ColumnImtiaz Aasi

عمران خان کا مستقبل

امتیاز عاصی
اسلام آباد کی سیشن عدالت سے پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی سزا یابی اور الیکشن کمیشن سے پانچ سال کی نااہلی کے بعد تحریک انصاف سیاسی طور پر یتیم ہوگئی ہے۔ سانحہ نو مئی کے نتیجہ میں پی ٹی آئی کے حصے بخرے ہونے کا نہ ختم ہونے والے سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ عمران خان کے بہت کم ساتھی ایسے تھے جو حالات کی سنگینی کے باجود اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پی ٹی آئی زیادہ تر طالع آزماوں پر مشتمل تھی جنہوں نے حالات کے پلٹا کھاتے ہی عمران خان کا ساتھ چھوڑنے میں دیر نہیں کی۔ نواز شریف اور عمران خان کا موازانہ کریں تو میاں صاحب مشکل کی گھڑی میں ملک چھوڑ جاتے ہیں، عمران خان جس کے خلاف بشمول مقدمہ قتل اور دیگر مقدمات کی بھرمار ہے نے ملک نہیں چھوڑا۔ یہ فطری امر ہے کوئی عدالت ملزم کو سزا دیتی ہے تو کوئی نہ کوئی قانونی پہلو نظر انداز ہو جاتا ہے جس کا فائدہ ملزمان کو ہوتا ہے۔ قانونی طور پر عمران خان کے خلاف ریفرنس ایک سو بیس روز کے اندر بھیجا جا سکتا تھا جو تاخیر سے بھیجا گیا۔ فاضل جج نے اپنے فیصلے کے ہر صفحہ پر دستخط نہیں کئے حالانکہ انہیں فیصلے کے تمام صفحات پر دستخط کرنے چاہیے تھے۔ عدالتی فیصلے کا جائزہ لیا جائے تو procduralاور limitationکو نظر انداز کیا گیا ہے جس کا فائدہ عمران خان کو ہوگا۔ اصولی طور پر سابق وزیراعظم کو فیصلہ کے وقت عدالت میں موجود ہونا چاہیے تھا ملزمان کی مسلسل غیر حاضر ی کا فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہوتا ہے۔ فاضل جج نے عمران خان کو 512کارروائی کرتے ہوئے ان کی عدم موجودگی میں سزا سنائی ہے جو قانون کے مطابق ہے۔ نواز شریف اور خان دونوں نے اپنی غلطیوں کی سزا پائی ہے ۔ عمران خان کے خلاف فیصلہ کرنے میں عجلت سے کام لیا گیا تاہم یہ تاثر درست نہیں عدالت نے کسی دبائو میں آکر عمران خان کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔ سیاست دانوں کا دعویٰ ہے انہوں نے بڑی جدوجہد کے بعد مشرف دور میں عدلیہ کو آزادی دلائی ہے۔ عدلیہ کی آزادی کی واضح مثال چیف جسٹس جناب عمر عطاء بندیال کا ضمنی الیکشن بارے فیصلہ تھا۔ یہ علیحدہ بات ہے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد نہیں ہوسکا مگر چیف جسٹس کا الیکشن بارے فیصلہ عدلیہ کی آزادی کی واضح دلیل ہے۔ جہاں تک عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی بات ہے اس حقیقت سے انکار نہیں اثاثوں کو پورا ظاہر کرنا عمران خان کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری تھی جسے وہ پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ عدالت نے انہیں تین سال اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی ہے جس کی معطلی کے لئے وہ اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کر سکتے ہیں۔ اس ناچیز کے خیال میں سزا کی معطلی کے باوجود عمران خان کو دوبارہ کسی نہ کسی مقدمہ میں گرفتار کرنے کا قوی امکان ہے۔ سیاسی حلقوں میں یہ بات زد و عام جناب عمر عطاء بندیال کی ستمبر میں ریٹائرمنٹ کے بعد اعلیٰ عدلیہ کے حالات میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور آئے گی۔ عمران خان کے سیاسی مخالفین عدالتوں سے اسے ریلیف ملنے پر معترض ہیں۔ ان کی امیدیں نامزد چیف جسٹس جناب فائز عیسیٰ سے وابستہ ہیں۔ عمران خان کے خلاف دیگر مقدمات کو طوالت دینے کا ایک مقصد یہ ہو سکتا ہے اعلیٰ عدلیہ میں تبدیلوں سے سابق وزیراعظم کو ریلیف ملنے کے امکانات کم ہو جائیں گے۔ اہم بات یہ ہے ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کی سطح پر مقدمات میں شہادتوں کا بڑی گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد اپیلوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے ماتحت عدالتوں کے فیصلے اسی لئے اعلیٰ عدالتوں میں کالعدم ہو جاتے ہیں۔ تعجب ہے بعض حلقے جیل میں عمران خان کو بی کلاس دینے پر معترض ہیں۔ نگران دور میں نیب مقدمات میں ملوث ملزمان کی بی کلاس کی سہولت ختم کر دی گئی تھی شہباز شریف نے اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں احتساب عدالتوں سے سزا یاب ہونے والے ملزمان کی بی کلاس کی سہولت بحال کر دی تھی جس کے بعد نیب مقدمات میں سزا ہونے والوں کو بی کلاس کی سہولت میسر ہے۔ سابق وزیراعظم کی حیثیت سے عمران خان بی کلاس کے مستحق ہیں۔بعض اوقات بی کلاس میں قیدیوں کے رش کے باعث نیب کیسوں میں سزا یاب ملزمان کو حفاظتی سیلوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے جیسا کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو بی کلاس کی بجائے سزائے موت کے سرکل نمبر چار میں ایک خصوصی سیل دے دیا گیا تھا جہاں انہیں جیل مینوئل کے مطابق بی کلاس کی تمام سہولیتں میسر تھیں۔ ضلعی جیلوں میں بی کلاس شاذ و ناظر ہوتی ہے کوئی وی آئی پی قیدی آجائے تو اسے حفاظتی سیل میں رکھا جاتا ہے۔ جیل مینوئل کے مطابق وہ سنٹرل جیل راولپنڈی میں رہنے کا حقدار ہے کیونکہ مقدمہ کا تعلق وفاقی دارالحکومت سے ہے ۔ جیل مینوئل ملزمان اور قیدیوں کو ہوم ڈسٹرکٹ کی کسی قریبی جیل میں رکھنے کا کہتا ہے۔ سینٹرل جیل اڈیالہ کی بی کلاس ایک طرح کا وی آئی پی گیسٹ ہائوس ہے شائد اسی لئے سابق وزیراعظم کو اٹک کی ضلعی جیل میں رکھا گیا ہے تاکہ اسے مروجہ سہولتوں سے محروم رکھا جا سکے۔ سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواب زادہ نصراللہ خان، خان عبدالولی خان، سردار عطاء اللہ مینگل اور شیخ مجیب الرحمان جیسے سیاست دان جیلوں میں رہ کر سیاسی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے لہذا عمران خان کو بھی حوصلہ مندی سے اسیری کے دن گزارنے چاہئیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے سانحہ نو مئی میں گرفتار ہونے والے پی ٹی آئی ورکرز اپنی جماعت کی طرف سے کسی قسم کی قانونی امداد سے محرومی سے دل برداشتہ ہیں۔ عمر ان خان کی گرفتاری کے بعد جس طرح کے ردعمل کی امید تھی اس طرح عوام سڑکوں پر نہیں نکلے ہیں۔ قیادت کے فقدان نے پی ٹی آئی ورکرز کے حوصلے پشت کر دیئے ہیں۔ سانحہ نو مئی کے بعد پی ٹی آئی رہنمائوں کے خلاف مقدمات اور پریس کانفرنسوں سے پی ٹی آئی ورکرز دل برداشتہ ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے پی ٹی آئی کے ساتھ عوام کی بڑی تعداد ہے تاہم طاقت ور حلقوں کی حمایت کے بغیر عمران خان کا سیاسی مستقل تاریک دکھائی دے رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button