ColumnTajamul Hussain Hashmi

تائیوان کی تتلیوں کا مقدر

تجمل حسین ہاشمی

سوشل میڈیا پر لاکھوں لائکس، ویوز اور کمنٹس دیکھے گئے جب بھی انسانوں نے جانوروں، حشرات الارض کے ساتھ اچھا برتائو کیا، انسان کو دوسری مخلوق کے ساتھ زندگی گزارنے کا فن سیکھنا چاہئے لیکن افسوس کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ انسان کو ڈسنے کیلئے انسان کی کافی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں زندگی گزارنے کے واضح احکامات ہیں، جس کو معاشرت کہتے ہیں، ترقی یافتہ ممالک دوسری مخلوق کو بھی اپنا شہری تصور کرتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کو زندگی گزارنے کا اتنا حق ہے جتنا انسانوں کو حاصل ہے، ترقی یافتہ ممالک سمجھتے ہیں کہ احساسات کا تعلق ہر زندہ مخلوق میں موجود ہے، جانور بات نہیں کر سکتے لیکن اپنی محبت اور نفرت کا اظہار تو کرتے ہیں۔ بہت مشہور واقعہ ہے کہ تائیوان میں ملک وید نامی تتلیاں بہت کثرت میں پائی جاتی ہیں۔ یہ تتلیاں سردیوں میں جنوب سے شمال کی طرف اپنا سفر شروع کر دیتی ہیں۔ کتابوں میں لکھا ہے یہ دنیا میں تتلیوں کی دوسری بڑی ہجرت ہے، یہ سفر صدیوں سے جاری ہے۔ ہمارے ملک میں بھی سائبیرین پرندے ہجرت کرکے آتے ہیں اور شکاری تیار بیٹھے ہوتے ہیں، 1970میں تائیوان نے شمالی حصہ کو جنوب سے ملانے کیلئے ایک بڑی شاہراہ بنائی۔ یہ تتلیاں ماہ اپریل کو سفر کرتی ہیں۔ 1979میں جب اپریل آیا تو انجینئرنگ بیورو کو خیال آیا کہ فری وے کی سڑک نمبر 3تتلیوں کے روٹ پر بنا دی گئی ہے، اس سال جب تتلیوں نے ہجرت شروع کی تو لاکھوں تتلیوں کا روڈ ایکسیڈنٹ ہونا شروع ہوگیا، لاکھوں تتلیاں مرنے لگیں۔ تتلی اپنے نازک پروں اور کمزور سانس کی وجہ سے اونچا نہیں اڑ سکتی۔ ایک این جی اوز نے حکومت تائیوان کے ساتھ ملکر سروے کیا تو پتہ چلا کہ ایک دن میں کوئی دس لاکھ تتلیاں اس سڑک پر پہنچتی ہیں اور صرف ایک لاکھ زندہ سلامت اپنی منزل شمالی وادیوں تک پہنچتی ہیں، حکومت تائیوان نے فری وے سڑک نمبر تین پر لمبا جال لگا دیا، جال لگانے کا مقصد تتلیوں کو محفوظ رکھنا تھا۔ اس جال سے کسی حد تک اموات میں کمی ہونے لگی لیکن جال مکمل طور پر کارآمد نہیں ہوا۔ حکومت نے لین نمبر3کو ایک ماہ کیلئے بند کر دیا۔ تائیوان حکومت نے دوسری مخلوق کی زندگی کو محفوظ رکھا۔ یہ منظر دیکھنے کیلئے ہزاروں لوگ موجود تھے، دنیا جانوروں، حشرات الارض کیلئے بھی سوچتی ہے ۔ کراچی کے نوجوان نجف نے زخمی کتیا جو دو بچوں کی ماں تھی، گاڑی سے زخمی ہوگئی، سارا دن درد سے کراہتی رہی، اہل علاقہ سے نجف نے اپیل کی لیکن کسی نے ساتھ نہ دیا، نوجوان نے کرایہ کے رکشہ پر ڈال کر میمن گوٹھ ہسپتال میں اس کا علاج کرایا، نجف انتہائی تکلیف میں تھا، تکلیف کی وجہ وہ فون کال تھیں جو لوگ اس کو کر رہے تھے، لوگوں نے اس کا مذاق بنا دیا، ہر کوئی اس کو کتے اٹھانے کی آوازیں لگاتا تھا۔ مجھے اس بات کا پتہ چلا، میں نے نجف نامی جوان سے ملاقات کی اور اس کو ہمت دی، ہمارے ہاں 22کروڑ عوام سے تائیوان کی تتلیاں اچھی ہیں، جہاں ان کے حقوق کا احترام ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک فیکٹری میں 260لوگوں زندہ جلا دیئے جاتے ہیں، 380کے قریب افراد یونان کے سمندر میں روزگار کے حصول میں اپنی جان گنوا بیٹھے، بلدیاتی نظام ناکام ہوچکا ہے، انسانی سمگلر آزاد اور بے خوف کیوں؟ ملک میں کوئی قانون اور اس کا اطلاق نہیں، لاپتہ اور پتہ کا خوف ہے، نسلہ ٹاور توڑ دیا، لاکھوں ایکڑ اراضی پر طاقتور قابض ہیں، قانون کی عمل داری کا مظاہرہ کمزور ہوگیا ہے۔ سچ کہنا جرم بن گیا ہے۔ زمینوں کے سوداگر کا نام لینے کی جسارت کوئی نہیں کر سکتا، سب زور والے زور میں ہیں، معاشی حالات میں ٹھہرائو نہیں ہے، اس ٹھہراو کو یقینی بنانے کیلئے جمہوری اور آمریت کی حکومتیں بھی ناکام رہیں۔ تین تین دفعہ حکمرانی کے بعد چوتھی بار 22کروڑ لوگوں کو ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘، ’’ووٹ کو عزت دو‘‘، ’’مدینہ کی ریاست‘‘ کے نعروں پر زندہ رکھا جارہا ہے۔ سینئر صحافی رئوف کلاسرا صاحب کہتے ہیں کہ آپ کچھ نہیں کر سکتے، اپنے ہاتھ، زبان سے ملک اور اپنے پڑوسی، رشتہ دار کو تکلیف نہ دیں، یہی ملک کے ساتھ حب الوطنی ہے۔ سچ کہا جناب لیکن مجھے اپنے دوست کی بات یاد آگئی، وہ سرکاری ملازم تھا، اکثر کہتا تھا کوئی کام ہو تو ضرور کہہ دینا، میں کہتا تھا کہ جناب میں شریف بندہ ہوں، مجھ کو کیا کام پڑ سکتا ہے، وہ کہتا تھا کہ شریف کو تو لوگ زیادہ تنگ کرتے ہیں، یقین کریں آج ایسی صورتحال ہے کہ شریف انسان کو اب اپنے گھر میں بھی سوالات کا سامنا رہتا ہے۔ زمانے کا شریفوں کے ساتھ کیسا برتائو ہوگا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، افراتفری معاشرہ کی کمر توڑ رہی ہے، سول ادارے عوامی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں، فنڈز کے استعمال میں طاقتور کا زور موجود ہے، چوتھا پلر بے بس ہوچکا ہے، اس کی آواز کو بند کر دیا گیا ہے،60فیصد نوجوان اپنے ہی ملک میں اپنے مستقبل کیلئے پریشان ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button