ColumnM Riaz Advocate

حج مبرور۔ لبیک اللھم لبیک

محمد ریاض ایڈووکیٹ

دین اسلام میں فرض عبادات میں ’’ حج‘‘ کو ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ یہ صاحب استطاعت پر فرض ہے، یعنی ہر وہ مسلمان جو فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے سفری اخراجات برداشت کر سکتا ہو اور اپنے اہل و عیال کے لئے اتنا سامان چھوڑ سکتا ہوکہ اسکی غیر موجودگی میں اہل و عیال اپنا قیام و طعام وغیرہ کا بخوبی بندوبست کر سکیں۔ حج کے فضائل میں قرآن مجید کی بہت سی آیات اور احادیث موجود ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ کریم کا ارشاد پاک ہے ’’ لوگوں میں حج ( کے فرض ہونے) کا اعلان کرو ( اس اعلان سے) لوگ تمہارے پاس ( یعنی تمہاری اس عمارت کے پاس حج کے لئے) چلے آئیں گے، پیدل چل کر بھی اور ایسی اونٹنیوں پر ( سوار ہوکر) بھی جو دور دراز راستوں سے چل کر آئی ہوں اور ( سفر کی وجہ سے) دبلی ہوگئی ہوں تاکہ یہ آنے والے اپنے منافع حاصل کریں ( سورۃ الحج)۔ ایک حدیث کے مطابق جب حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت اللہ یعنی خانہ کعبہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو بارگاہ خداوندی میں عرض کیا کہ تعمیر سے فراغت ہوچکی ہے اس پر اللہ جل شانہ کی طرف سے حکم ہوا کہ لوگوں میں حج کا اعلان کرو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا کہ یااللہ میری آواز کس طرح پہنچے گی، اللہ پاک نے فرمایا کہ آواز کا پہنچانا ہمارے ذمہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اعلان فرمایا جس کو آسمان و زمین کے درمیان ہر چیز نے سنا۔ دوسری حدیث مبارکہ کے مطابق جس شخص نے بھی خواہ وہ پیدا ہوچکا تھا یا ابھی تک عالم ارواح میں تھا اس وقت لبیک کہا وہ حج ضرور کرتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جس نے ایک مرتبہ لبیک کہا ہو ایک حج کرتا ہے جس نے اس وقت دو مرتبہ لبیک کہا وہ دو حج کرتا ہے اور اسی طرح جس نے اس سے زیادہ جتنی مرتبہ لبیک کہا اتنے ہی حج اسکو نصیب ہوتے ہیں۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ جو شخص اللہ کے لئے حج کرے اس
طرح کہ اس حج میں نہ رفث ہو ( یعنی فحش بات) اور نہ فسق ہو (یعنی حکم عدولی) وہ حج سے ایسا واپس ہوتا ہے جیسا اس دن تھا جس دن ماں کے پیٹ سے نکلا تھا۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالی عرفہ کے دن سے زائد بندوں کو جہنم سے نجات دیتے ہوں۔ یعنی جتنی کثیر مقدار کو عرفہ کے دن خلاصی ہوتی ہے اتنی کثیر تعداد کسی اور دن کی نہیں ہوتی۔ حق تعالی شانہ ( دنیا کے) قریب ہوتے ہیں پھر فخر کے طور پر فرماتے ہیں یہ بندے کیا چاہتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ حق تعالی شانہ فرماتے ہیں یہ میرے بندے بکھرے ہوئے بالوں والے میرے پاس آئے ہیں میری رحمت کے امیدوار ہیں ( اسکے بعد بندوں سے خطاب فرماتے ہیں) اگر تمہارے گناہ ریت کے ذروں کے برابر ہوں اور آسمان کی بارش کے قطروں کے برابر ہوں اور تمام دنیا کے درختوں کے برابر ہوں تب بھی بخش دیئے جائو، بخشے بخشائے اپنے گھر چلے جائو۔ ایک اور حدیث کے مطابق کہ جس شخص نے ایک حج کیا اس نے اپنا فریضہ ادا کیا اور جس شخص نے دوسرا حج کیا اس نے اللہ کو قرض دیا اور جو تین حج کرتا ہے تو اللہ جل شانہ اسکی کھال کو اسکے بال کو آگ پر حرام کر دیتا ہے۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ غزوہ بدر کا دن تو مستثنیٰ ہے اسکو چھوڑ کر کوئی دن عرفہ کے دن کے علاوہ ایسا نہیں جس میں شیطان بہت ذلیل ہورہا ہو، بہت راندہ پھر رہا ہو، بہت حقیر ہورہا ہو، بہت زیادہ غصہ میں بھر رہا ہو اور یہ سب کچھ اس وجہ سے کہ عرفہ کے دن میں اللہ کی رحمتوں کا کثرت سے نازل ہونا، بندوں کے بڑے بڑے گناہوں کا معاف ہونا دیکھتا ہے۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ حاجی کی سفارش چار سو گھرانوں میں مقبول ہوتی ہے یا یہ فرمایا کہ اسکے گھرانے میں سے چار سو آدمیوں کے بارے میں قبول ہوتی ہے ( راوی کو شک ہوگیا کہ کیا الفاظ فرمائے تھے) اور یہ بھی فرمایا کہ حاجی اپنے گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے جیسا کہ پیدائش کے دن تھا۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ جب کسی حاجی سے ملاقات ہوتو اسکو سلام کرو، اس سے مصافحہ کرو اور اس سے پہلے کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہو، اپنے لئے دعائے مغفرت کی اس سے درخواست کرو کہ وہ اپنے گناہوں سے پاک صاف ہوکر آیا ہے۔ نبی کریم ؐ کا ارشاد کہ حج میں خرچ کرنا جہاد میں خرچ کرنے کی طرح سے ایک روپیہ کے بدلہ سات سو (روپیہ) ہے۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ جو شخص حج کے لئے جائے اور راستہ میں انتقال کر جائے اسکے لئے قیامت تک حج کا ثواب لکھا جائے گا اور اسی طرح جو شخص عمرہ کے لئے جائے اور راستہ میں انتقال کر جائے اسکو قیامت تک عمرہ کا ثواب ملتا رہے گا اور جو شخص جہاد کے لئے نکلے اور راستہ میں انتقال کر جائے اسکے لئے قیامت تک مجاہد کا ثواب لکھا جائے گا۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ جس شخص کے پاس اتنا خرچ ہو اور سواری کا انتظام ہو کہ بیت اللہ شریف جاسکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں اس بات میں کہ وہ یہودی ہو کر مرجائے یا نصرانی ہوکر۔ اسکے بعد نبی کریمؐ نے اپنے اس ارشاد کی تائید میں یہ آیت پڑھی جسکا ترجمہ یہ ہے کہ ’’ اور اللہ جل شانہ کے (خوش کرنے کے) واسطے لوگوں کے ذمہ اس مکان ( یعنی بیت اللہ) کا حج (فرض) ہے، اس شخص کے ذمہ ہے جو وہاں جانے کی سبیل رکھتا ہو اور جو منکر ہو تو ( اللہ جل شانہ کا کیا نقصان ہے) اللہ تعالیٰ تمام
جہان سے غنی ہے (انکو کیا پرواہ)۔
فضائل کعبہ:
کعبہ یعنی بیت اللہ شریف، اس خاص مقام کے بہت سے فضائل قرآن پاک اور احادیث میں آئے ہیں۔ سورۃ آل عمران میں اللہ کریم کا ارشاد پاک ہے (ترجمہ) یقیناً وہ مکان جو سب سے پہلے لوگوں ( کی عبادت) کے واسطے مقرر کیا گیا وہ مکان ہے جو مکہ میں ہے یعنی کعبہ شریف برکت والا مکان ہے اور تمام لوگوں کے لئے ہدایت ( کی چیز) ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ اس میں بہت سی کھلی نشانیاں ( اسکی افضلیت کی) موجود ہیں اس میں مقام ابراہیم ہے‘‘۔ یاد رہے مقام ابراہیم وہ پتھر ہے کہ جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر کی تھی۔ ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ اور جو شخص اسکے ( یعنی حرم کی حدود کے) کے اندر داخل ہوجائے وہ امن والا ہوجاتا ہے‘‘۔ سورۃ بقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جس وقت کہ ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے لئے مرجع بنایا اور امن (کی جگہ)‘‘۔ ’’ اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب کہ بلند کر رہے تھے ابراہیم علیہ السلام دیواریں کعبہ شریف کی اور انکے ساتھ مدد کر رہے تھے اسمٰعیل علیہ السلام اور یہ کہتے جارہے تھے اے ہمارے رب یہ خدمت ہماری قبول کر لیجئے۔ بلاشبہ آپ خوب سننے والے ہیں ( دعائوں کے) اور خوب جاننے والے ہیں ( لوگوں کے حالات اور نیتوں کو)‘‘ ۔ دنیا کے اس عظیم مقام کی عظمت کے کیا ہی کہنے، ماشا ء اللہ، سبحان اللہ کہ جس عمارت کے بنانے کا حکم دینے والی ذات یعنی اللہ کریم ہو جو کہ پوری کائنات کا مالک و خالق ہے اور جس مکان کی ابتدائی تعمیر حضرت آدم علیہ السلام نے کی ہو۔ جس عمارت کا نقشہ امام ملائکہ یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام بنائیں اور جس کی تعمیر نبی کریمؐ کے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی ہو اور اس تعمیر میں معمار کعبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ساتھ دینے والے عظیم پیغمبر حضرت اسماعیل علیہ السلام ہوں اور جس عمارت کی تعمیر نو میں امام الانبیاء جناب حضرت محمد مصطفیؐ شریک ہوئے ہوں۔ ماشاء اللہ، اللہ اکبر کبیرا ۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ اللہ جل شانہ کی ایک سو بیس رحمتیں روزانہ اس گھر پر نازل ہوتی ہیں جن میں سے ساٹھ طواف کرنے والوں پر اور چالیس وہاں نماز پڑھنے والوں پر اور بیس بیت اللہ کو دیکھنے والوں پر ہوتی ہیں۔ نبی کریمؐ قسم کھا کر ارشاد فرماتے ہیں کہ حجر اسود کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایسی حالت میں اُٹھائیں گے کہ اسکی دو آنکھیں ہونگی جن سے وہ دیکھے گا اور زبان ہوگی جس سے وہ بولے گا اور گواہی دے گا اس شخص کے حق میں جس نے اسکو حق کے ساتھ بوسہ دیا۔ حق کے ساتھ بوسہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ ایمان اور تصدیق کے ساتھ بوسہ دیا ہو۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ حجر اسود جب جنت سے دنیا میں اترا تو وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا آدمیوں کی خطائوں نے اسکو کالا کر دیا۔ یعنی لوگوں نے جو اسکو گناہوں سے آلودہ ہاتھوں سے چھوا تو انکے گناہوں کی تاثیر سے وہ سیاہ ہوگیا۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ رکن یمانی ( کعبہ کی دیوار کا کونہ) پر ستر فرشتے مقرر ہیں جو شخص وہاں جا کر یہ دعا پڑھے (ترجمہ) اے اللہ میں تجھ سے معافی کا طالب ہوں اور دونوں جہاں میں عافیت مانگتا ہوں، اے اللہ تو دنیا میں بھی بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی اور جہنم کے عذاب سے حفاظت فرما۔ تو فرشتے اسکی دعا پر آمین کہتے ہیں۔ حجر اسود سے لیکر کعبہ شریف کے دروازہ تک کا حصہ ملتزم کہلاتا ہے، اسکے بارے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نبی کریمؐ سے نقل کرتے ہیں کہ ملتزم ایسی جگہ ہے جہاں دعا قبول ہوتی ہے، کسی بندہ نے وہاں ایسی دعا نہیں کی جو قبول نہ ہوئی ہو۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ آدمی اگر اپنے گھر پر نماز پڑھے تو صرف ایک نماز کا ثواب ملتا ہے اور محلہ کی مسجد میں پچیس گنا ثواب ملتا ہے اور جامع مسجد میں پانچ سو گنا ثواب زیادہ ہوتا ہے اور بیت المقدس کی مسجد میں دس ہزار نمازوں کا ثواب ہے اور میری مسجد یعنی مسجد النبی میں پچاس ہزار کا ثواب ہے اور مکہ مکرمہ کی مسجد میں ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ہے۔ جیسا کہ مکہ مکرمہ میں نیکیوں کا ثواب بہت زیادہ ہے ایسے ہی وہاں گناہ کا وبال بھی سخت ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرا دل چاہتا تھا کہ میں کعبہ شریف کے اندر جائوں اور اندر جاکر نماز پڑھوں، نبی کریمؐ نے میرا ہاتھ پکڑکر حطیم میں داخل کر دیا اور فرمایا کہ جب تیرا کعبہ میں داخل ہونے کو دل چاہا کرے تو یہاں آکر نماز پڑھ لیا کر، یہ کعبہ ہی کا ٹکڑا ہے۔ تیری قوم نے جب کعبہ کی تعمیر کی تو اس حصہ کو ( خرچ کی کمی کی وجہ سے) کعبہ سے باہر کر دیا تھا۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ زم زم کا پانی جس نیت سے پیا جائے وہی فائدہ اس سے حاصل ہوتا ہے۔ کعبہ شریف کے فضائل میں طواف جیسی مخصوص عباد ت کا ہونا بھی شامل ہے۔ طواف اک ایسی مخصوص عبادت ہے جو صرف اور صرف کعبہ شریف ہی میں ہوسکتی ہے۔ نبی کریمؐ کی اس شہر سے محبت کا اندازہ اس حدیث مبارک سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ نبی کریمؐ نے ہجرت کے موقع پر مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تو کتنا بہتر شہر ہے اور مجھ کو کتنا زیادہ محبوب ہے، اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو تیرے سوا کسی دوسری جگہ قیام نہ کرتا۔
مناسک حج
حج کی تین اقسام ہیں جن میں حج قران، حج تمتع اور حج افراد۔ حج قران میں حاجی حضرات عمرہ اور حج کا احرام اکٹھا پہنتے ہیں ۔ پہلے عمرہ ادا کرتے ہیں اور پھر حج کے ارکان ادا کرنے کے بعد احرام کھولتے ہیں۔ حج تمتع میں حاجی حضرات صرف عمرے کا احرام پہن کر عمرہ کی ادائیگی کے بعد احرام کھول دیتے ہیں اور پھر ایام حج یعنی8ذوالحج کو حج کا احرام باندھ کر مناسک حج کی ادائیگی کرتے ہیں جبکہ حج افراد میں حاجی حضرات صرف حج کی نیت سے احرام پہن کر مکہ شریف میں داخل ہوتے ہیں اور مناسک حج کی ادائیگی کے بعد احرام کھول دیتے ہیں۔ ایام حج8ذوالحج سے شروع ہوکر12ذوالحج کو اختتام پذیر ہوتے ہیں اور بعض صورتوں میں13ذوالحج کو مکمل ہوتے ہیں۔ حج کے پانچ لازمی ایام ہیں۔ حج کے پہلے دن یعنی8ذوالحج کو حجاج کرام احرام پہن کر منیٰ میں دوپہر تک پہنچتے ہیں۔ منیٰ میں ظہر، عصر، مغرب ، عشاء اور اگلی صبح فجر کی نمازوں کی ادائیگی اور رات کو منیٰ میں قیام کرنا سنت ہے۔ حج کا دوسرا دن یعنی9ذوالحج عرفہ کا دن کہلاتا ہے ، اس دن حج کا رکن اعظم یعنی میدان عرفات میں قیام کرنا ہے جسے وقوف عرفات کہتے ہیں اور وقوف عرفات کی ادائیگی کے بغیر حج ادا نہیں ہوتا۔ طلوع آفتاب کے بعد حجاج کرام منیٰ سے عرفات کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ میدان عرفات میں حجاج کرام ظہر کی نماز سے پہلے حج کا خطبہ سماعت فرماتے ہیں اور ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کرتے ہیں۔ زوال سے لیکر غروب آفتاب تک میدان عرفات کے کسی بھی حصہ میں وقوف کیا جاسکتا ہے۔ عرفات کے یہ چند گھنٹے پورے حج کا نچوڑ ہیں۔ افضل اور اعلی تو یہ ہے کہ آپ قبلہ رخ کھڑے ہوکر وقوف کریں، تھک جائیں تو کچھ دیر بیٹھ کر پھر کھڑے ہوجائیں، پورے خشوع و خضوع اور عاجزی کے ساتھ ذکر الٰہی، قرآن پاک کی تلاوت، درود شریف اور استغفار میں مشغول رہیں۔ وقفہ وقفہ سے تلبیہ یعنی لبیک اللھم لبیک بھی پکارتے رہیں۔ خوب رو رو کر نبی کریمؐ ، اہل بیتؓ، صحابہ کرامؓ کے درجات کی بلندی، اپنے لئے، اپنے اہل و عیال کے لئے اور پوری امت رسول کی مغفرت کے لئے دعائیں مانگیں کیونکہ یہ دعائوں کی قبولیت کا وقت ہے۔ وقوف عرفات میں ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنا سنت ہے۔ غروب آفتاب کے بعد مغرب کی نماز پڑھے بغیر میدان عرفات چھوڑ کر مزدلفہ کی طرف روانہ ہوا جاتا ہے اور مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشا کی نمازوں کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ کھلے آسمان تلے مزدلفہ کے میدان میں رات کے وقت ذکر و اذکار کرنا اور سونا سنت موکدہ ہے اور مزدلفہ کی یہ رات شب قدر سے افضل شمار ہوتی ہے اور اسی جگہ سے رمی ( جمرہ یعنی شیطان کو مارنے ) کے لئے کنکریاں بھی اکٹھی کی جاتی ہیں اور ہر حاجی تقریباً70کے قریب کنکریاں اکٹھی کرتا ہے۔ حج کے تیسرے دن یعنی10ذوالحج کو حجاج کرام کے ذمہ کئی مناسک ادا کرنا واجب ہیں۔ فجر کی نماز اول وقت یعنی اندھیرے میں ادا کرکے طلوع آفتاب سے پہلے پہلے مزدلفہ میں وقوف کرنا، وقوف مزدلفہ میں حجاج کرام کثرت سے تلبیہ، تکبیر، درود شریف، توبہ استغفار کرتے اور خوب دعائیں مانگتے ہیں۔ سورج نکلنے کے قریب حجاج کرام منیٰ کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ منیٰ میں پہنچ کر حجاج کرام سب سے پہلا کام بڑے جمرہ عقبہ یعنی بڑے شیطان کو7کنکریاں مارتے ہیں (اس عمل کر رمی کہا جاتا ہے)۔ یاد رہے احرام باندھنے سے لیکر رمی شروع کرنے سے پہلے تک تلبیہ پڑھا جاتا ہے، اب یہ سلسلہ ختم کر دیا جائے گا۔ حج تمتع اور حج قرآن کرنے والے حجاج کرام پر جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد قربانی (دم شکر) کرنا واجب ہے۔ قربانی کے بعد حجاج کرام اپنے سر کے بال منڈواتے یا پھر سر کے بال کٹواتے ہیں۔ حجاج کرام غسل کرتے ہیں، صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں اور خوشبو لگا کر طواف زیارت کے لئے کعبہ شریف کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ یاد رہے قربانی کی ادائیگی اور سر کے بال منڈوانے یا کٹوانے کے بعد حجاج کرام پر احرام کی پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں ماسوائے زوجین کے باہمی تعلق کو قائم کرنا۔ زوجین اپنا باہمی تعلق طواف زیارت کی ادائیگی کے بعد ہی قائم کر سکتے ہیں۔ طواف زیارت10ذوالحج کو کرنا افضل ہے اور12ذوالحج کے غروب آفتاب تک ادا کر لینا واجب ہے۔ طواف زیارت کے بعد حجاج کرام حج کی سعی ( یعنی صفا اور مروہ کے درمیان 7چکر پورے) کرتے ہیں۔ طواف زیارت اور سعی کے بعد حجاج کرام دوبارہ منیٰ واپس چلے جاتے ہیں۔ حج کا چوتھا اور پانچواں دن: ذوالحج کی گیارہویں اور بارہویں تاریخوں کو حجاج کرام زوال کے بعد سے لیکر غروب آفتاب تک تینوں جمروں پر رمی یعنی سات سات کنکریاں مارتے ہیں۔ حجاج کرام بارہویں ذوالحج کے غروب آفتاب سے پہلے پہلے منیٰ کو چھوڑ کر مکہ کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ اگر کوئی حاجی غروب آفتاب تک منیٰ نہیں چھوڑتا تو پھر اس حاجی کو13ذوالحج تک مزید منیٰ میں قیام کے ساتھ ساتھ تینوں جمروں پر رمی کرنا ہو گی۔ ان دنوں میں بھی حجاج ذکر الٰہی میں مصروف رہتے ہیں۔ الحمداللہ، حج کے تمام مناسک ادا ہوگئے ماسوائے طواف وداع۔ مکہ سے روانگی سے قبل حجاج کرام پر الوداعی طواف کرنا واجب ہے۔ درحقیقت مناسک حج کی ادائیگی حکم الٰہی کی تابع داری کا نام ہے۔
فضائل زیارت مسجد نبوی و روضہ رسولؐ
حج کی ادائیگی کے بعد محبوب ترین اور مقبول ترین عمل خاتم النبیین آقا دو عالم رحمت دو جہاں کے شہر مدینہ منورہ کا سفر ہے، مسجد نبویؐ میں نمازوں کی ادائیگی اور خصوصاً نبی کریمؐ کے روضہ اطہر کی زیارت باعث سعادت اور بخشش کا ذریعہ ہے۔ حضرت ابن عمرؓ نبی کریمؐ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جس شخص نے میری قبر کی زیارت کی اسکے لئے میری شفاعت ضروری ہوگئی۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ جو میری زیارت کو آئے اور اسکے سوا کوئی اور نیت اسکی نہ ہو تو مجھ پر حق ہوگیا کہ اسکی سفارش کروں۔ دنیا میں ایسا کون شخص ہوگا جس کو محشر کے ہولناک منظر میں نبی ﷺ کی شفاعت کی ضرورت نہ ہو اور کتنا خوش قسمت ہے وہ شخص جسکے متعلق نبی کریمؐ یہ فرما دیں کہ اسکی شفاعت میرے ذمہ ضروری ہے۔ مشکوٰۃ شریف میں ارشاد نقل کیا گیا کہ جس شخص نے حج کیا پھر میری قبر کی زیارت کی وہ مثل اس شخص کے ہے جس نے میری زندگی میں زیارت کی ہو۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ جو شخص ارادہ کرکے میری زیارت کرے وہ قیامت میں میرے پڑوس میں ہوگا اور جو شخص مدینہ میں قیام کرے اور وہاں کی تنگی اور تکلیف پر صبر کرے میں اسکے لئے قیامت میں گواہ اور سفارشی ہوں گا اور جو حرم مکہ مکرمہ یا حرم مدینہ میں مر جائے گا وہ قیامت میں امن والوں میں اُٹھے گا۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ جو شخص بھی میری قبر کے پاس آکر مجھ پر سلام کرے تو اللہ جل شانہ میری روح مجھ تک پہنچا دیتے ہیں، میں اسکے سلام کا جواب دیتا ہوں، ’’ میری روح مجھ تک پہنچانے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ بولنے کی قوت عطا فرما دیتے ہیں اور ایک ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص نبی کریمؐ کی قبر مبارک کے پاس کھڑے ہوکر یہ آیت پڑھے۔ ترجمہ بے شک اللہ اور اسکے فرشتے نبی کریمؐ پر درود بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والوں تم بھی نبی کریمؐ پر درود بھیجو۔ اسکے بعد70مرتبہ صلی اللہ علیک یا محمدؐ کہے تو ایک فرشتہ کہتا ہے کہ اے شخص اللہ جل شانہ تجھ پر رحمت نازل کرتا ہے اور اسکی ہر حاجت پوری کردی جاتی ہے۔ سفر مدینہ کے دوران خاص طور پر مسجد نبویؐ اور روضہ رسولؐ کی زیارت کی خلوص دل سے نیت کرنا چاہئے۔ کثرت سے درود شریف بار بار پڑھیں۔ مسجد نبوی و روضہ رسولؐ کی زیارت بارے درج ذیل واقعہ ہماری بہترین رہنمائی کرتا ہے۔ قبیلہ عبدالقیس کا وفد جب نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی کریمؐ کو دور سے دیکھ کر سب لوگ شوق و اضطراب میں اونٹوں سے کود پڑے اور اونٹ چھوڑ کر نبی کریمؐ کی بارگاہ میں دوڑ پڑے لیکن اس وفد کے رئیس منذربن عائد جس کو اشج عبدالقیس سے تعبیر کرتے ہیں وہ اونٹوں کے ساتھ جائے قیام پر پہنچے اور اپنا اور سب ساتھیوں کا سامان جمع کیا اور احتیاط سے رکھا اسکے بعد غسل کیا، نئے کپڑے پہنے اور آہستہ آہستہ وقار کے ساتھ مسجد نبوی میں حاضر ہوئے۔ اول دو رکعت تحی المسجد پڑھی اور دعا کی، پھر نبی کریمؐ کی مجلس میں حاضر ہوئے۔ نبی کریمؐ نے انکی اس ادا کو پسند فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ تم میں دو خصلتیں ایسی ہیں جو اللہ جل شانہ کو پسند ہیں۔ ایک حلم یعنی بردباری اور دوسرے وقار۔ بعض علماء نے مسجد نبوی میں داخل ہونے سے پہلے کچھ صدقہ کرنے کی ترغیب بھی دی ہے۔ مسجد نبویؐ اور روضہ رسولؐ پر حاضری کے دوران ادب کا دامن کبھی بھی ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہئے۔ کیونکہ یہ مقام ادب ہے، سورۃالحجرات میں ہمارے لئے واضح ہدایات موجود ہیں۔ ترجمہ: اے ایمان والو!تم اپنی آوازیں نبی کریمؐ کی آواز سے اونچی نہ کرو اور نہ آپ سے ایسے زور سے گفتگو کرو جیسا کہ آپس میں ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں۔ ( ایسا نہ ہوکہ اس حرکت سے) تمہارے ( پہلے کئے ہوئے نیک) عمل برباد ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ حضرت شیخین حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے درمیان کسی مشورہ کی گفتگو میں جو نبی کریمؐ کی مجلس میں تھی اختلاف رائے کی وجہ سے تیز گفتگو ہوگئی تھی جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جب حضرات شیخینؓ پر یہ عتاب ہے تو ہم تم کس شمار میں ہیں۔ احادیث میں آیا ہے کہ اس آیت شریفہ کے بعد نبی کریمؐ کی مجلس میں حضرت عمرؓ کی آواز ایسی ہوتی کہ بعض اوقات مکرر پوچھنا پڑتا کہ کیا کہا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ، میں تو اب سے آپ سے اس طرح گفتگو کروں گا جیسا کہ کوئی راز کی بات کرتا ہو۔ علماء کرام کے نزدیک زائرین کو چاہئے کہ بہت کثرت سے دعائیں مانگیں اور نبی کریمؐ کا وسیلہ پکڑیں اور نبی کریمؐ سے شفاعت چاہیں کہ کچھ روایات میں یہ مرکوز ہے کہ روضہ رسولؐ پر کھڑے ہوکر سلام کے بعد یہ دعا کی جائے۔ اے اللہ کے رسولؐ میں آپ سے شفاعت چاہتا ہوں اور آپکے وسیلہ سے اللہ سے یہ مانگتا ہوں کہ میری موت آپ کے دین اور آپ کی سنت پر ہو۔ مسجد نبویؐ کے اہم ترین مقامات یعنی ریاض الجنۃ میں نہایت ادب سے نوافل کی ادائیگی کی جائے، مدینہ منورہ میں موجود دیگر مقدس ترین مقامات مسجد قبا، مسجد قبلہ تین، مزارات شہدا غزوہ احد، جنت البقیع، مقام غزوہ خندق، بیر عثمانؓ ، مسجد ابوبکرؓ، مسجد علیؓ وغیرہ کی انتہائی ادب و احترام سے زیارت کی جائے ۔ اللہ کریم مجھ سمیت تمام امت رسول کو حج بیت اللہ کی سعادت نصیب فرمائے اور نبی کریمؐ کے روضہ پر جاکر درود و سلام کے نذرانے پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ کریم تمام حجاج کرام کے مناسک حج کی ادائیگی اور روضہ رسولؐ پر حاضری قبولیت کا درجہ عطا فرمائے اور حج مبرور کا درجہ عطا فرمائے۔ اللہ کرے کہ حجاج کرام کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوجائے کہ وہ آئندہ زندگی میں حقوق اللہ و حقوق العباد کی صحیح معنوں میں ادائیگی کرنے والے بن جائیں اور پکے سچے عاشق رسول بن جائیں۔ آمین ثم آمین ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button