CM RizwanColumn

ابلیس بھی موقف پر ڈٹا ہوا ہے؟

ابلیس بھی موقف پر ڈٹا ہوا ہے؟

سی ایم رضوان
وزیراعظم شہباز شریف نے اعلان کیا ہے کہ آٹھ اگست کو وہ زمام حکومت نگران کابینہ کے سپرد کر دیں گے۔ ان کی حکومت پر سرسری نظر ڈالیں تو دکھائی دیتا ہے کہ اس عرصہ میں ایک طرف ملک بدترین معاشی بحران سے گزرا تو دوسری طرف سیاسی میدان میں گھمسان کا رن پڑا رہا۔ ایسی فضا بنا دی گئی کہ سیاسی پسندیدگی اور ناپسندیدگی کی بنیاد پر عام شہری بھی ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر آمادہ نظر آئے۔ سب سے زیادہ نفرت آمیز بیانیے سوشل میڈیا پر بنائے گئے اور اداروں کے خلاف بوئی گئی نفرت ہیلی کاپٹر کریش کے دوران حتیٰ کہ سانحہ نو مئی کو بدترین انداز میں کھل کر سامنے آگئی۔
سوال یہ ہے کہ کیا کسی ادارے یا شخص کے خلاف یک طرفہ نفرت پیدا کر دینا آزادی اظہار کے زمرے میں آتا ہے؟ کیا کسی ملکی ادارے یا شخصیت کے خلاف زہرفشانی کر کے ہم ملک و قوم یا دین و ملت کی کوئی خدمت کر رہے ہیں؟ یقیناً حب الوطنی کے تناظر میں تجزیہ کیا جائے تو ایسا عمل کرنے والوں پر تین حروف بھیجنے کو دل چاہے گا۔ ایسے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کچھ بھی ہو خان اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے۔ تو جواب اس کا یہ ہے کہ ابلیس بھی تو اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے۔ موقف پر ڈٹ جانا کافی نہیں ہوتا بلک موقف کا درست اور مبنی بر حق ہونا اصل ہدف ہونا چاہئے۔ موقف کی بنیاد اور اصل کا ادراک ہونا چاہیے۔ وسیع تر ملکی اور قومی مفاد پیش نظر ہونا چاہئے لیکن یہ فلسفہ تو اس سیاستدان کو سمجھنا اور سمجھانا چاہئے جس کو وطن سے محبت ہو۔
سیاست کے حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی دوسرے کاروبار کی طرح یہ بھی ایک نفع بخش کاروبار ہے۔ اس کاروبار میں پہلے سیاستدان اپنے وقت اور مال کی سرمایہ کاری کر کے کسی نشست پر منتخب ہوتے ہیں پھر اپنے منصب کا استعمال کرتے ہوئے مختلف حیلوں بہانوں سے دولت اکٹھی کرتے ہیں۔ یہ سب اتنا منظم انداز میں ہوتا ہے کہ کوئی ان پر انگلی تک نہیں اٹھا سکتا۔ اربوں کے ٹھیکے اپنے من پسند افراد کو دے کر یہ ان سے بھاری کمیشن لیتے ہیں۔ تیسری دنیا کے تمام ممالک میں سیاست کا یہی نصب العین ہے، ہاں طریقہ کار مختلف ہوسکتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں تو سیاستدان اپنی انتخابی مہم کے اخراجات عوامی چندوں سے کسی نہ کسی طور پورا کر لیتے ہیں لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں یہ رقم جیب سے لگانا پڑتی ہے۔ ظاہر ہے اگر آپ کروڑوں اربوں خرچ کر کے ایم پی اے یا ایم این اے بنے ہیں تو کیا اگلے الیکشن کے لئے رقم اکٹھی نہیں کریں گے۔ قومی اسمبلی کے ایک رکن یعنی ایم این اے کی تنخواہ ایک لاکھ 88ہزار روپے ہے اس قلیل تنخواہ میں مطلوبہ اور مروجہ جاہ و جلال اور ڈیرہ داری تو نہیں ہوتی۔ کسی بھی کاروبار کی طرح سیاست کو بھی منافع بخش بنانے کے لئے ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ یہ ایجنسیاں کسی بھی لیڈر کو ایک پراڈکٹ کے طور پر لانچ کرتی ہیں، اس کی خوبیاں تراشی جاتی ہیں، پھر اسے ایک دیوتا کے روپ میں پیش کر دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہمسایہ ملک بھارت میں تین ایڈورٹائزنگ کمپنیوں، سوہو اسکوائر، اوگلیو اینڈ ماتھر اور میڈیسن ورلڈ نے 2014ء میں نریندر مودی کی انتخابی مہم چلائی اور اسے بھاری اکثریت سے کامیاب کروایا۔ ایڈورٹائزنگ میں کہتے ہیں کہ امید، خوف اور سیکس سب سے زیادہ بکتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں اس فہرست میں مذہب کو بھی شامل کر لیں۔ نہیں معلوم کہ تحریک انصاف کے سربراہ کو تسبیح کس ایڈ ایجنسی نے پکڑوائی لیکن یہ طے ہے کہ موٹے دانوں والی اس تسبیح نے اس کے پلے بوائے امیج کو دھو ڈالا۔ ساری عمر مغربی لباس پہننے والے عمران خان نے جب ملکی سیاست میں قدم رکھنے کی ٹھانی تو اس کے لئے قومی لباس اور پشاوری چپل کا انتخاب کیا گیا۔ یہ طریقہ بھی ایک محب وطن امیج بنانے میں نہایت ہی کامیاب رہا۔
کسی بھی جمہوریت میں اکثریت کھو دینے پر حکومت کا برطرف ہو جانا ایک معمول ہے لیکن تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں برطرف ہونے والے سابق وزیراعظم نے ایک بیانیہ اپنایا کہ انہیں برطرف کرنے کے قانونی عمل کے پیچھے دراصل امریکی سازش تھی۔ انگریزی سامراج کے زیرِ تسلط رہنے کی وجہ سے پاکستانیوں کو انگریز اور انگریزی فوج سے دلی نفرت اپنے آبائو اجداد سے ورثے میں ملی ہے۔ پاکستانی بھلے سے ایک بھی اسلامی کام نہ کریں لیکن انہیں اسلام سے عقیدت بہت ہے۔ قوم کی اسی جبلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاستِ مدینہ اور حقیقی آزادی کے بیانیوں کو خان نے خوب کیش کروایا۔ بیرونی سازش، امریکی سازش، سازش نہیں مداخلت اور امپورٹڈ حکومت وغیرہ بھی اسی کے ہم وزن ہیں۔ برطانوی راج کا دیا ہوا بوسیدہ نظام آج بھی بیورو کریسی کو مجبور کرتا ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں یا اشرافیہ کے آلہ کار بنے رہیں۔ لامحدود اختیارات کے مالک تھانے دار یا ڈپٹی کمشنر مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔ ان کی مراعات اور اوپر کی کمائی اگر نہ ہو اور محض تنخواہ پر گزارا کرنا پڑے تو یہ آج کے دور میں گھر کا کچن نہیں چلا سکتے۔ لہٰذا یہ مجبور ہو کر ان سیاست دانوں کے آلہ کار بنے رہتے ہیں۔
گزشتہ چھ برس کے دوران پاکستان تحریک انصاف نے ایک واضح لائن لی ہوئی ہے کہ جو ان پر تنقید کرے وہ ملک کا دشمن ہے۔ پی ٹی آئی دور میں تو حکومت مخالف میڈیا ہائوسز کے اشتہار بند کر دیئے گئے، کوئی آزاد سوچ کا حامل میڈیا مالک اشتہار لینے جاتا تو سابق وزیر فواد چودھری اپنا موبائل فون لہرا کر کہتے میں تمہیں اشتہار کیوں دوں؟ میرے پاس یہ ہے، یعنی سوشل میڈیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بعض میڈیا مالکان کو مجبوراً پی ٹی آئی کا بیانیہ سچ کے طور پر پیش کرنا پڑا، جس نے نہیں بیچا اس کا معاشی قتل کر دیا گیا۔ اسے سوشل میڈیا پر غلیظ گالیاں دی گئیں، صحافیوں کو سرِ عام وزرا نے مارا پیٹا۔ کچھ صحافی رضاکارانہ طور پر بھی اس کے آلہ کار بن گئے۔ یعنی پی ٹی آئی کے حق میں ایک پروگرام کیا اور پی ٹی آئی سوشل میڈیا سیل نے اسے پورے ملک میں وائرل کر دیا۔ یوٹیوب پر ایک ہزار سے زائد سبسکرائبر ہونے اور واچ ٹائم 4ہزار گھنٹے سے تجاوز کرنے پر پیسے ملنا شروع ہو گئے۔ اس نے پھر مالی فائدے کے لئے پی ٹی آئی کی جھوٹی مہم کو اپنا لیا۔ اس کے برعکس مسلم لیگ ( ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی) کا سوشل میڈیا کمزور ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی کا بیانیہ سچ کے طور پیش کرتے پر سبسکرائبر دنوں ہی میں ہزاروں لاکھوں میں پہنچ جاتے ہیں۔
ٹوئٹر، انسٹا گرام، لنکڈ اِن، یہ تمام سوشل میڈیا ٹول ہیں لیکن براہِ راست ویڈیو دکھانے والے ٹولز فیس بک اور یوٹیوب سیاسی جنگجوئوں میں زیادہ مقبول ہیں۔ فیس بک اور یوٹیوب کی سخت شرائط کی وجہ سے ٹوئٹر اسپیس بھی مقبول ہو رہا ہے۔ عمران خان نے پچھلے سالوں میں کئی بار ٹوئٹر اسپیس پر براہِ راست خطاب کیا اور اب تو اس نے ٹک ٹاک بھی جوائن کر لیا ہے۔
اسی پی ٹی آئی سوشل میڈیا پر دو سال سے ایک خطرناک بیانیہ دیا جا رہا ہے کہ فوجی قیادت عمران خان کی مخالف ہے۔ اس فرضی الزام کی بناء پر فوجی قیادت پر تنقید کی جا رہی ہے۔ تاریخ میں ہمیں فوج کے خلاف صرف ایک بڑی بغاوت کا ذکر ملتا ہے جو 1857ء میں ہوئی۔ باوجود اس کے کہ مسلمانوں اور ہندوئوں نے مل کر مٹھی بھر برطانوی فوج کے خلاف کافی منظم بغاوت کی تھی پھر بھی وہ برطانوی فوج کا کچھ خاص نہیں بگاڑ سکے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد سے فوج میں ایسا طریقہ کار وضع کر دیا گیا کہ بغاوت ناممکن بنادی گئی۔ یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ ملٹری انٹیلی جنس اور فوجی خفیہ ادارے سپاہی اور ان کے اہلِ خانہ تک کو زیرنظر رکھتے ہیں۔ وہ کس کس سے ملتے ہیں، کہاں جاتے ہیں سب ریکارڈ رکھا جاتا ہے، افسروں کی تو بات ہی اور ہے۔ خفیہ ادارے صرف فوجیوں کا ہی نہیں اہم عہدوں پر فائز سویلینز کا بھی ریکارڈ رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ نمایاں صحافیوں کی فائلیں بھی خفیہ ایجنسیوں کے پاس ہوتی ہیں۔ ہم دہائیوں سے ملکی سیاست اور فوج پر نظر رکھے ہوئے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر فوج مخالف ایک ایسا بیانیہ فروغِ دیا جا رہا ہے جس کی پہلے مثال نہیں ملتی اور اس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ تاہم ساری بحث اس بات کے گرد ہے کہ فوج ایک منظم ادارہ ہے اور فوج مخالف مہم چلانے والے پاکستانی سیاست کے ساتھ انصاف نہیں کر رہے ۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ سوشل میڈیا پر فوج کو مسلسل ہدف کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ کچھ بھی ہو خان اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے حالانکہ اپنے موقف پر ابلیس بھی تو ڈٹا ہوا ہے۔ کیا تسلسل کے ساتھ جھوٹ پر ڈٹے رہنا بھی کریڈٹ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button