Columnعبدالرشید مرزا

حرمت قرآن، سود اور حکمران

عبدالر شید مرزا

پوری دنیا میں مسلمان حرمت قرآن پر سراپا احتجاج ہیں، ہمارے حکمران مغرب کی غلامی میں ایسے پھنس چکے ہیں وہ آواز بلند کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ ہم سویڈن کے اس عمل پر سخت غصہ میں ہیں میرا سوال یہ ہے اس میں کوئی شک نہیں سویڈن کے سفیر کو ہر مسلم ریاست سے نکال دینا چاہئے، سویڈن کے خلاف جنگ کا اعلان کرنا چاہئے لیکن ہمارے حکمران جو قرآن کے قوانین کے خلاف اللھ سے جنگ کے مرتکب ہوتے ہیں کیا انہیں پاکستان سے نہیں نکالنا چاہئے۔ آئینِ پاکستان کہتا ہے کہ یہاں کوئی قانون قرآن و سنت کی تعلیمات کے منافی نہیں بن سکتا۔ پاکستان میں ایک نہیں درجنوں بلکہ سینکڑوں ایسے قوانین ہیں جن کے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل اپنی سالانہ رپورٹس میں یہ کہہ چکی ہے کہ یہ غیر اسلامی قوانین ہیں۔ سودی نے پاکستان کی معیشت کو کھوکھلا کر دیا ہے، درج ذیل آیات اور احادیث کی روشنی میں گر ہم غور کریں تو واضح نظر آتا ہے ہمارے حکمران قرآن و سنت کی بے حرمتی کے مرتکب ٹھہرے ہیں اور وہ سزا کے مستحق ہیں۔ بلاشبہ سود اسلام میں قطعی طور پر حرام ہے، کیوں کہ یہ ایک معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا ذریعہ ہے، اسی وجہ سے قرآنِ مجید میں سود سے منع کیاگیا ہے: ’’ اے ایمان والو سود مت کھائو ( یعنی مت لو اصل سے) کئی حصے زائد ( کرکے) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو امید ہے کہ تم کامیاب ہو۔‘‘ ( سورۃ آلِ عمران، رقم الآی:130)
’’ اور جو لوگ سود کھاتے ہیں نہیں کھڑے ہوں گے ( قیامت میں قبروں سے) مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے ایسا شخص جس کو شیطان خبطی بنا دے لپٹ کر ( یعنی حیران و مدہوش)، یہ سزا اس لیے ہوگی کہ ان لوگوں نے کہا تھا کہ بیع بھی تو مثل سود کے ہے، حال آں کہ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کر دیا ہے۔ پھر جس شخص کو اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ باز آگیا تو جو کچھ پہلے ( لینا) ہوچکا ہے وہ اسی کا رہا اور ( باطنی) معاملہ اس کا خدا کے حوالہ رہا اور جو شخص پھر عود کرے تو یہ لوگ دوزخ میں جاویں گے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ ( سورۃ البقر: 275)
اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتے ہیں اور صدقات کو بڑھاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے کسی کفر کرنے والے کو ( اور) کسی گناہ کے کام کرنے والے کو۔ ( سورۃ البقر: 276)
’’ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو۔ ( سور البقر: 278)
اور جو لوگ اس ممانعت کے باوجود بھی سود جیسے قبیح عمل کرتے ہیں تو ان کے اس عمل پر قہر و غضب کے اظہار کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس عمل کو اللہ اور ان کے رسولؐ کے ساتھ اعلان جنگ قرار دیا ہے۔
قرآن مجید میں ہے: ’’ پھر اگر تم ( اس پر عمل) نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے ( یعنی تم پر جہاد ہوگا) اور اگر تم توبہ کرلو گے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جاویں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پائو گے اور نہ تم پر کوئی ظلم کرنے پائے گا‘‘۔ ( سورۃ البقر: 279)
حضرت ابوہریرہؓ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: سات ہلاک کرنے والی باتوں سے دور رہو۔ لوگوں نے پوچھا: یا رسولؐ اللہ وہ کون سی باتیں ہیں؟ فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور جادو کرنا اور اس جان کو ناحق مارنا جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے اور سود کھانا اور یتیم کا مال کھانا اور جہاد سے فرار ( یعنی بھاگنا) اور پاک دامن بھولی بھالی مومن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔ ( صحیح البخاری، کتاب الوصایا، باب قول اللہ تعالیٰ ان الذین یا کلون اموال الیتامی، 2766)۔
جس بستی میں سود ہوتا ہے وہ بستی سود کی وجہ سے ہلاک و برباد ہو جاتی ہے، حدیث شریف میں ہے: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے، اللہ تعالیٰ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ( کتاب الکبائر للذہبی، الکبیر الثانی عشر، ص:69، ط:دار الکتب العلمی)۔
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں، کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: جس شب مجھے (معراج میں) سیر کرائی گئی، میں ایک جماعت کے پاس سے گزرا جس کے پیٹ کمروں کے مانند تھے، ان میں بہت سے سانپ پیٹوں کے باہر سے دکھائی دے رہے تھے، میں نے کہا: جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ کہنے لگے کہ سود خور ہیں۔ ( سنن ابن ماجہ، کتاب التجار، باب التغلیظ فی الربا، 2273، ج:2، ص:763، ط:داراحیاء الکتب العربی)۔
سود کرنے کا گناہ ماں سے زنا کرنے کے گناہ سے بھی بدتر ہے، حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: سود میں ستر گناہ ہیں، سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے، جیسے مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔ ( سنن ابن ماجہ، کتاب التجار، باب التغلیظ فی الربا، 2274، ج:2، ص:763، ط:داراحیاء الکتب العربی)۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کی گواہی دینے والے اور اس کا معاملہ لکھنے والے سب پر لعنت فرمائی‘‘۔ ( سنن ابن ماجہ، کتاب التجار، باب التغلیظ فی الربا، 2277، ج:2، ص:764، ط:داراحیاء الکتب العربی)۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: لوگوں پر ایسا زمانہ ضرور آئیگا، کہ کوئی بھی ایسا نہ رہے گا جس نے سود نہ کھایا ہو اور جو سود نہ کھائے، اسے بھی سود کا غبار لگے گا۔ ( سنن ابن ماجہ، کتاب التجار، باب التغلیظ فی الربا، 2278)۔
ان آیات اور احادیث کی روشنی میں وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل پارلیمنٹ کو یہ سفارش بھی کر چکی ہے کہ ان قوانین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالا جائے لیکن افسوس کہ پارلیمنٹ کو کبھی وقت ہی نہیں ملا کہ ایسے قوانین میں ترامیم کرکے انہیں درست کرے۔ یہ پارلیمنٹ کی آئینی ذمہ داری ہے لیکن اس مسئلہ پر نہ حکمران بولتے ہیں اور نہ آپوزیشن کے نمائندے۔ ہمارا اسلامی آئین صرف دکھاوے کے لیے ہے، اُس پر سنجیدگی سے عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ موجودہ آئین کو بنے تقریباً 50سال ہو گئے ہیں لیکن ہم آج تک سودی نظامِ معیشت سے جان نہیں چھڑا سکے۔ باوجود اس کے کہ سودی نظام نے ہماری معیشت کو تباہ کر دیا ہے 30سال پہلے ہمارے سودی نظامِ معیشت کو وفاقی شرعی عدالت نے غیر اسلامی، غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دیا لیکن بدقسمتی سے اُس فیصلہ پر عملدرآمد کرنے کی بجائے نواز شریف حکومت نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ سپریم کورٹ کے شرعی اپیلیٹ بنچ نے کئی سال بعد، 1999۔2000میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کے حق میں آرڈر پاس کیا لیکن مشرف حکومت نے اس پر عملدرآمد کی بجائے سپریم کورٹ سے اس فیصلے کو 2001۔2002میں دوبارہ وفاقی شرعی عدالت کو واپس بھجوا دیا۔ ہمارے حکمران اس گناہ میں ملوث ہیں۔ یہ اللہ کو کیا جواب دیں گے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر ذمہ دار کو اس مسئلہ میں اپنے آپ سے ضرور کرنا چاہیے۔ یہ سوال نواز شریف کو اپنے آپ سے کرنا چاہیے، یہ سوال اُن کے بعد آنے والے دوسرے حکمرانوں بشمول مشرف، آصف علی زرداری اور عمران خان کو بھی اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے۔ پارلیمنٹ کے ممبران کو خود سے پوچھنا چاہیے۔ اور عوام کو یہ فیصلہ کرنا چاہئے کو سیاستدان اور حکمران اللہ تعالیٰ سے جنگ کے مرتکب ہیں انہیں آنے والے انتخابات میں اسی طرح نکالنا چاہئے جس طرح ہم چاہتے ہیں سویڈن کے سفیر کو ملک سے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button