Columnمحمد مبشر انوار

ایک اور ڈھلتا سورج!!!

محمد مبشر انوار( ریاض)
بطور مسلمان اور کلمہ گو ہمارا یہ عقیدہ و ایمان ہے کہ غیب کا علم صرف اور صرف اللہ رب العزت کی ذات جانتی ہے تاہم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے کہ کئی ایک ایسے علوم موجود ہیں، جو بہرطور مستقبل کے حوالے سے کچھ اشارے دیتے ہیں۔ ان علوم کے ماہرین کے نزدیک بھی ،ان کا علم حتمی نہیں کہ ان علوم کی بنیاد بھی بہرکیف کائنات میں متحرک و فعال ستارے و سیاروں کی حرکت کی محتاج ہے۔ ان علوم کے ماہرین ان ستاروں یا سیاروں کی موجودہ جگہ کے حوالے سے کچھ پیش گوئیاں ضرور کرتے ہیں لیکن یہ ستارے و سیارے بہرحال مسلسل متحرک رہتے ہوئے اپنی جگہ تبدیل کرتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے کسی بھی ماہر کے لئے مستقبل کی حتمی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں۔ ایسے علوم کے ماہرین پوری دنیا میں موجود ہیں اور ان پر دسترس رکھنے والے یہ ماہرین ، غیر مسلم بھی ہیں اور مسلمان بھی، اس کے باوجود ماہرین کی اکثریت اس حقیقت کی قائل ہے کہ ان ستاروں یا سیاروں کی چال پر کی گئی پیش گوئی، وقتی ہوتی ہے۔ جبکہ غیب کا حقیقی و حتمی علم فقط اللہ رب العزت کی ذات کو ہے اور یہ ماہرین انتہائی محتاط انداز میں کسی بھی شخصیت کے متعلق، اپنے علم کی بنیاد پر پیش گوئی کرتے ہیں۔ بالعموم ضعیف الاعتقاد لوگ یا خواہشات کے تابع لوگ ان ماہرین کے پاس ضرور جاتے ہیں اور ان ماہرین کی پیش گوئی کے مطابق ہی اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بسا اوقات کئی لوگ فقط ایک بار یا چند بار ایسے ماہرین سے رجوع کرتے ہوئے، اپنی پوری زندگی کا لائحہ عمل مرتب کر لیتے ہیں اور بعد ازاں نقصان یا خسارے کی صورت ان ماہرین کو کوستے نظر آتے ہیں۔ موجودہ کمرشلزم دور میں، ان علوم کے ماہرین کی اکثریت اپنی مہارت کی بنیاد پر میڈیا پر بھی نظر آتی ہیں اور اہم شخصیات کے حوالے سے اپنے علم کی روشنی میں پیش گوئیاں کرتی نظر آتی ہیں۔ علاوہ ازیں! تصوف و روحانی دنیا کا دستور الگ نظر آتا ہے اور اس میں روحانیت کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے اور ایسی شخصیات اپنی روحانی قابلیت و اہلیت کی بنیاد پر ایسے دعوے و پیش گوئیاں کرتی نظر آتی ہیں، ان میں کئی ایک کی پیش گوئیاں پوری ہوتی بھی نظر آتی ہیں۔
روحانی حوالے سے پیر پنجر سرکار کی، عمران خان کے حوالے سے، بہت سی پیش گوئیاں معروف ہیں کہ عمران خان کے دور حکومت کی سب سے پہلی پیش گوئی پیر پنجر سرکار کی طرف سے منظر عام پر آئی، جب عمران خان کی سیاسی زندگی کا آغاز ہوا تھا۔ تب کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی اور نہ ہی کوئی سیاسی طالبعلم اس دعوے سے متاثر نظر آتا تھا لیکن پیر پنجر سرکار پورے تیقن کے ساتھ نہ صرف عمران خان کی حکومت کا دعوی کرتے رہے بلکہ عمران خان کو ملک کا مسیحا تسلیم کرتے نظر آئے۔ تاہم پیر پنجر سرکار کی پیش گوئی اس حد تک تو پوری ہوئی کہ عمران خان کی حکومت وجود میں آئے گی لیکن اس کے مسیحا ہونے کے متعلق، ان کی پیش گوئی پوری نہیں ہو سکی البتہ پیر پنجر سرکار آج بھی ابنی پیرانہ سالی کے باوجود عمران خان کو دوبارہ برسراقتدار دیکھتے ہیں، اور ان کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کی کارکردگی اسلامی صدارتی نظام میں سامنے آئے گی۔ دیکھتے ہیں کہ ان کی یہ پیش گوئی پوری ہوتی ہے یا نہیں کہ ان کا اعتماد ابھی بھی عمران خان پر ہے اور اس کی حکومت کے لئے وہ مسلسل اپنے چلوں /روحانی عمل میں مصروف بھی نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف ستاروں یا سیاروں ، علم الاعداد یا علم جعفر کے ماہرین بھی مسلسل پاکستان کی موجودہ سیاسی حالات/بحران پر اپنی پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔
راحیلہ احمد بڑی تیزی کے ساتھ بطور آسٹرولوجسٹ کے منظر عام پر آئی ہیں اور ان کے مطابق عمران خان کو پابند سلاسل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی وہ ہتھکڑی بنی ہے جو عمران کی کلائیوں کو جکڑ سکے اور نہ وہ حوالات کہ جہاں عمران کو بند کیا جا سکے۔ راحیلہ احمد کی پیش گوئی کا جزوی حصہ تو غلط ثابت ہو گیا ہے لیکن وہی بات کہ ستاروں یا سیاروں کی چال سے متعلق یہ ماہرین بھی، منتظر رہتے ہیں تا کہ اس کی روشنی میں اپنی پیش گوئی کر سکیں۔ اسی طرح کئی اور ماہرین ہیں کہ جن میں ایم اے شہزاد بھی اسی سوچ کے حامی رہے ہیں لیکن عمران خان کے حوالے سے ان کا دعوی بھی جزوی طور پر غلط ثابت ہو چکا ہے۔ دوسری طرف ان ماہرین کے مطابق یہ حقیقت بھی سامنے آ رہی ہے کہ ان تمام حربوں کے باوجود عمران خان کی مقبولیت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے، الگ بات کہ اس وقت جو بھی عمران خان کی حمایت کرتا ہے، اسے سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دو دن پہلے ہی، دو گراس روٹ کے چھوٹے انتخابات میں، عوام نے اپنی سوچ کا واضح اظہار کر دیا ہے اور دو جگہوں حویلیاں اور متھرا میں تحریک انصاف کو واضح اکثریت کے ساتھ کامیاب کروا دیا ہے۔ سیاستدانوں کے لئے سیاسی میدان ہی ان کے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے اور کسی بھی سیاستدان کو غیر طبعی طریقے سے عوام کے دلوں سے نہیں نکالا جا سکتا،جبرا کسی کو بھی سیاسی قائد بنا کر مسلط تو کیا جا سکتا ہے لیکن کسی عوامی رہنما کو عوام کے دلوں سے زبردستی نہیں نکالا جا سکتا، یہ ایک مسلمہ اصول ہے۔ ماضی میں بھی پاکستان کے دو اہم سیاسی رہنمائوں کو قابو کرنے کی کوششیں کی گئی، جس کے نتیجہ میں اولا پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوا اور بعد ازاں دوسرے عوامی قائد کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا لیکن اس سے محبت کرنے والوں نے چار دہائیوں تک اس محبت کا قرض چکایا۔ تاآنکہ ایک نئی سیاسی کھیپ کو تیار کرکے اس ملک پر مسلط نہیں کیا گیا، پیپلز پارٹی کی وفاقی حیثیت کو مسلسل کمزور کیا گیا حتی کہ بے نظیر کی شہادت کے بعد، زرداری کی بھیانک غلطی نے پیپلز پارٹی کو پنجاب میں تقریبا ختم کر دیا۔ ترازو کے پلڑوں کی برابر ی کے خواہشمند یہ بھول رہے ہیں کہ عمران خان کی اسیری کا موجودہ فیصلہ سیشن کورٹ کا ہے، جو کسی بھی صورت آخری عدالت نہیں ہے اور نہ ہی اس کا فیصلہ حتمی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس فیصلے میں بھی بے شمار قانونی سقم موجود ہیں اور اگر عدالتیں واقعتا قانونی اعتبار سے اس فیصلے کی اپیل سنتی ہیں تو ماہرین قانون کے مطابق یہ ممکن ہی نہیں کہ عمران خان کو کم از کم ضمانت نہ مل سکے۔ سیاسی میدان میں اجارہ داروں کی ہر ممکن یہ کوشش ہے کہ عمران خان کو سیاسی میدان سے ہر صورت باہر کیا جائے جبکہ دوسری طرف کل تک خصوصی علوم کے ماہرین میں سے چند ایک یہ پیش گوئیاں کرتے رہے ہیں کہ عمران خان کا سورج ڈوب چکا ہے لیکن موجودہ صورتحال میں انہوں نے اپنی رائے سے رجوع کر لیا ہے اور ان کے مطابق ستاروں کی حرکت اب عمران خان کے موافق ہو چکی ہے۔ جس کا عملی اظہار حالیہ انتخابات حویلیاں و متھرا میں عمران کی جیت سے ہوا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ، یہ کامیابی بذات خود عام انتخابات کے لئے بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے کہ ایسے نتائج ’’ حکمرانوں ‘‘ کو کسی صورت قبول نہیں اور ممکنہ طور پر عام انتخابات کو موخر کیا جا سکتا ہے۔
عمران خان تاریخ میں بلا شبہ پاکستانی سیاسی افق کا تابناک سورج کہلائے گا، ایک ایسا سورج، جس کی تیز روشنی میں کئی سیاسی گھاگ رہنمائوں کی آنکھیں چندھیا چکی ہیں اور وہ اس کا مقابلہ سیاسی میدان میں کرنے کی تاب نہیں رکھتے۔ بالعموم ایسے سورج پاکستانیوں کے نصیب میں رہنے نہیں دئیے جاتے کہ ان کی موجودگی میں بہت سے دوسرے دئیے اپنی لو گنوا دیتے ہیں۔ لہذا ایسا جو دوسروں کی روشنی کو گہنا دے، اسے پاکستان میں طلوع ہونے کا کوئی حق نہیں کہ یہی پاکستان کی سیاسی تاریخ ہے وگرنہ رجیم چینج آپریشن ہی کامیاب نہ ہوتا اور نہ اس پر یوں اندھا دھند مقدمات بنتے اور نہ سیشن کورٹ میں اس کے خلاف ایسا فیصلہ آتا کہ جس میں نہ اسے حق دفاع دیا جائے اور نہ اس کے گواہوں کو پیش ہونے کے لئے مناسب وقت دیا جائے۔ آخر میں ایک اور معروف آسٹرالوجر سامعہ خان کے الفاظ کانوں میں گونجتے نظر آتے ہیں وہ کہتی ہیں کہ انہیں افسوس ہے کہ وہ ایک ہیرو کو گمنامی میں جاتا دیکھ رہی ہیں، بہرکیف اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا جس کا اختیار اللہ کے ہاتھ ہے تاہم سامعہ خان کے بقول پاکستان میں عمران خان ایک اور ڈھلتا ہوا سورج ہے!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button