ColumnImtiaz Ahmad Shad

عظمت قرآن

عظمت قرآن

امتیاز احمد شاد
یہ چند ایک افراد اور ناتواں گروہ تو معمولی سی چیز ہے اگر دنیا بھر کے جابر، اہل اقتدار، سیاستداں، ظالم، منحرف، اہل فکر اور جنگ آزما جمع ہو جائیں اور اس کے نور کو بجھا نا چاہیں تو وہ بھی ایسا نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ قرآن پاک کی حفاظت کا ذمہ خدا نے اپنے اوپر لے رکھا ہے۔ کفار نے بہت بہانہ سازیاں کیں۔ یہاں تک کہ پیغمبر اور قرآن کے بارے میں استہزا کیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب حضرت محمد مصطفیؐ کو تسلی دی اور فرمایا کہ’’ ہم یقینی طور پر اس کی حفاظت کریں گے ‘‘۔ ایسا نہیں کہ یہ قرآن کسی یار و مددگار کے بغیر ہے اور وہ اس کے آفتابِ وجود کو کیچڑ سے چھپا دیں گے یا اس کے نور کو پھونکوں سے بجھا دیں گے یہ تو وہ چراغ ہے جسے حق تعالیٰ نے روشن کیا ہے اور یہ وہ آفتاب ہے جس کے لئے غروب ہونا نہیں ہے۔ جب کوئی شخص مد مقابل فریق کو کسی بھی طرح مات دینے سے قاصر ہو جائے اور بغض و کینہ میں تمام حدیں پار کر جائے تو وہ مخالف کی پیاری اور محبوب چیز پر حملہ کرتا ہے۔ اس کا مقصد اپنے مخالف کو دلی رنج پہنچانا ہوتا ہے۔ اہل کفر جب ہر طرح سے اہل ایمان کو مات دینے سے عاجز رہتے ہیں تو وہ اہل ایمان کی سب سے محبوب ہستی نبی اکرمؐ اور قرآن مجید کے بے حرمتی کرنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ اہل ایمان کو تڑپتا دیکھ کر انہیں تسکین مل سکے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بد بخت کبھی شان مصطفی ٔ میں گستاخیاں کرتے ہیں تو کبھی قرآن مجید کی بے حرمتی۔ ان بد بختوں کو شاید معلوم ہی نہیں کہ قرآن مجید وہ واحد کتاب ہے جو مرتب ومنظم زندہ و جاوید صحیفہ کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری کے باوجود مسلمانوں نے اس کی حفاظت کی ضرورت سے آنکھیں بند نہیں کیں۔ قرآن کے نزول کے ساتھ ہی اس کی کتابت کا اہتمام کیا گیا۔ اس کی ترتیب بھی وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی تھی۔ لیکن مستشرقین نے قرآن کو اپنی کتابوں کے برابر لانے کے لئے قرآن کے متن کے غیر معتبر ہونے کے نقطہ نگاہ کو ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور صرف کیا ہے۔ جہاں مستشرقین نے اپنے خاص اہداف اور اغراض و مقاصد کو مد نظر رکھ کر قرآن، حدیث اور سیرت النبیؐ کے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا تو مستشرقین کی غلط فہمیوں، بدگمانیوں اور انکے شکوک و شبہات کے ردّ میں علماء اسلام نے بھی ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں۔ چونکہ ان بدبختوں کا فقط مقصد بغض اسلام ہے تاہم جب وہ ردوبدل میں ناکام ہوتے ہیں تب وہ طرح طرح سے قرآن مجید کی بے حرمتی کر کے اپنے دل کو تسکین پہنچانے کی بھونڈی کوشش کرتے ہیں۔ یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ سویڈن میں پولیس کی زیرِ نگرانی قرآن کریم کو نذرِ آتش کرنے کا توہین آمیز اور افسوسناک واقعہ پیش آیا اس پر نا صرف پاکستان بلکہ امتِ مسلمہ کا دل رنجیدہ ہے۔ پوری دنیا کے مسلمانوں نے اس توہین آمیز رویے کے خلاف ہر سطح پر مذمت بھی کی اور احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔ پاکستان میں اس حوالے سے نا صرف سفارتی سطح پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا بلکہ وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے 7جولائی کو یومِ تقدسِ قرآن منانے کا فیصلہ بھی کیا گیا جس پر پوری قوم نے ان کی اس پکار پر لبیک کہا اور پر امن طور پر اس دن کو منا کر بتا دیا کہ مسلمان اور پاکستانی پر امن لوگ ہیں اور وزیراعظم کا اس دن کو منانے کا اقدام ایک احسن فیصلہ تھا اور ایک مہذب قوم کی نشاندہی کرتا ہوا پیغام ہے۔ دوسری جانب دنیا پاکستان کو اور مسلمانوں کو تو دہشت گردی کا طعنہ دیتی ہے لیکن سب سے بڑی دہشت گردی تو یہ ہے جس پر عالمی دنیا کی آنکھیں کھلنی چاہیے کہ مذہب اسلام کی مقدس ترین کتاب کو جلا دیا گیا لیکن اس کے باوجود ان جلانے والوں کو دہشت گرد قرار نہیں دیا جا رہا اور انھیں ریاستی پشت پناہی فراہم کی جارہی ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کو حکمرانوں کو اور طاقتور حلقوں کو چاہیے کہ ایک تو وہ اس عالمی دہشت گردی کے خلاف یک آواز ہوں تا کہ دنیا کو پیغام جائے کہ مسلمان اپنے مذہب کی حفاظت اور اس کی حرمت کے لیے ایک ہیں۔ اگرچہ سویڈش حکومت نے اس عمل سے خود کو بطور حکومت الگ کر لیا ہے لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ سویڈن کی عدالت میں قران پاک جلانے کی درخواست دائر ہوتی ہے اور سویڈن کی عدالت نہ صرف قران پاک جلانے کی اجازت دیتی ہے بلکہ پولیس کو اس ناپاک عمل کے دوران ذلیل شخص کی حفاظت کی ذمہ داری کا فریضہ انجام دینے کے احکام بھی جاری کرتی ہے۔ اب یہ پوری امت مسلمہ کا فرض ہے کہ وہ اس واقعے پر سویڈن حکومت سے احتجاج بھی کرے اور اس طرح کے واقعات کی مستقبل میں نہ ہونے کی یقین دہانی لے کیونکہ یہ صرف پاکستان کے اکیلے کا مسئلہ نہیں، یہ پوری امت مسلمہ کے لیے مقدس ترین آسمانی کتاب کی حرمت کی بات ہے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ مسلمان منقسم ہیں اور ان کی اس تقسیم سے وہ ملعون فائدہ اٹھا کر بار بار ایسی گستاخیاں کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر امت کو ایک ہونے کی ضرورت ہے لیکن یہاں بھی کچھ لوگ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے سے بعض نہیں آ رہے ہیں۔ احتجاج کرنے کے مختلف طریقے ہیں جو کام حکومتوں کے کرنے کے ہیں وہ حکومتی سطح پر انہیں کرنے چاہئے ۔ بطور عام مسلمان ہمارا فرض ہے کہ قران پاک کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کریں، پر امن طور پر گھروں سے نکلیں، مسجدوں میں رہ کر اور لوگوں کو بتائیں کہ مسلمان قران کی حرمت کرنے سے چوکے نہیں ہیں اور نہ ہی قران کو اس طرح ان کے سینوں سے نکالا جا سکتا ہے۔ منظم تنظیموں اور جماعتوں کو عظمت قرآن کے حوالے سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر سیمینار منعقد کرنے چاہئے۔ ہر وہ میڈیم جو میسر ہو اس پر عظمت قرآن اور سیر ت نبوی ٔ کے حوالے سے آگاہی مہم تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیں اگر صاحب اقتدار و اختیار اہل ایمان کی اس تکلیف اور درد کی آواز بنیں گے تو عام مسلمان کے دل میں ان کے لئے عزت و احترام بڑھے گا۔ سورۃ یونس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’ اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لیے شفا ہے اور رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لیے۔ ( آپؐ) کہہ دیجیے کہ بس لوگوں کو اللہ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہیے۔ وہ اس سے بدرجہا بہتر ہے جس کو وہ جمع کر رہے ہیں‘‘۔ یہ قرآن تمہارے ربّ کی طرف سے نصیحت ہے، جس سے دل نرم ہو جائیں گے۔ جب دل نرم ہو جائیں گے تو یہ قرآن ان میں جذب ہو جائے گا، اس طرح ساری باطنی بیماریوں کا علاج ہو جائے گا۔ جان لو کہ جو کچھ تم دنیا میں جمع کرتے ہو ان سب چیزوں سے کہیں بڑھ کر قیمتی چیز یہ قرآن ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button