Columnمحمد مبشر انوار

توہین اور قانون

محمد مبشر انوار( ریاض)

دین اسلام کے متعلق بالعموم غیر مسلم مورخ بزور تلوار پھیلایا گیا ہے، کے مقولے پر یقین رکھتے ہیں جبکہ مسلم زعماء اور اکابرین کا خیال ہے کہ اسلام کی ترویج کلیتا رضائے الٰہی کے بعد سرکار دو عالم رحمت اللعالمینؐ کی نرم دل شخصیت کے باعث پھیلی۔ سرور دو عالمؐ کی حیات طیبہ میں اسلام جزیرہ نما عرب کی سرحدوں سے باہر نکل رہا تھا لیکن اس کی بھرپور ترویج خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں ہوئی کہ لشکر اسلام مشرق و مغرب میں پھیلا۔ یہاں سب سے اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ زمانہ قدیم میں کہ جب طاقتور، فقط اپنی طاقت کے بل بوتے پر، ہوس اقتدار کے لئے کسی کمزور پڑوسی ریاست پر پل پڑتے تا کہ اپنے زیر تسلط رقبے میں اضافہ کر سکیں، مخالفین پر اپنا رعب و دبدبہ قائم رکھ سکیں۔ بنیادی طور پر ہوس اقتدار ہی جارحیت کا نظریہ تھا اور ریاستوں کے درمیان بالعموم امن معاہدے کسی ایک فریق کے ہتھیار ڈالنے پر ہی ممکن ہوتے، جو درحقیقت بھاری جرمانے و تاوان کی صورت ادا کئے جاتے، محکوم قوم کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا، اس میں انہیں کسی قسم کے حقوق حاصل نہ ہوتے، جو آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی صرف کتابوں کی حد تک محدود ہیں، عملا ان کا نام و نشان تک موجود نہیں۔ اس دوران سلطنت روم بظاہر عیسائیت کے ماننے والے تھے لیکن درحقیقت بائبل سے کوسوں دور اور اس میں تحریف کر چکے تھے، یوں وہ کسی آفاقی مذہب کے پیروکار قطعا نہیں تھے البتہ بائبل کے ماننے والے ضرور تھے۔ دوسری طرف اللہ رب العزت اپنے بندوں کی اصلاح کے لئے مسلسل اپنے پیغمبر و رسل اس کرہ ارض پر بھیجتا رہا کہ کسی بھی طور اس کی مخلوق، اس تخلیق کے اصل مقصد کو سمجھتے ہوئے، احکامات الٰہی کی پابند ہو کر دین و دنیا میں سرخرو ہو جائے لیکن بنی آدم کی سرشت میں ایسا ممکن نہیں لہذا یہ بھٹکتی رہتی ہے یا بھٹکائی جاتی رہتی ہے۔ تاہم اپنے آخری نبیؐ کو مبعوث کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے نہ صرف اسے اپنا محبوب قرار دیا بلکہ یہ ارشاد بھی فرما دیا کہ بنی آدمٌ کی اصلاح کے لئے مزید نبی مبعوث نہیں کئے جائیںگے، جب یہ آخری اعلان ہوا تو اس کے ساتھ ساتھ اپنے محبوب ؐ کو یہ حکم بھی صادر کر دیا کہ مشرکین کے ساتھ، اللہ کی رضا کی خاطر جنگ کرو، جہاد فی سبیل اللہ کا اہتمام بھی کرو لیکن اس قتال سے پہلے مشرکین کو دعوت اسلام دو۔ اگر وہ اسلام قبول کر لیں، تمہاری اطاعت کر لیں تو وہ تمہارے بھائی ہیں، ان کو دین سکھائو، ان کے حقوق ادا کرو، ان کے درمیان عدل و انصاف کا پیمانہ قائم کرو جبکہ نبی آخرالزماںؐ سے قبل کسی بھی پیغمبرٌ کو یہ ہدایت ؍ حکم نامہ نہیں ملا، انہیں صرف اور صرف حق کی دعوت اور تبلیغ کے احکام ہی ملے، جو وہ کماحقہ ادا کرتے رہے۔
قرآن سے قبل الہامی کتابوں میں تحریف ہو چکی تھی لیکن اللہ رب العزت چونکہ قادر مطلق ہے، اس لئے قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ کریم نے خود اٹھا رکھا ہے اور دشمنوں کی لاکھ کوششوں کے باوجود، وہ اس میں تحریف کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے۔ دشمن اپنے تئیں یہ کوششیں ضرور کرتے ہیں کہ کسی طرح اس کے ترجمہ و تفسیر میں ہیر پھیر کیا جائے، نومسلموں کو اس کی تشریح غلط کی جائے، اس کے الفاظ کو آگے پیچھے کیا جائے لیکن ان کی یہ ساری کوششیں بفضل تعالیٰ ناکام جاتی ہیں کہ قرآن کے حفاظ کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں اور اسی طرح اس کے سمجھنے ؍ سمجھانے والے موجود ہیں، جو ایسی کسی کوشش کو اولین مرحلے پر ہی ناکام کر دیتے ہیں۔ یہ قرآن ہی کی فضیلت ہے کہ جس نے اسلام سے قبل تمام ادوار کی تفصیل صراحت کے ساتھ بیان فرما دی ہے، روزمرہ زندگی کے بنیادی اصولوں کو کھول کر بیان کر دیا ہے تا کہ خلق اس سے مستفید ہو سکے اور معاشرے میں امن و امان کے ساتھ شرم و حیا بھی قائم رہے، ایک بہترین معاشرہ تشکیل پا سکے۔ علاوہ ازیں! سرکار دو عالمؐ سے قبل آنے والے تمام پیغمبران و رسل کے متعلق یہ ہدایت بھی کر دی گئی ہے کہ بطور مسلمان ہمارا ان پر ایمان ہے اور ان کی تکریم ہم پر فرض ہے کہ اس کے بغیر کوئی بھی کلمہ گو، سرکارؐ کا امتی دائرہ اسلام میں نہیں رہ سکتا، اسی طرح قرآن سے قبل اترنے والی الہامی کتب کی تکریم اور ان پر ایمان بھی بطور مسلمان ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ غیر مسلموں کے نزدیک، فلسفہ آزادی اظہار ایسا ہتھیار میسر ہے کہ جس کے باعث نہ تو وہ اپنے پیغمبر کی تکریم کرتے ہیں اور اسی آڑ میں وہ محمد مصطفیٰؐ کی شان اقدس میں گستاخی کا جواز بھی ڈھونڈتے ہیں، گو کہ ایسے بدنصیب چند ایک ہی ہیں لیکن ایسے کسی بھی شخص کی ایسی حرکت دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں کو رنجیدہ کرنے کا سبب بنتی ہے، جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی طرف سے کوئی ایک مجاہد سربکفن ہو کر، ناموس رسالت ؐ پر قربان ہو جاتا ہے۔ مجاہد کی اس شہادت کو غیر مسلم، دین اسلام سے جوڑنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں اور فی زمانہ جب ان کا زور ہے، ان کی بات تسلیم کی جاتی ہے، دنیا عمل، کا ردعمل دیکھنے کی بجائے، اسے بدتہذیبی یا دہشت گردی سے جوڑتی ہے۔
جب سے کائنات وجود میں آئی ہے، بعد از اسلام، ایسی مذموم کارروائیاں جاری ہیں اور ہر دور میں مسلمانوں کا ردعمل ایسا ہی رہا ہے کہ کسی بھی صورت نہ گستاخ نبی کو امان ملی ہے اور نہ ہی گستاخ قرآن کو چھوڑا گیا ہے۔ اس کے باوجود ایسے واقعات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اس کی وجہ کیا ہے اور اس کا سدباب کیا ہے؟ مغرب کی عینک سے دیکھا جائے تو اس کو عدم برداشت کہا جائے گا جبکہ بطور امتی یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور اس کی حفاظت ہم پر فرض ہے۔ دوسری اہم ترین وجہ مغرب کی نظر میں یہ بھی ہے کہ ہم کس برتے پر اس کی حفاظت کرنے کے دعویدار ہیں؟ کیا ہم کماحقہ احکامات الٰہی پر عمل پیرا ہیں؟ کیا واقعی ہماری زندگیاں قرآنی احکامات کے عین مطابق ہیں؟ اگر یہ دونوں چیزیں موجود نہیں، تو کیا صرف گستاخوں کی سرکوبی سے، ہماری ذمہ داری پوری ہو جاتی ہے یا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی زندگیاں احکامات الٰہی کے مطابق ڈھال کر سرخرو ہو سکیں ،اپنے کردار کی طاقت سے غیر مسلموں کو متاثر کریں اور طاقتور اتنے ہوں کہ کوئی بھی گستاخ ایسی حرکت کرنے سے قبل ہزار بار سوچے کہ اس کا انجام کیا ہو سکتاہے۔ افسوس صد افسوس! کہ ہمارے کردار اس قدر زوال پذیر ہیں، ہمارے لین دین اس قدر دھوکہ دہی میں ڈوبے ہیں، ہماری تجارت اتنی ملاوٹ زدہ ہے کہ دنیا ہم پر اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں، ہم جو قرآن کے داعی ہیں، اسے اوطاق میں سجا کر اونچی جگہ رکھ کر اس کی تکریم کا دعوی کرتے ہیں جبکہ اصل تکریم اس میں موجود احکامات کے مطابق عمل کرنے میں ہے، جس کو ہم بھلا بیٹھے ہیں۔ البتہ اگر کوئی شخص اس مقدس کتاب کو زمین پر رکھ دے تو ہماری غیرت جاگ جاتی ہے، کوئی اس کے اوراق کی بے حرمتی کرے، ہمیں طیش آ جاتا ہے اور ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ کسی جرم کی سزا، بااختیار عدالت کسی قانون کے تحت دینے کی مجاز ہے، لیکن ہم موقع پر ہی خود سائل، وکیل، گواہ اور منصف بن کر فیصلہ صادر کرنے پر تل جاتے ہیں۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک اسلامی ریاست میں ایک ذمی کے حقوق کیا ہیں؟ دو/تین فیصد اقلیت میں یہ جرات کیونکر ہوئی کہ وہ گستاخی کی مرتکب ہوئی؟ آیا واقعی جو حرکت کسی ایک اقلیتی شہری نے کی، وہ توہین بھی ہے یا نہیں، یا کسی نے دانستہ اپنے معاملات نپٹانے کی غرض سے کسی کو ملوث کر دیا ہے؟ بدقسمتی سے ایسے واقعات ہمارے معاشرے میں ہو چکے ہیں کہ جہاں ذاتی معاملات پر پردہ ڈالنے یا حساب برابر کرنے کی لئے ایسی گھناؤنی حرکتیں کی گئی ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزوری و نااہلی کے باعث ہجوم کو بغیر تفتیش فیصلے خود کرنے پڑے ہیں، جس کی اجازت کسی بھی ریاست میں قطعا نہیں دی جا سکتی۔ بدقسمتی دیکھئے کہ پہلے داغ ابھی دھلے نہیں کہ جڑانوالہ سے ایک اور ایسا ہی واقعہ رونما ہو چکا ہے، حیرت ان مومنوں پر ہے کہ جنہیں یہ تک علم نہیں کہ زید کی سزا بکر کو نہیں دی جا سکتی لیکن یہ مجاہدین نہ صرف ملزمان کے گھروں پر پل پڑے بلکہ انہوں نے عبادت گاہوں کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ خدارا ! سنی سنائی باتوں پر طیش میں آنے سے پہلے توہین کا تعین ہونے دیں، اداروں کو اپنا کام کرنے دیں، قانونی کارروائیوں کے تقاضے پورے ہونے دیں، تاکہ ہم اقوام عالم میں سرخرو ہو سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button