ColumnJabaar Ch

ٹیکنیکل انصاف

جبار چودھری

ناانصافی ریاست،معاشرے، ملک اور قوم کو نگل جاتی ہے۔انصاف کسی کو ریلیف دینے کا نام نہیں بلکہ مجرم کو تکلیف دینے کا نام ہوتا ہے۔قانون کو اندھا اسی لیے کہاجاتا ہے کہ وہ کسی کا فیس ( چہرہ) نہیں بلکہ صرف کیس دیکھتا ہے۔ ہمارے ہاں کیس دیکھنے کا رواج کب کا نکل چکا۔یہاں صرف اب فیس ( چہرے) دیکھے جاتے ہیں۔طاقتورریلیف اپنا حق سمجھتا ہے اور اس کو یہ حق سمجھنے کا حق بھی اسی قانون اور انصاف کے محافظوں نے دے رکھا ہے۔جب منصف اعلیٰ کسی ملزم کو دیکھ کربھری عدالت میں یہ کہنے پر مجبورہو (اس کی وجہ کوئی بھی ہو،چاہے اس سے محبت ہو یا فریق مخالف سے نفرت) کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔اور اس خوشی کے کھسیانے پن کو جوازدینے کے لیے اگلے دس دن ہر آنے والے کودیکھ کر خوش ہونے کی ایکٹنگ کرکے بتاتارہے کہ جو اس نے کہا وہ تو ایک معمول کی بات ہے توایسی عدالتوں میں انصاف نہیں ہوتا۔اورجب انصاف کی سب سے بڑی عدالت سے ایسی بے انصافی کا پیغام معاشرے میں چلاجائے تو وہ ناانصافی کا کینسربن کر اس معاشرے کو کھاجاتا ہے۔ ہمارے ہاں میرٹ پر نہیں صرف ٹیکنیکل انصاف ملتا ہے اور اسی ٹیکنیکل انصاف کی جستجو ۔اسی پر دلائل اور اسی پرریلیف۔انصاف کے پورے ہاتھی کو چھوڑ کر صرف ٹیکنیکل انصاف کی دُم پکڑے سبھی ایک قطارمیں ہیں ۔دکھ یہ نہیں کہ سب اسی دُم کو پوراہاتھی سمجھے بیٹھے ہیں ،دکھ یہ ہے کہ احساس ہی جاتا رہا ہے کہ میرٹ پر انصاف ہی انصاف ہوتا ہے۔ہمارے نظام انصاف کی خامیوں میں سے سب سے بڑی خامی اس کا تہہ دار ہونا ہے۔ایک ہی کیس بار بار چار سے پانچ عدالتوں میں سنا جاتا ہے ۔آخرکار مظلوم تھک جاتا ہے اور گناہگارظالم بچ جاتا ہے۔اس کے علاوہ ایک بڑی خامی کا تسلسل یہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ لوئرکورٹس کے فیصلے کو الٹانا اپنا سب سے اہم فرض سمجھتی ہے ۔جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت سے قتل کا کیس چلنا شروع ہوتا ہے۔مجسٹریٹ فیصلہ کرنے میں سال لگاتا ہے ۔وہ اپنے سامنے ثبوت اور شواہد دیکھ کرقاتل کو پھانسی کی سزا سناتا ہے۔مقتول کے لواحقین ابھی کلمہ شکر ادا نہیں کرپاتے کہ مجرم ہائی کورٹ میں اس کو چیلنج کرتا ہے۔پہلی پیشی میں نچلی عدالت کا فیصلہ معطل۔مجرم باہراور پھر کیس کی لمبی تاریخیں۔پھر مقدمات میں پک اینڈ چوز ہوتاہے۔جس کیس کا شورمیڈیا پر آجائے وہ کیس جلدی لگ جاتا ہے لیکن شور تھمتے ہی وہی کچھوے کی رفتار۔ ہمارے نظام انصاف کی کھلی خامیوں اور کیس نہیں فیس کی گھٹیاترین مثال کراچی میں قتل ہوئے نوجوان شاہزیب خان کا مقدمہ تھا۔اس کیس میں صلح ہوگئی لیکن اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ازخود نوٹس لیا۔اس صلح کو مسترد کیا اور ٹرائل کورٹ کوٹرائل مکمل کرنے کا حکم دیا۔ٹرائل کورٹ سے شاہ رخ جتوئی کو پھانسی کی سزاسنائی۔یہ کیس ہائی کورٹ میں گیا۔سندھ ہائی کورٹ نے سزاکو برقراررکھا ۔پھر مجرموں نے فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔لوئر کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کے فیصلے ہماری سپریم کورٹ کے دوججز جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی اور جسٹس اعجازالاحسن صاحب نے بدل کرشاہ رخ جتوئی کو بری کردیا۔اب ستم دیکھیں قاتل بے گناہ کردیا گیا لیکن مقتول ؟ اگر اس مجرم نے قتل نہیں کیا تو پھر کس نے شاہزیب کو قتل کیا؟ اگر سزایافتہ مجرم بے گناہ بھی ہے تو کیا ہمارے نظام انصاف کا یہ فرض نہیں کہ وہ ایک ملزم یامجرم کو بری کرتے وقت یہ حکم بھی دیں کہ اصل قاتل کو پکڑاجائے؟ لیکن کیا یہ حکم کسی کیس میں کبھی آتا ہے؟اس سے کہیں زیادہ برا حال ہماری سپریم کورٹ میں آئینی مقدمات کا ہوتا ہے۔پتہ نہیں کس نے نظام بنایا کہ اعلیٰ عدالت صبح نو بجے سے دن ایک بجے تک مقدمات سنے گی۔ہفتے میں صرف پانچ دن کام ہوگااورموسم گرما اور سرما میں اسکول کے بچوں کی طرح مائی لارڈزبھی چھٹیوں کے مزے لیں گے؟کیا یہ واجب نہیں کہ اگر نظام انصاف چھٹی پر جاتا ہے کہ تو نظام ظلم کو بھی تین ماہ کی چھٹی پر بھیجا جائے؟یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ظلم دھندے پرلگارہے اور عدل چھٹی پر چلاجائے؟ظلم کوچہ وبازار میں بچے جنتا رہے اورنظام عدل بانجھ ہوجائے؟سپریم کورٹ میں اس وقت 55ہزارمقدمات زیر التوا ہیں اور ہمارا انصاف کا سب سے بڑا ادارہ جو حکومت کے کاموں میں رکاوٹ بنتاہے۔حکومتوں کے بنائے قوانین کو ایک فیصلے سے کبھی معطل تو کبھی کالعدم کردیتا ہے وہ انصاف کی دیوی تقسیم کی تکلیف سے گزررہی ہے۔گزشتہ ایک سال سے پاکستان کی سپریم کورٹ تماشا بنی ہوئی ہے۔حال یہ ہے کہ ججز کی تعداد تک پوری کرنے میں پسندناپسند اور سینئرزپرجونیئرزکوفوقیت دینے کا ایشوتعداد پوری نہیں کرنے دے رہا۔پھر سیاسی اور فرمائشی پٹیشنز ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔ جسٹس بندیال صاحب کی سپریم کورٹ کا احوال تاریخ میں کن الفاظ میں لکھا جائے گا یہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں کہ سب کچھ نوشتہ دیوار۔ایسے ایسے متنازع فیصلے۔ متنازع بینچز کہ خدا کی پناہ۔ان کے پورے دورمیں ایک بھی فل کورٹ نہیں بنا۔فل کورٹ بینچ توبہت دور کوئی فل کورٹ اجلاس تک نہیں ہوا۔ججز کی ریٹائرمنٹ پرفل کورٹ ریفرنس کی ایک مثبت روایت تھی وہ بھی جاتی رہی۔ ججز چپکے سے ریٹائرہوکر گھر چلے جاتے ہیں۔جسٹس بندیال صاحب اپنے فیصلوں اور ریمارکس میں سیاسی جماعتوں کو ایک ساتھ بیٹھ کرمذاکرات اور بات چیت کی بات کرتے ہیں لیکن اپنی سپریم کورٹ کا یہ حال کہ پندرہ جج ایک ساتھ نہیں بیٹھ سکتے؟جب انصاف کرنے والوں کے بارے میں یہ تاثر بن جائے کہ وہ مخصوص سیاسی پارٹی یا اس کے سربراہ کے حق میں ہی بات کریں گے تو اس پراسس کو انصاف نہیں کہتے۔ایسا تاثر مزید مخصوص بینچ بناکر نہیں بلکہ فل کورٹ بناکرتمام ججز کو فری ہینڈ دے کر دورکیا جاسکتا ہے لیکن اس تاثر کو دورکرنے کی کس کوفکر ہے۔سب نوکری کرنے آتے ہیں مراعات ،تنخواہیں۔سکیورٹی اور پھر تاحیات پینشن ۔انصاف کی خیر ہے ۔ چیف جسٹس صاحب کے دورمیں مقدمات کے ایسے ایسے فیصلے آئے اور بہت سے ابھی بھی سرد خانے میں ہیں جن سے سیاست کا نقشہ بدلا۔ حکومتیں گریں اور اقتدار کے فیصلے عوام کے ووٹ کی بجائے ججز کے فیصلوں سے دیے گئے۔آئین کی تشریح کرتے کرتے آئین کو دوبارہ لکھنے کوترجیح دی گئی۔ٹیکنیکل انصاف کو رواج دیا گیا۔عمران خان صاحب نے اسی ٹیکنیکل انصاف کے سہارے فارن فنڈنگ کے مقدمے کو آٹھ سال سرد خانے میں لگوائے رکھا۔جب کھلا تو کھلتا ہی چلا گیا۔عمران خان نے اپنی فنڈنگ کا حساب دینے کی بجائے دوسری جماعتوں کی فنڈنگ کا کیس کردیا۔دوسرے کے لیے فیصلے اور اپنے لیے التوا کی مانگ کرتے رہے۔ان کا فیصلہ ہوگیا لیکن اب دوسری جماعتوں کے فیصلے سرد خانے میں لگ گئے ہیں۔الیکشن کمیشن کو فرصت ہو تو ان کے فیصلے بھی کردے تاکہ ناانصافی کا رواج تھوڑاتو کم ہو۔ابھی ایک کیس توشہ خانہ کا بھی ہے۔خان صاحب دعوے کرتے ہیں کہ وہ بے گناہ ہیں ۔لیکن عدالت میں پیش ہوکر ثبوت نہیں دیتے۔نوازشریف سے رسیدیں مانگنے کو ان کی چھیڑ تک بنائے رکھا لیکن اپنی رسیدیں جعلی بنوالیں۔اس کیس میں فرد جرم عائد ہونے کی تاریخ کے بعد دوبارہ واپسی کروالی۔اسلام آباد ہائی کورٹ سے اسٹے لے لیا۔جب اسٹے ہٹنے کی بھنک پڑی تو چیف جسٹس پر عدم اعتماد کردیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو فیصلہ کرنے کا حکم دیا تو خان صاحب اس فیصلے کو لے کر اب سپریم کورٹ پہنچ گئے ہیں۔ وہاں کونسابینچ بنے گا اور کب اسٹے ملے گا اس کا انتظار ہے کیونکہ میرٹ پر انصاف کسی کو وارا ہی نہیں کھاتا ۔ٹیکنیکل انصاف کی دکان ہے تو سودا بھی ویسا ہی ملتا ہے۔خان صاحب کسی عدالت میں اس کیس کے میرٹ کی بات کرتے آپ کو نہیں ملیں گے۔ہر عدالت میں یہ کہتے نظر آئیں گے کہ اس کیس کو سننا فلاں کا اختیار نہیں ۔میرا کیس اس جج کے سامنے لگوائیں۔یہ کیس زید نے درج کرنا تھا لیکن یہ کیس تو بکر نے درج کیا ہے اس لیے مجھ سے رسیدیں نہ مانگی جائیں۔اپنی باری آئی ہے تو خان صاحب اپنی زندگی کے اصول بھول چکے ہیں۔انصاف کے بے انصاف نظام سے معاشرے میں گھٹن بڑھ رہی ہے۔رواداری جو ہمارے معاشرے کا نظام تنفس ہے وہ رواداری ختم ہورہی ہے۔ہر کوئی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی بجائے کھانے کو دوڑ رہا ہے۔لوگ اب اپنی رائے نہیں بلکہ ججمنٹ دینے کے عادی ہوگئے ہیں۔ اپنی رائے مسلط کرنے کی روش چل نکلی ہے۔ اس نظام انصاف کا ایک بڑا خراب اور کینسرزدہ حصہ ہماری پولیس اور پولیس سسٹم بھی ہے ۔ یہ پولیس سسٹم مظلوم کو ظالم بنانے کی راہ کھولتا ہے۔غلط ایف آئی آرز کاٹتا ہے۔روز پولیس اہلکار ججز کے ہاتھوں بے عزت ہوتے ہیں لیکن باز نہیں آتے۔اس پولیس گردی پرپھر کبھی ۔فی الحال اس ٹیکنیکل نظام انصاف سے جان چھوٹ جائے غنیمت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button