Columnمحمد مبشر انوار

بے بسی !!!

بے بسی !!!

محمد مبشر انوار( ریاض)
فلم انڈسٹری میں یوں تو اینگری ینگ مین کا کردار ہمیشہ ہی مقبول رہا ہے کہ یہ وہ کردار ہے جو معاشرے میں پائے جانے والے ظلم کیخلاف اور مظلوم کے حق میں کھڑا نظر آتا ہے جبکہ مظلوم کا کردار بذات خود ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کی بنیاد پر ہی اینگری ینگ مین کا کردار منحصر ہے۔ غالباً بھارتی فلم سلاخیں تھی کہ جس میں وقوعہ کے عینی شاہد کے طور پر انوپم کھیر نے اپنی فنی زندگی کا ایک لازوال کردار ادا کیا تھا، ایک مظلوم کی حیثیت سے انوپم کھیر نے اپنے کردار سے جو انصاف کیا، اس کی ستائش کیلئے الفاظ کم پڑتے ہیں۔ طاقتوروں کیخلاف اپنی اخلاقی ذمہ داری تصور کرتے ہوئے انوپم کھیر نے جس طرح ثابت قدمی کے ساتھ ساتھ سچائی پر قائم رہنے کا مظاہرہ کیا، وہ کسی بھی قانون پسند شہری کیلئے ایک مثال ہے، دوسری طرف طاقتوروں کو بچانے کیلئے، فرسودہ، بکائو اور متعصب نظام اور اس کے کارندے کس طرح بروئے کار آئے، وہ قابل دید ہے۔ یہ صرف ایک مقدمہ کی کارروائی تھی کہ جس نے ایک سادہ سے شہری کے دماغ کو الجھا کر رکھ دیا تھا اور غالباً سنی دیول نے بطور اینگری ینگ مین، اس مقدمے میں ملوث تمام تر کرداروں کو جس طرح بری طرح ننگا کیا، خود سزا دی ( جو بہرکیف معاشرے میں ممکن نہیں)، وگرنہ نظام اور اس کے کارندے انوپم کھیر کو نہ صرف پاگل، دیوانہ ثابت کر چکے تھے اور طاقتوروں کیلئے آسانی کی راہیں یوں فراہم کر رہے تھے کہ وہ معاشرے میں مزید ظلم کرنے کیلئے آزاد رہیں۔ ممکن ہے کہ بعد ازاں اور بھی کئی ایک ایسی فلمیں بنی ہوں لیکن چونکہ اب فلمیں دیکھنا بہت کم کردی ہیں لہٰذا نئی فلموں کے بارے زیادہ معلومات نہیں ہیں، اس لئے ایک پرانی فلم کا حوالہ دینا پڑا ہے ۔ پاکستان میں ایسی ظلم کی کئی داستانیں انصاف نہ ملنے کے باعث، اہلکاروں کی ملی بھگت کہیں یا طاقتوروں کا اثرورسوخ کہہ لیں، معاشرے میں نہ صرف انصاف ناپید ہوتا جارہا ہے بلکہ ظلم بڑھتا ہی جارہا ہے، ظالم دندناتے پھرتے ہیں جبکہ مظلوم کی کہیں کوئی شنوائی نہیں ہے۔ یہ صورتحال تو عام شہری کی ہے کہ وہ لٹ جانے کے بعد، ظلم سہنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر پاتا، نہ اس کے پاس وسائل ہیں اور نہ وسیع تر تعلقات کہ جن کو بروئے کار لاکر وہ انصاف حاصل کر سکے، لہٰذا ہمارا معاشرہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک نیا ’’مجرم‘‘ تیار کر رہا ہے، جو بڑے مگرمچھوں کے ساتھ ملکر عوام کو لوٹنے میں مگن ہے۔ سیاسی افق پر تو معاملہ اس سے بھی زیادہ گھمبیر نظر آتا ہے کہ پرانی گھاگ سیاسی جماعتیں ایک طرف کھڑی ہیں اور انہیں اس بوسیدہ و متعفن و متعصب نظام کی تمام بیساکھیاں بھی میسر ہیں، ان کیلئے نظام اور کارندے بچھے نظر آتے ہیں، قانونی پیچیدگیاں و سقم ان کیلئے اقتدار کے راستے میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں بنتے لیکن جو سیاسی شخص؍ جماعت ان کی اجارہ داری میں نقب لگانے یا اس گٹھ جوڑ کیخلاف عوامی حمایت سے باہر نکلتا ہے، اس کیلئے نظام ایسی ایسی رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے کہ اس کیلئے ثابت قدم رہنا مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔ رجیم چینج آپریشن کے بعد سیاسی افق پر جو منظرنامہ تخلیق کیا جا چکا ہے، اس کے مطابق جو حقائق دیوار پر لکھے نظر آتے ہیں، انہیں واضح طور پر پڑھا جاسکتا ہے کہ موجودہ حکمران اور ان کے پشتیبان کسی صورت یہ نہیں چاہتے کہ تحریک انصاف یا عمران خان دوبارہ اقتدار حاصل کر پائیں، اس مقصد کیلئے ایک طرف تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کو توڑا جارہا ہے تو دوسری طرف مزید نئی سیاسی جماعتوں کی تشکیل سے قوم کو تقسیم کیا جارہا ہے۔ اس سب کے باوجود بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہورہے اور پاکستانی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب کسی سیاسی جماعت کے قائد پر درج مقدمات کی تعداد 200کے قریب جا پہنچی ہے اور نظام عدل نہ صرف اس ایک شخص کو بلکہ اس کے ساتھ وفاداری نبھانے والے ہر شخص کی عدالت میں حاضری کو یقینی بنانے پر بضد ہے۔ یقینی طور پر درج مقدمات کی نوعیت عدالتی نظام کو مجبور کر رہی ہوگی کہ ملزم ذاتی حیثیت میں پیش ہو، قطع نظر اس حقیقت کے کہ اس کی زندگی کو واقعتاً خطرات ہیں یا نہیں، کیونکہ مذکورہ ملزم اس نظام کا بعینہ ویسے حصہ نہیں ہے کہ جس طرح سابق وزیراعظم نوازشریف تھے، جن کی زندگی کی ضمانت اسلام ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جناب اطہر من اللہ نے حکومت وقت سے طلب کی تھی، اور نہ ہی عمران خان ایسی بیماریوں کا شکار ہے کہ ایسی داد رسی کی التجا کرے۔ تاہم موجودہ حکومت کی مسلسل یہ کوشش ہے کہ کسی طرح عمران خان کو سیاسی منظرنامے سے ہٹانا ہے، اس کیلئے خواہ کوئی بھی راستہ اختیار کرنا پڑے، انہیں اس کی کوئی پرواہ یا فکر نہیں اور نہ ہی انہیں کسی قانون کی پرواہ ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ عمران خان کیلئے حالات ایسے ضرور پیدا کئے جاتے ہیں اور ان حالات سے اپنے مطلب کے ایسے وقوعے بھی برآمد کر لئے جاتے ہیںکہ جن کی بنیاد پر فوری طور پر عمران خان کیخلاف مقدمہ درج ہو جاتا ہے۔ جبکہ یہی عمران خان جب خود پر ہونیوالے قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر کرانا چاہتا ہے، جو اس کا حق ہے، اس کی ایف آئی آر اس کی مدعیت میں نہیں ہو پاتی، صرف عمران خان پر ہی کیا موقوف، یہاں تو مولانا طاہر القادری کو ادارہ منہاج القرآن اور ان کے رفقاء کی قتل و غارت پر ایف آئی آر وقت کے آرمی چیف کے توسط سے درج کرانی پڑی تھی لیکن انصاف کے تاحال منتظر ہیں، حالیہ دور میں چوٹی کے قانون دان سردار لطیف خان کھوسہ کے گھر پر ہونیوالی نامعلوم افراد کی فائرنگ پر لطیف خان کھوسہ اپنی مدعیت میں ایف آئی آر درج نہیں کرا سکے۔ صورتحال یہ ہے کہ جتنے مقدمات عمران خان پر بنائے جاچکے ہیں، انہیں سیاسی انتقام سے کہیں زیادہ ’’سیاسی فنا‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے کہ عمران خان کے مخالفین کسی صورت عمران خان کو سیاسی میدان میں دیکھنے کے روادار نہیں ہیں۔ اس وقت تک سیاسی دنگل سجانا نہیں چاہتے کہ جب تک عمران خان نامی بلا سے جان نہیں چھوٹتی، عدالتی نظام کو تیز تر کرنے کی تمام کوششیں جاری ہیں، بودے مقدمات کے باوجود مزید مقدمات کا اندراج کیا جارہا ہے، صرف اس امید پر کہ اگر ایک مقدمے سے بچ بھی گیا تو کسی نہ کسی دوسری عدالتی کارروائی میں اسے سزا سنائی جاسکے گی، پابند سلاسل کیا جا سکے گا، اس کی سیاسی اننگز کا خاتمہ کیا جاسکے گا۔ ان تمام تر کوششوں ؍ کاوشوں کے باوجود، اپنے طے شدہ منصوبہ کے عین مطابق حالات کو کھینچ کھانچ کی اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے تک لے آئے ہیں لیکن تاحال عمران خان کو سیاسی میدان سے باہر کرنے میں ناکام ہیں، گو کہ اپنی تمام تر کوششیں، اپنے تمام تر تیر آزما چکے ہیں لیکن کامیابی ابھی تک نصیب نہیں ہوئی۔ اگلے دو، تین ہفتے میں اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد تحلیل ہوتی ہیں، تو صورتحال کیا ہوگی؟ کیا نگران حکومت میں عمران خان کیخلاف عدالتی کارروائیاں اسی طرح جاری رہیں گی؟ یا نگران حکومت بھی اس وقت تک عام انتخابات کرانے سے گریز کرے گی کہ جب تک عمران خان سیاسی میدان میں موجود رہیں گے؟ یا نگران حکومت اس آڑ میں اپنی مدت میں توسیع کرتی جائیگی؟ کیا عدالتیں اس وقت آئین پر عملدرآمد کیلئے بروئے کار آ سکیں گی، گو کہ صوبائی انتخابات کیلئے عدالت اپنے حکم پر عملدرآمد کرانے سے قاصر رہی ہے، کیا قومی انتخابات پر آئینی تقاضے پورے کرا سکے گی؟ بہرکیف ان پر فیصلہ تو آنیوالے وقت میں ہوگا جب حالات سامنے آ جائیں گے کہ ان معاملات پر قبل از وقت کچھ کہنا ممکن ہی نہیں البتہ تادم تحریر اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ حکومت تمام تر خواہش، کوشش اور سہولت کے باوجود عمران خان کو سیاسی میدان سے باہر نہیں کر پائی، بے بسی کی اس سے زیادہ کوئی اور مثال ہوسکتی ہے!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button