Abdul Hanan Raja.Column

احساس کی بیماری

عبد الحنان راجہ

گہرے سمندر میں ایڈونچر یقیناً دل گردے والوں کا ہی کام ہے اور سلیمان دائود نے فادرز ڈے کے موقع پر نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے والد کے ہم رکاب ہو کر حق محبت ادا کیا، سفر پر جانے والوں میں شہزادہ دائود، سلیمان دائود کے علاوہ اوشین گیٹ کمپنی کے سی ای او سٹاکٹن رش، برطانوی مہم جو ہمیش ہارڈنگ، فرانسیسی غوطہ خور پال ہنری بھی شامل تھے، کچھ تو متعدد بار سمندر کی گہرائیوں میں اتر چکے تھے مگر دائود فیملی پہلی بار اور شاید موت کے سفر پر گئی کہ کاتب تقدیر نے ہزاروں فٹ گہرے سمندر میں ہی انکی موت لکھی تھی، سو سلیمان اپنے والد کو کیسے انکار کرتا۔ اطلاعات ہیں کہ دائود فیملی نے اپنی دولت کا بڑا حصہ جدید تعلیم کے فروغ اور فلاحی سرگرمیوں بالخصوص صحت کے شعبہ کیلئے وقف کیا ہے، دنیا بھر اور بالخصوص پاکستان میں انہوں نے کئی ادارے قائم کئے، اہم یہ کہ اس خاندان کے بارے میں اپنی دولت اور اختیارات کے بل بوتے پر پاکستان کے روایتی سرمایہ داروں کی طرح ناجائز ذرائع سے آمدن کے حصول میں دلچسپی یا کوشش نظر نہیں آئی، پوری قوم انکی ناگہانی موت پر رنجیدہ ہے، اس میں شک نہیں بے پناہ سائنسی ترقی نے تجسس کے سفر کو مشاہدات اور تجربات تک پہنچایا اور جدید آلات کی بدولت ہوش اڑا دینے والی مہمات نے ماضی قریب کے ناقابل تسخیر کو قابل تسخیر بنا دیا کہ قدرت نے انسانی جبلت میں جستجو کا جو مادہ رکھا ہے یہ اسی کے کرشمات ہی ہیں، خلا کا سفر ہو یا برف پوش چوٹیاں کہ جہاں زندگی معدوم مگر کوہ پیما عقل کو دنگ اور انسانی اعصاب کو شل کر دینے والی سرد ہوائوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بلند چوٹیوں کو سر کرنے کے جنون میں جاتے ہیں تو کبھی انسانی شوق اور جستجو اسے گہرے سمندروں میں غوطہ زنی پر مجبور کرتی ہے، طریق اور وسائل کے فرق کے ساتھ مہمات پر جانے کا سلسلہ ازل سے جاری اور تا ابد رہے گا۔ انسانی تجسس ہی کائنات کے پوشیدہ رازوں سے پردہ اٹھانے میں ممدومعاون ثابت ہوتا ہے، تخلیق انسانی کے بعد سے لیکر آج تک جتنے جزائر خطوں اور دور دراز ممالک جن میں امریکہ بھی شامل ہے میں انسانی آباد کاری کا محرک انسانی تجسس ہی رہا، ہم پاکستانی اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کا ملبہ کولمبس کے سر ڈال سکتے ہیں کہ نہ وہ امریکہ دریافت کرتا اور نہ ہمارے خلاف سازشوں کا دروازہ کھلتا، ہم امریکی سازش کا اتنا رونا روتے ہیں کہ لگتا ہے امریکہ نے باقاعدہ ایک وزارت سازشیات برائے پاکستان قائم کر رکھی ہے مگر پھر بھی صد شکر کہ عائلی جھگڑوں میں وکلا اکثر طلاقوں کی وجہ امریکی سازش کو قرار نہیں دیتے، پہلی امریکی خلائی شٹل ان کے پیاروں کے سامنے ہی تباہ ہوئی مگر مہم جوئی ختم نہ ہوئی، چاند کو تسخیر کرنا مدتوں تخیل رہا اور بچوں کے پسندیدہ کردار جو اکثر وہ اپنی مائوں سے سنتے چلے آ رہے ہیں، چندا ماموں بارے کہانیاں آج بھی زیب داستاں ہیں مگر پھر دنیا نے چاند کو انسانی قدموں تلے دیکھا، گو کہ اس سفر پر جانے والوں کو اپنی زندہ واپسی کا یقین نہ تھا مگر خطروں کے کھلاڑی
کیا خوب کھیلے کہ زمین سے لاکھوں میل دور چاند کی زمین پر قدم رکھ کر آنے والی نسلوں کے لیے تحقیق اور جستجو کے نئے دروازے کھول دیئے، کہتے ہیں کہ تجسس تحقیق اور تجربات کے دروازے کھولتا ہے، آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لیکر آج تک انسان نے مشاہدات کی بے شمار منازل طے کیں، کامیابیاں ہوں یا ناکامیاں، ادھورا اور نامکمل سفر بھی اگلی نسلوں کو آمادہ بر تحقیق چھوڑ ہی دیتا ہے کہ انسان ارتقا کی منازل طے کرتا کرتا ہی آج سمندر کی28ہزار فٹ گہرائی میں باوجود تاریکی اور شدید دبائو کے بھی جا پہنچا۔ اس سفر میں پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر تبصروں نے سوچنے اور لکھنے پر مجبور کر دیا کہ بقول جون ایلیا ’’ بے حسی شرط ہے جینے کے لیے۔۔۔ اور ہم کو احساس کی بیماری ہے‘‘۔ سوشل میڈیا کے بے ہنگم استعمال نے زاویہ نگاہ ہی بدل ڈالے، سوچوں کے اضطراب اور رویوں کی سرد مہری نے ہماری اقدار اور روایات کو مسخ کر دیا، مشینی دور میں رہنے والوں کی سوچیں بھی مشینی ہو گئیں اور آہستہ آہستہ ہم احساس کی دولت سے تہی دامن ہونے لگے، بے حسی اتنی کہ انسانیت شرماتی نظر آتی ہے، اموات اور حادثات پر غیر مناسب تبصرے اور تجزیے اسی معاشرتی انحطاط کا منہ بولتا ثبوت ہیں حتیٰ کہ مخالف سوچ کے رہنمائوں کی اموات پر ذو معنی رائے زنی کرنا بھی معیوب نہ رہا، انسان اس وقت تک انسان کہلانے کے قابل کہ جب تک اس میں انسانیت کا جذبہ، بحیثیت قوم ہمیں کچھ اور بننے سے پہلے انسان بننا ہو گا۔ ’’ سماج سارا سو گیا ہے بے حسی کو اوڑھ کر، سپرد خاک ہو گیا بے حسی کو اوڑھ کر۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button