت یا سستی مظلومیت کے حصول کے لئے سرپرائز نہ دے یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ خاص طور پر جب بندہ پی ٹی آئی کے کوٹہ سے صدر مملکت پاکستان بنا ہوا ہو تو تب مذکورہ سرپرائز کا آنا ازحد ضروری ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر ایسی صورت میں کہ جب پارٹی کا سربراہ اور ساتھ بڑے لیول کی قیادت تازہ تازہ منظور شدہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل نامی دو بلوں کی منظوری کی بنا پر سنگین ترین مقدمات میں پھنس جانے کے خطرات سے دوچار ہو جائیں، جو بل خود صدر نے ہی مبینہ طور پر اپنے دستخطوں سے منظور کیے ہوں۔ ایسے میں صدر کی جانب سے یہ ٹویٹ آجانا کہ خدا جانتا ہے کہ ان بلوں پر انہوں نے دستخط نہیں کئے اور ان کے ماتحت سیکرٹریٹ کے لوگوں نے انہیں دھوکہ دے کر ان بلوں کو منظور کروایا ہے۔ وہ ایسا ہر گز نہیں چاہتے تھے اور اب ان قوانین کی زد میں جو بھی آئے وہ اللّٰہ واسطے کر کے ان کو معاف کر دے۔ اللّٰہ تعالیٰ سب جانتا ہے۔ اب اس ٹویٹ کا قوم پر نصف نصف ملاجلا اثر پڑا ہے۔ کچھ لوگ یک طرفہ طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں ایک ایسی خفیہ طاقت ہے جو اس طرح کے دستخط خود ہی کر سکتی ہے لہٰذا ان دستخطوں کے پیچھے بھی ممکنہ طور پر اسی طاقت کا ہاتھ ہوگا۔ اس ذہنیت کا ماننا ہے کہ صدر علوی کے دعویٰ، دستخطوں کی تردید اور توبہ و استغفار میں خاصا وزن ہے اور وہ کسی حد تک مظلوم ہیں کہ صدر ہوتے ہوئے بھی وہ اتنے بے بس ہیں کہ ان سے زبردستی دستخط کروائے گئے یا حتیٰ کہ ان کی جگہ خود دستخط کر کے انہیں بزور طاقت یا بزور سرمایہ یا انہیں عہدہ سے ہٹا دیئے جانے کی دھمکی دے کر ان کو جعلی یا دبا کے تحت کروائے گئے دستخطوں کو تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ہلچل مچا دینے والے اس انکشاف کا بعض لوگوں پر اس کے بالکل الٹ اثر بھی پڑا ہے کہ صدر موصوف سب کچھ اپنے ہاتھوں سے کر کے اب مظلومیت کا کارڈ لے رہے ہیں کہ ساتھ ہی ساتھ ان کے حامیوں کا ذہنی کتھارسس بھی اس سوچ کے ساتھ ہوتا رہے کہ ’’ جی اس ملک میں کچھ بھی ہو سکتا ہے، یہاں خفیہ طاقت کی حکومت ہے اور یہ طاقت صدر سمیت بڑوں بڑوں کو مجبور کر کے اپنی مرضی کا نتیجہ لے لیتی ہے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ بہرحال صدر مملکت عارف حسین علوی کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے مذکورہ بلوں پر دستخط نہیں کیے۔ صدر عارف علوی کے اس ٹوئٹ میں مزید دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے اپنے اسٹاف سے پوچھا تھا کہ آیا بل دستخط کے بغیر پارلیمنٹ واپس بھیجے گئے ہیں اور انہیں بتایا گیا تھا کہ وہ بھیج دیئے گئے ہیں۔ اس لئے صدر علوی کے مبینہ طور پر جعلی دستخط کے حوالے سے پاکستان کے طاقتور حلقوں کو ہی شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ ان بے بنیاد اور بودے دلائل کے حامل عناصر کے اس طرح کے خیالات اور الزامات تب سے مارکیٹ میں سامنے آنا شروع ہوئے ہیں جب سے عمران خان اقتدار سے فارغ ہوئے ہیں ورنہ ایک وقت تو وہ تھا کہ انہیں فوجی قیادت کی صورت میں دنیا کے عظیم جمہوریت پسند نظر آ رہے ہوتے تھے اور وہ آرمی کو شکایات لگاتے تھے کہ دیکھو جی فلاں سیاستدان فوج پر تنقید کر ریا ہے، گالیاں دے رہا ہے اور الزام تراشیاں کر ریا ہے۔ بیانات کے حوالے سے اسی دوغلے ماضی کی بنا پر اب صدر مملکت کی جانب سے اس مبہم ٹویٹ پر ان کے سیاسی مخالفین ان سے فوری طور پر صدارت کا عہدہ چھوڑ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ جب یہ دونوں بل منظوری کے مراحل سے گزر رہے تھے تو انہوں نے چپ سادھے رکھی اور اب جبکہ یہ قانون بن گئے ہیں اور ان کے تحت مقدمات کا اندراج اور گرفتاریاں شروع ہو گئی ہیں تو ان کو یہ خیال آیا ہے کہ ان سے دھوکہ ہوا ہے جبکہ دوسری طرف صدر علوی نے گزشتہ روز اپنے پرنسپل سیکرٹری وقار احمد کی خدمات واپس کرنے اور ان کی جگہ کسی دیگر افسر کو تعینات کرنے کا کہا گیا تو صدر مملکت کے ان احکامات کی تعمیل بھی نہ ہو سکی کیونکہ الیکشن کمیشن کی اجازت کے بغیر نہ پوسٹنگ تبادلے ہو سکتے ہیں اور نہ ہی حکومت پر صدر کی درخواست پر عمل لازم ہے۔ اس کے باوجود اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے وقار احمد کی جگہ نارکوٹکس ڈویژن کی سیکرٹری کی حیثیت سے کام کرنے والی 22ویں گریڈ کی افسر حمیرا احمد کو صدر پاکستان کی پرنسپل سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کا کہا مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ یاد رہے کہ صدر عارف علوی نے پیر کو وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری سید توقیر حسین شاہ سے کہا تھا کہ ان کے پرنسپل سیکرٹری وقار احمد کو ہٹایا جائے۔ اس اقدام کے پس منظر میں وہ تنازع تھا جو صدر علوی نے ایک ٹویٹ کر کے شروع کیا تھا۔ اب صدر کے اپنے ماتحت سیکرٹری کو ہٹانے اور نئی تعیناتی کے احکامات کی تعمیل نہ ہوسکی کیونکہ صدر نے یہ راستہ مبینہ طور پر اپنے سیاسی محرکات اور نگران حکومتی عہدیداروں کو سیاسی طور پر متاثر کرنے کی خواہش کے تحت اپنایا۔ واضح رہے کہ وقار احمد ایک دیانتدار اچھی شہرت کے حامل افسر ہیں جو سیکرٹریٹ گروپ سے 22ویں گریڈ میں ہیں، انہوں نے بھی صدر علوی کے موقف کو کھلے بندوں چیلنج کیا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر صدر کی دستخط کرتے ہوئے تصویر اور دستخط شدہ لیٹر بھی گردش میں ہیں۔ تاہم صدر نے اس پر کوئی جواب نہیں دیا۔ اس پیش رفت پر ایوان صدر کے پریس سیکرٹری نے تبصرے سے بھی گریز کیا ہے۔ یاد رہے کہ مسز حمیرا احمد جنہیں صدر کی پرنسپل سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کا کہا گیا تھا نے یہ اسائنمنٹ اپنی درخواست پر چھوڑ دی تھی۔ جس پر انہیں وفاقی سیکرٹری سائنس و ٹیکنالوجی لگایا گیا جبکہ بعدازاں انہیں سیکرٹری نارکوٹکس ڈویژن لگا دیا گیا تھا۔ وہ بھی ایک باوقار افسر خیال کی جاتی ہیں اور ان کے پاس اپنے فرائض انجام دینے کی مہارت موجود ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کے صدر مملکت کے پاس کسی سرکاری افسر کو تبدیل کرنے کا استحقاق نہ ہے۔ کسی بھی تبدیلی کے لئے انہیں حکومت سے رابطہ کرنا ہوتا ہے اور حکومت پر بھی یہ لازم نہیں کہ وہ صدر کی درخواست مانے۔
جہاں تک ان بلز کا تعلق ہے۔ گو کہ صدر ان بلز سے اتفاق نہیں کرتے مگر نگران حکومت کے مطابق ایوان صدر کی طرف سے مقررہ وقت میں کوئی مناسب اور آئینی راستہ اختیار نہ کیے جانے پر اب یہ دونوں بل قانون بن چکے ہیں۔ البتہ یہ تنازع ملک میں جاری سیاسی بحران کی ایک نئی کڑی ہے۔ حالانکہ قبل ازیں سینیٹ اور قومی اسمبلی نے اپنے علیحدہ علیحدہ اجلاسوں میں ان دونوں بلوں کو متفقہ طور پر منظور کیا تھا جس میں یہ تجویز دی گئی کہ کوئی بھی شخص سرکاری حیثیت میں حاصل کی گئی ایسی معلومات، جو ملکی مفاد اور سلامتی کے لئے نقصان دہ بن سکتی ہوں، کو ظاہر کرتا ہے یا انہیں ظاہر کرنے کا سبب بنتا ہے، اسے پانچ سال تک قید بامشقت کی سزا دی جا سکے گی۔ اس میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ جو فوجی افسر دوران سروس ایسے عہدے پر فائز رہا ہو جو آرمی ایکٹ کے تحت آتا ہو اور حساس قرار دیا گیا ہو۔ وہ اپنی ریٹائرمنٹ یا مستعفی ہونے یا پھر برطرفی کے پانچ سال مکمل ہونے تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتا۔ یہ بلز دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد صدر کو بھجوائے گئے تھے۔ صدر کو علم تھا کہ کون سے بل آئے ہیں اور کون سے انہوں نے واپس بھیجنے ہیں لیکن انہوں نے خاموشی اختیار کئے رکھی۔ حالانکہ یہ خبر میڈیا پر بھی آ گئی تھی کہ بل قانون بن گیا ہے وہ اس کے بعد بھی خاموش رہے مگر چالیس گھنٹے بعد اپنے عملے کے خلاف مبینہ کوتاہی پر کارروائی کی بجائے صدر نے سوشل میڈیا پر آ کر ایک بیان جاری کیا۔ اس سے نہ صرف ملک کی جگ ہنسائی ہوئی بلکہ یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ ایک غیر موثر صدر ہیں جو اپنا اختیار استعمال نہیں کر سکتے۔ صدر عارف علوی کو اس معاملے پر مستعفی ہونا چاہیے کیونکہ ان کی جانب سے تاخیر کرنا اور کئی دن تک بل کی مخالفت میں اپنی رائے کو چھپانا بدنیتی کا ثبوت ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ صدر علوی اس تنازع سے دراصل سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنا چاہتے تھے۔ یہ بھی ایک ممکنہ خیال ہے کہ ان قوانین کے روبہ عمل آنے کے بعد ان پر سیاسی پارٹی کا دبا آیا ہو یا انہوں نے خود کو اپنی پارٹی کی سیاست میں اہم رکھنے کے لئے یہ کام کیا ہو۔
بعض غیر جانبدار حلقوں کا یہ خیال بھی قابل توجہ ہے کہ موجودہ سیاسی دور میں پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی دونوں ہی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر رہی ہیں۔ جس بنا پر پاکستان ایک ٹرانزیشن فیز میں ہے۔ پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ وہ آج بہت طاقتور ہے۔ دوسری طرف پی ڈی ایم اتحاد سمجھتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں کوئی جماعت ایسی نہیں ہو گی جو اکثریتی ووٹ لے کر حکومت بنا سکے، اسی لئے وہ اتنے مضبوط ہیں کہ آئندہ اتحادی حکومت بنا لیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ملک کا صدر، ریاست کا سربراہ، جس نے اپنی پارٹی سے رابطے بھی کبھی منقطع نہیں کیے، اب ملک میں محض سیاسی انتشار پیدا کرنے کے لئے، اپنی غلطی کو قبول کر رہے ہیں کہ ان کے ماتحت عملے نے ان کی حکم عدولی کی ہے، اتنے بڑے عہدے پر بیٹھ کر یہ سب ہونے کے بعد بھی ان کا اس عہدے پر کام کرتے رہنا ظاہر کرتا ہے کہ مقتدر حلقوں پر جو عام طور پر الزام لگائے جاتے ہیں وہ سچ نہیں ہیں۔ البتہ صدر اگر اپنے معاملات میں فیئر ہیں اور وہ خود کو پی ٹی آئی کا نہیں ملک کا صدر ثابت کرنا چاہتے ہیں تو ان کو ازخود اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے اور صرف اسی صورت میں صدر کی ذات کے حوالے سے ایک مثبت تاثر بھی قائم ہوگا ورنہ یہی سمجھا جائے گا کہ انہوں نے محض سستی مظلومیت کا کارڈ حاصل کرنے کے لئے قوم کو ایک روایتی سرپرائز دیا ہے جو کہ ان کے قائد اور پارٹی کا پرانا وتیرہ ہے۔ اور یہ کہ وہ حقیقی طور پر مظلوم نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button