Editorial

پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بڑی کمی

عوام کے لیے خوش خبری، حکومت کی جانب سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں آئندہ پندرہ روز کے لیے بڑی کمی کا اعلان، گزشتہ روز عوام پر بجلی کی قیمت میں بڑے اضافے کے باعث برق آگری تھی، بجلی کی قیمت میں فی یونٹ لگ بھگ 5روپے اضافے کی اطلاع سامنے آئی تھی، حکومت نے اگلے ہی روز اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان سامنے آیا ہے، جس پر عوام میں خوشی پائی جاتی ہے اور اُنہوں نے اس کمی کو سراہا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کر دیا۔ وزیر خزانہ نے اپنے ویڈیو بیان میں آئندہ 15روز کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اعلان کیا۔ انہوں نے بتایا کہ 16جولائی سے 31جولائی تک کی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل واجب تھا، اس حوالے سے بین الاقوامی مارکیٹ میں پچھلے 15روز کے دوران ایک آئٹم میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے، لیکن دوسرے آئٹم میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا جس آئٹم میں اضافہ ہوا ہے، ہم نے اس کو پاکستانی روپے میں بہتری کی وجہ سے کچھ تلافی کرنے کی کوشش کی ہے، پہلی جولائی کو پٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی جو آئی ایم ایف سے طے تھا، اس میں مزید کوئی تبدیلی نہیں کر رہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پٹرول کی قیمت میں 9روپے فی لٹر کمی کی جارہی ہے جبکہ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 7روپے فی لٹر کمی کی گئی ہے۔ سینیٹر اسحاق ڈار نے بتایا کہ9روپے کمی کے بعد پٹرول کی نئی قیمت 253روپے فی لٹر مقرر کی گئی ہے جبکہ ہائی سپیڈ ڈیزل کی نئی قیمت 253روپے 50پیسے ہوگئی ہے۔ اس فیصلے کو عوام دوست گردانا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ حکومت نے صورت حال میں معمولی بہتری پر ہی ثمرات عوام الناس کو منتقل کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔ قوم پچھلے پانچ برس کے دوران بدترین مہنگائی کا سامنا کرتی چلی آرہی ہے۔ اُس کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یہ کمی مایوسی کے گھپ اندھیروں میں اُمید کی کرن کی مانند ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید کمی آنی چاہیے۔ اسی طرح ڈالر کے نرخ بھی پُرانی سطح پر واپس جانے چاہئیں، تبھی ملک میں نا صرف مہنگائی کا زور ٹوٹے گا بلکہ پٹرولیم مصنوعات اور دیگر اشیاء کے نرخوں میں بڑی کمی واقع ہوسکے گی۔ دیکھا جائے تو وطن عزیز میں پٹرولیم مصنوعات کی اتنی زائد قیمت کی بنیادی وجہ پاکستانی روپے کی پچھلے پانچ برس کے دوران ہونے والی بدترین بے توقیری ہی ہے۔ ایک زمانے میں پاکستانی روپیہ ایشیا کی بہترین کرنسی میں شمار کیا جاتا تھا۔ کسے خبر تھی کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ جب پاکستانی روپیہ ایشیا کی سب سے بدترین کرنسی کہلائے گا۔ سابق حکومت کی ناقص پالیسیوں نے ملک و قوم کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ملکی معیشت کے لیے بارودی سُرنگیں بچھائی گئیں۔ پاکستانی روپے کی بے وقعتی کے لیے ایسے فیصلے کیے گئے کہ روپیہ دھڑام سے بلندیوں سے پستیوں کی جانب گامزن رہا اور اب بھی صورت حال کچھ مختلف دِکھائی نہیں دیتی۔ ایک ڈالر سو روپے کا تھا، آج وہ 275 روپے سے زائد پر براجمان ہے۔ معیشت کا پہیہ جام کرکے رکھ چھوڑا گیا تھا۔ سرمایہ کار یہاں سے فرار میں عافیت جانتے تھے۔ سابق حکومت کی ناقص حکمت عملی کے باعث ملک میں ترقی کا سفر تھم سا گیا تھا۔ غریبوں کے لیے زیست ازحد دشوار بنادی گئی تھی۔ اُن کی چیخیں نکالنے کی باتیں کی جاتی تھیں، لیکن اُن کا بھرکس نکال ڈالا گیا۔ سی پیک ایسے گیم چینجر منصوبے پر کام کی رفتار سست کردی گئی یا کام روک دیا گیا۔ چین اور سعودی عرب جیسے دوستوں کو ناراض کیا گیا اور دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات کو خرابی کی سطح پر لے جانے کی کوشش کی گئی۔ ملک پر ڈیفالٹ کی تلوار لٹک رہی تھی۔ سابق حکومت کی رخصتی کے بعد موجودہ حکومت نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی اور معیشت کی بہتری کے لیے کوششوں کا آغاز کیا۔ گو اس کے لیے اُسے چند مشکل فیصلے کرنے پڑے۔ مہنگائی میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ حکومت نے روس سے سستے تیل کی درآمد کا احسن فیصلہ کیا۔ اس کے لیے روسی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا۔ مذاکرات کے دور ہوئے بالآخر معاہدہ طے پایا۔ اس ضمن میں سستے تیل سے لدے دو بحری جہاز روس سے پاکستان آچکے ہیں اور مزید آئندہ بھی آئیں گے۔ اسی طرح روس، ترکمانستان اور دیگر ممالک کے ساتھ سستی ایل پی جی کی درآمد کا فیصلہ کیا گیا، جس کے مثبت اثرات ظاہر ہوچکے اور پچھلے ایک ماہ کے دوران ایل پی جی کی قیمت میں 60روپے کی کمی آچکی ہے۔ بیرونی دُنیا سے موجودہ حکومت نے پھر سے بہتر تعلقات استوار کئے۔ چین اور سعودی عرب کی ناراضی دُور کی گئی۔ سی پیک پر پھر کام کا آغاز ہوا۔ ترقی کا رُکا ہوا پہیہ گھومنے لگا ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پایا۔ اُس نے کڑی شرائط عائد کیں۔ پاکستان نے پاسداری کی۔ اُس سے حالات کچھ کٹھن ضرور ہوئے ہیں، لیکن بہتری کے لیے کچھ تو قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ بہرحال معیشت کی بہتری کی جانب مشن کے مثبت اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ روسی تیل مارکیٹ میں جب دستیاب ہوگا تو اس سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید کمی کی توقع ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف اور دیگر حکومتی ذمے داران بھی اس حوالے سے بیانات دے چکے ہیں۔ معیشت اور دیگر حوالوں سے حالات مثبت رُخ اختیار کر رہے ہیں، اس کا کریڈٹ موجودہ حکومت کو نہ دینا ناانصافی کے زمرے میں آئے گا۔ حالات مثبت سمت کا اشارہ دے رہے ہیں۔ رب العزت سے دعا ہے کہ ملک عزیز پھر سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو۔ ملک و قوم کے حالات بہتر ہوں۔ مشکلات اور مصائب کا خاتمہ ہو۔ قرضوں کے بار سے مستقل چھٹکارا ملے۔ حکومت بھی اپنے اخراجات میں کمی لائے اور وسائل پر تمام تر انحصار کی پالیسی اختیار کرے۔ آئندہ عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت بھی ملکی وسائل کو صحیح خطوط پر بروئے کار لائے۔ معیشت کی بہتری کا سفر اسی طرح جاری رکھے تو ان شاء اللہ مزید خوش خبریاں قوم کو سننے کو ملیں گی۔
تمام تعلیمی بورڈ پاسنگ مارکس کم از کم 40کرنے پر متفق
ملک عزیز میں معیار تعلیم کے حوالے سے صورت حال تسلی بخش قرار نہیں دی جاسکتی، جو قومیں تعلیمی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتی ہیں، اُن کی ترقی کا سفر انتہائی سُرعت سے طے ہوتا ہے اور وہ اقوام عالم میں ہر مثبت سطح پر سرفہرست قرار پاتی ہیں۔ افسوس یہاں پر تعلیم پر وہ توجہ نہ دی جاسکی، جس کی ضرورت تھی۔ ہمارے تعلیمی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں ہم اپنی آئندہ نسلوں کو بہتر اور معیاری تعلیم دے سکیں، اُن کے مستقبل کو سنوار سکیں، اُنہیں حقیقی علم کی روشنی سے منور کرسکیں۔ اس حوالے سے ایک اچھی اطلاع یہ آئی ہے کہ ملک بھر کے تعلیمی بورڈز پاسنگ مارکس کم از کم 40کرنے پر متفق ہوگئے ہیں۔ تعلیم میں بہتری لانے کے لیے اور بھی مثبت فیصلے کیے گئے ہیں۔ اخباری اطلاع کے مطابق ملک بھر کے تعلیمی بورڈ میں پاسنگ مارکس کم ازکم 40کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ ملک کے تعلیمی بورڈز کی کمیٹی فار چیئرمینز کا دو روزہ اجلاس ہوا، جس میں 21نکاتی ایجنڈے پر غور اور اہم امور پر اتفاق کیا گیا۔ اجلاس میں کمیٹی نے پاسنگ مارکس کم ازکم 40فیصد کرنے پر اتفاق کیا ہے جب کہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے مسلم طلبہ کے لیے مطالعہ قرآن لازمی قرار دینے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ بورڈز کے چیئرمینز نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ پورے ملک میں یکساں رزلٹ کارڈ متعارف کیا جائے گا اور امتحانی شیڈول مارچ اپریل کے بجائے مئی جون میں کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اجلاس میں رواں سال کے لیے انٹر بورڈ اسپورٹس کمیٹی کے چیئرمین کی تعیناتی کا فیصلہ کیا گیا ہے اور بلوچستان بورڈ رواں سال انٹربورڈ اسپورٹس کمیٹی کا چیئرمین ہوگا۔ ملک کے تمام تعلیمی بورڈز کی کمیٹی فار چیئرمینز کا دو روزہ اجلاس ہر لحاظ سے مثبت قرار پاتا ہے۔ اسی قسم کے فیصلوں کے ذریعے نظام تعلیم کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے مسلم طلبہ کے لیے مطالعہ قرآن لازمی قرار دینے کا فیصلہ بھی احسن قرار پاتا ہے۔ پورے ملک میں یکساں رزلٹ کارڈ متعارف کرانے اور مئی جون میں امتحانی شیڈول کرنے کے فیصلے بھی لائق تحسین ٹھہرتے ہیں۔ چیئرمینز کمیٹی نے صحیح سمت میں پیش رفت کی ہے۔ درستی اور اصلاح کی گنجائش ہر معاملے میں رہتی ہے۔ تعلیمی نظام کی بہتری اور معیار تعلیم کو بلند کرنے کے لیے مزید اسی قسم کے فیصلوں کی ضرورت ہے۔ نظام تعلیم میں پائی جانے والی خامیوں کو دُور کیا جائے۔ نظام تعلیم کو عصر حاضر کے تقاضوں سے آراستہ کیا جائے۔ درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button