ColumnQaisar Abbas

قاضی عیسیٰ اور متعصب مورخ

قیصر عباس صابر
جب مورخ تعصب کی روشنائی سے لکھی جانے والی تاریخ کو معتبر بنانے کی کوشش کرتا ہے تو وقت فراموش کر دئیے گئے کرداروں میں پھر سے ایسی روح پھونک دیتا ہے جو اس کے ماضی کی شہادت بھی ہوتی ہے اور ناقابل تردید سچائی بھی۔ تحریک پاکستان کا ایک ایسا ہی کردار قاضی عیسیٰ تھے جن کی خدمات کو قائد اعظمؒ نے تو اپنا بھائی کہہ کر تسلیم کر لیا مگر اس وقت کی اشرافیہ انہیں نظرانداز کرتی رہی ۔ قاضی عیسیٰ بلوچستان کے پہلے شخص تھے جو قانون کی تعلیم کے لیے لندن گئے۔1939ء میں وطن واپس آئے اور وکالت کا ارادہ کیا۔ اس وقت نواب آف ریاست پالنپور کی درخواست پر ممبئی چلے گئے۔ جہاں ان کی ملاقات محمد علی جناحؒ سے ہوئی۔ قائد اعظم نے ان سے پہلا سوال یہ کیا۔ ’’ کیا بلوچستان میں مسلم لیگ قائم ہے‘‘ ؟ قاضی صاحب نے جواب دیا کہ ’’ میں ابھی وکالت ختم کر کے آیا ہوں مجھے خبر نہیں۔‘‘
پھر قائدؒ نے انھیں مسلم لیگ کے مقاصد سے آگاہ کیا وہ قائدؒ کی باتوں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اسی وقت مسلم لیگ کے قیام کے لیے مصمم ارادہ کر لیا۔ بلوچستان میں واپس آکر انہوں نے مسلم لیگ کی داغ بیل ڈالی اور اپنے ساتھیوں سے مل کر اس پارٹی کو اس قدر استحکام بخشا کہ چند مہینوں کے اندر تحصیل اور ضلع کی سطح پر مسلم لیگ منظم ہو گئی۔ وہ مسلم لیگ کے سب سے کم عمر رکن مجلس عاملہ تھے۔1942ء میں انہوں نے بلوچستان میں مسلم لیگ کا ایک عظیم جلسہ منعقد کرایا جس میں ان کی دعوت پر نواب لیاقت علی خان بھی تشریف لائے۔ 1943ء میں قائد اعظمؒ دو ماہ کے لیے بلوچستان آئے تو ان کے گھر پر قیام کیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکرٹری نشرواشاعت اور برازیل میں پاکستان کے پہلے سفیر مقرر ہوئے ۔
معلوم نہیں کون سا تعصب تھا جو ایک طویل عرصہ تک قاضی عیسیٰ کے نام کو فراموش کرنے پر تلا رہا اور پھر آخر کار فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت اور فیصلے کے بعد ظاہر ہوا ۔ متعصب مورخین کو اس وقت منہ کی کھانا پڑی جب مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دلیرانہ فیصلے پر تنقید کرنے والوں نے محسن تحریک پاکستان اور قائد اعظم کے سچے ساتھی کا تعارف عام کرتے ہوئے ان پر بھی تنقید شروع کر دی ۔ عام آدمی نے جب مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے والد محترم قاضی عیسیٰ مرحوم کی خدمات کا مطالعہ کیا تو سازشی عناصر کی طرف سے چلائی جانے والی چال انہی کے خلاف چل گئی اور قاضی عیسیٰ تحریک پاکستان کے سرگرم اور بہادر کارکن کے طور پر سامنے آئے ۔ قاضی عیسیٰ نے قائد اعظمؒ کی خواہش پر بلوچستان میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور مسٹر جناح سے سیاسی رموز سیکھے تھے ۔ تحریک پاکستان کے ایک مخلص رہنما کے فرزند مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے والد صاحب کی اصول پرستی اور قانون پسندی کی لاج رکھی اور بلا خوف تنقید وہ فیصلے کر دئیے جس کی توقع بھی ان سے کی جا رہی تھی ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 110صفحات پر مشتمل ایک ایسی رپورٹ لکھی جس نے تاریخ کا رخ موڑ کر رکھ دیا ۔ وہ ایک رکنی تحقیقاتی کمیشن کے ممبر کی حیثیت سے تحقیقات کر رہے تھے ۔ وہ کمیشن 2014ء میں سپریم کورٹ کے حکم پر قائم کیا گیا تھا مگر اس تحقیقاتی رپورٹ نے سپریم کورٹ کی توقعات اور ترجیحات کو بالائے طاق رکھا اور صرف میرٹ کو ترجیح دی۔ ایک رکنی عدالتی تحقیقاتی کمیشن جس کی سربراہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کر رہے تھے وہ کوئٹہ ہائی کورٹ میں ہونے والے بم دھماکے کے محرکات جاننے کے لئے قائم کیا گیا تھا ۔ دہشت گردی کے اس واقعہ میں تین سو سے زائد افراد شہید ہوئے تھے ۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ دہشت گردی کے واقعے کے پیچھے محرکات و اسباب کیا تھے۔ حکومت، افواج اور پولیس کی غفلت اور ریاست کا شہریوں کے تحفظ بارے دوہرا معیار بھی بے نقاب کیا گیا تھا۔ تحقیقاتی رپورٹ واضح طور پر ایف سی ( فرنٹیئر کانسٹیبلری) اور وزارت داخلہ کے مشکوک کردار پر بھی سوال اٹھا رہی تھی۔ انٹیلی جنس معلومات ہونے کے باوجود ادارے کس طرح دہشت گردی کا منصوبہ روکنے میں ناکام رہے تھے اس بات کا بھی رپورٹ میں ذکر تھا۔ رپورٹ میں ایف سی، پولیس اور دیگر حساس اداروں کے مابین ناقص کمانڈ اینڈ کنٹرول اور موثر کمیونیکیشن کی کمی جیسی بنیادی ادارہ جاتی خامیوں کو سامنے لایا گیا تھا ۔ جسٹس فائز عیسیٰ کا ایک اور اہم فیصلہ 2017ء کے فیض آباد دھرنا کیس کے ازخود نوٹس کا تفصیلی فیصلہ ہے۔ اس فیصلے میں انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر قومی سلامتی کے اداروں کے دھرنے کے پیچھے ہونے کا بھانڈا پھوڑا تھا۔ انہوں نے فیصلے میں دوٹوک موقف میں مختلف سوالات اٹھائے تھے مثلاً یہ کہ دھرنے کے شرکا کو ریاستی اداروں نے معاونت کیوں فراہم کی تھی اور انہیں منفی سرگرمیوں کے لئے مالی امداد بھی دی گئی تھی۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ جب حکومت نے پولیس کو دھرنا اٹھانے کا حکم دیا تھا تو پھر پولیس نے کس کے کہنے پر حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ شرکا کو کھانا کس نے فراہم کیا اکسانے کا کردار کس نے ادا کیا اور سوشل میڈیا و الیکٹرانک میڈیا پر کس کے ایما پر نفرت انگیز مہم چلائی گئی۔ ان سب سوالات کے مدلل جوابات فیصلے میں ثبوتوں کے ساتھ موجود ہیں۔ ہماری تاریخ شاہد ہے کہ انصاف کے اصولوں پر مبنی جرات مندانہ اور عوامی مفاد میں کیے گئے عدالتی فیصلوں کی ہمارے ہاں کوئی روایت موجود نہیں ہے۔ ایسا دو ٹوک فیصلہ قاضی عیسیٰ جیسے مدبر قانون دان کا فرزند ہی کر سکتا تھا ۔ مگر پھر ایسے لوگوں کے لئے مشکلات کھڑی کرنا بھی تیسری دنیا کے ممالک کی روایات میں شامل ہے۔ پھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو گھٹیا ترین الزامات کی لپیٹ میں لے کر ان کا حوصلہ پست کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ان کی اہلیہ مسز سرینہ قاضی اور ان کے والد قاضی عیسیٰ کو بھی معاف نہیں کیا گیا۔ ایک طویل عرصے تک ملک کی بڑی عدالت کے سینئر ترین جج کو اسی عدالت میں تاریخ پر تاریخ ملتی رہی۔ تحریک پاکستان کے رہنما کو بھی برا بھلا کہا گیا۔ ریفرنس فائل کئے گئے مگر وقت نے ثابت کیا کہ بڑے باپ کا بیٹا بھی حوصلہ مند ہوتا ہے۔ لوگوں نے دیکھا جب عمران خان نے مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کئے گئے ریفرنس کو اپنی غلطی تسلیم کیا اور معافی مانگی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button