ColumnImtiaz Ahmad Shad

دین میں کوئی زبردستی نہیں

امتیاز احمد شاد

اسلام شرف انسانیت کا علمبردار دین ہے۔ ہر فرد سے حسن سلوک کی تعلیم دینے والے دین میں کوئی ایسا اصول یا ضابطہ روا نہیں رکھا گیا جو شرفِ انسانیت کے منافی ہو۔ دیگر طبقات معاشرہ کی طرح اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو بھی ان تمام حقوق کا مستحق قرار دیا گیا ہے جن کا ایک مثالی معاشرے میں تصور کیا جا سکتا ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کی اساس معاملات دین میں جبر و اکراہ کے عنصر کی نفی کر کے فراہم کی گئی، اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ دین میں کوئی زبردستی نہیں‘‘۔ اسلامی معاشرے میں مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اقلیتوں سے نیکی، انصاف اور حسن سلوک پر مبنی رویہ اختیار کریں۔ قرآن پاک کی سورۃ الممتحنمیں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔’’ اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین ( کے بارے ) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے ( یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتائو کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے‘‘۔ وہ لوگ جو اسلام کے نام پر اللہ کی زمین پر فساد برپا کرتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اسلامی معاشرے میں اقلیتوں کے حقوق کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’ خبردار! جس کسی نے کسی معاہد ( اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو روزِ قیامت میں اس کی طرف سے ( مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا‘‘۔ ( ابو دائود، السنن) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بیرونی علاقوں سے آنے والے غیر مسلم وفود کی میزبانی فرماتے۔ جب مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حبشہ کے عیسائیوں کا ایک وفد آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور ان کی مہمان نوازی خود اپنے ذمہ لی اور فرمایا:’’ یہ لوگ ممتاز و منفرد حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے میں نے پسند کیا کہ میں خود ان کی تعظیم و تکریم اور مہمان نوازی کروں‘‘۔ ( بیہقی)۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں ایک دفعہ ایک مسلمان نے ایک غیر مسلم کو قتل کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قصاص کے طور پر اس مسلمان کے قتل کئے جانے کا حکم دیا اور فرمایا:’’ غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے‘‘۔ ( ابن ابی شیب)۔ اسلامی ریاست اقلیتوں کے تحفظ اور سلامتی کی ذمہ دار ہے۔ اقلیتوں کی جان کی حرمت کے متعلق الشعبی کا قول ہے:’’ یہودی، عیسائی اور ہر ذمی کی دیت مسلمان کی دیت کی مثل ہے‘‘۔
لہٰذا اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں قرآن و سنت کی عطا کی گئی تعلیمات اور دور نبوت و دور خلافت راشدہ میں اقلیتوں کے حقوق کے احترام و تحفظ کے ان روشن نظائر سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ مسلم ریاست میں اقلیتوں کے حقوق کو وہ حقوق اور تحفظ حاصل ہے جن کا تصور بھی کسی دوسرے معاشرے میں نہیں کیا جا سکتا۔ ان واضح دلائل کے باوجود اگر اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ریاست جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، کے باشندے اقلیتوں کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں تو پھر افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ در اصل ہم پیغام مصطفیؐ کو سمجھ ہی نہیں پائے۔ سترہ اگست کو جو کچھ مسیحی برادری کے ساتھ ہوا جس طرح سے جڑانوالہ میں توہینِ مذہب کے مبینہ واقعے کیخلاف احتجاج کرنے والے مشتعل افراد نے کرسچین کالونی اور عیسیٰ نگری میں گرجا گھروں، مسیحی برادری کے درجنوں مکان، گاڑیاں اور مال و اسباب جلا دئیے ، کیا یہ اسلامی تعلیمات ہیں؟ ابتدائی رپورٹ کے مطابق سولہ گرجا گھروں کو آگ لگائی گئی جس سے نہ صرف سو کے قریب بائبل یا انجیل کے نسخے جل گئے بلکہ دیگر مسیحی لٹریچر اور املاک کو بھی بھسم کر ڈالا گیا، مسیحی آبادیوں میں کتنے گھر لوٹے گئے اور کتنے جلائے گئے ان کی تفاصیل سوشل میڈیا پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ جونہی بلووں کی فضا بن رہی تھی اور مسجدوں میں اعلانات کے بعد لوگ اکٹھے ہونا شروع ہورہے تھے اس کی خبر مسیحی آبادیوں تک بھی پہنچ گئی، یوں مسیحی مرد و خواتین اپنی اور اپنے بال بچوں کی جانیں بچانے کے لیے فوری طور پر اپنے گھروں سے نکل بھاگے، جس کو جہاں پناہ ملی وہیں جا چھپا، کچھ نے تو مضافاتی کھیتوں اور فصلوں میں رات گزاری، یوں ان مظلوموں کی جانیں تو بچ گئیں البتہ گھر اُجڑ گئے۔ اس پر مسیحی خواتین کے بہتے ہوئے آنسو یہ واضح پیغام دے رہے تھے کہ بانی پاکستان نی قیام پاکستان کے وقت جو ہمارے بزرگوں سے عہد کیا تھا، اس کی پاسداری نہیں کی گئی۔ قائد اعظمؒ کے یہ الفاظ تاریخی اہمیت کے حامل ہیں جن میں انہوں نے کہا تھا: ’ آپ آزاد ہیں۔۔۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لئے، آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لئے یا کسی بھی اور عبادت گاہ میں جانے کے لئے، اس مملکت ِ پاکستان میں۔ آپ کا مذہب کیا ہے؟ ذات کیا ہے اس کا حکومت کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ اسے ہمیں اپنے آئیڈیل کے طور پر سامنے رکھنا چاہئے اور آپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے، مذہبی معنوں میں نہیں، کیونکہ یہ ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی معنوں میں کیونکہ وہ ایک ہی ریاست کے برابر کے شہری ہیں‘۔ ہندوستان میں جو سلوک اقلیتوں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے اس حوالے سے پاکستان ہمیشہ آواز بلند کرتا آیا ہے مگر جڑانوالہ میں ہونے والے اس دلخراش واقعے نے ہندوستان ایسے سفاک ذہنیت رکھنے والے بلوائیوں کو بھی موقع فراہم کیا ہے کہ وہ وطن عزیز پاکستان پر ایسے لفظی حملے کریں جن کا یقینا پاکستان مستحق نہیں۔ چند افراد کی انفرادی سوچ کسی صورت اسلام یا پاکستان کا موقف نہیں ہو سکتی۔ اقوام عالم کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستانی اپنی اقلیتی برادری سے کس قدر محبت کرتے ہیں۔ محبت کا یہ عالم ہے کہ ہم 14اگست کی خوشیاں بعد میں جبکہ اقلیت کے ساتھ محبت کا اظہار پہلے کرتے ہیں، اسی لئے 11اگست کو پاکستان میں اقلیتوں کا قومی دن منایا جاتا ہے۔ اس کا پہلی بار آغاز 2009ء میں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کیا تھا۔ جس کی مناسبت قائد اعظمؒ کی دستور ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر تھی جس میں انہوں نے اقلیتوں کے لیے مساوی شہری ہونے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اقلیتوں کے حقوق کے حوالی سے اسلام کا پیغام، قائد اعظمؒ کا فرمان اور پاکستان کا آئین واضح ہے۔ مگر اس واقعہ کو چند افراد کا ذاتی فیصلہ کہہ کر رد نہیں کیا جاسکتا۔ ریاست پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ اس غیر یقینی کیفیت کو ختم کیا جا سکے۔ بہرحال یہ بات خوش آئند ہے کہ جڑانوالہ کے اُجڑے مسیحیوں کی جلے گھروں کو واپسی شروع ہو گئی ہے اور علاقہ مکین ان کی مدد و معاونت میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں میں زیادہ تعداد باہر کے لوگوں کی تھی، جن میں کم عمر لڑکے بھی شامل تھے۔ علاقے کے مسلمانوں کے روکنے پر بھی شرپسند نہ رُکے، اس لئے متاثرین کو جان بچاکر بھاگنا پڑا۔ ریاست کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے متاثرین کی فوری مدد کرنا ہو گی۔ پاکستان سب کا ہے ، یہاں رہنے والے تمام باشندوں کو یہ یقین دہانی کروانا ریاست پاکستان کی اولین ذمہ داری ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button