ColumnMazhar Ch

عوامی مزاج میں تبدیلی۔۔

مظہر چودھری

کوئی شک نہیں کہ سیاست میں شروع دن سے پاکستانی عوام متلون مزاج واقع ہوئے ہیں لیکن گزشتہ ایک ڈیڑھ سال کے دوران ملکی سیاست میں ہونے والی ڈرامائی تبدیلیوں میں عوامی مزاج کافی حد تک بدلا بدلا محسوس ہوتا رہا ہے۔ سیاست میں پاکستانی عوام کے تبدیل ہوتے مزاج پر سیر حاصل گفتگو کرنے سے پہلے ہمیں متلون مزاجی کی سادہ سی تعریف ضرور کر لینی چاہیے۔ متلون مزاجی سے مراد ایسا مزاج ہے جس میں ٹھہرائو نہ ہو یا جو ہر قدم تبدیلی کی طرف مائل ہو۔ اسکے مقابلے میں مستقل مزاجی کا لفظ آتا ہے جس کے معنی طبیعت کی ثابت قدمی یا ٹھہرائو ہے۔ انسان نے فطری طور پر ایسی طبیعت پائی ہے کہ وہ یکسانیت سے اکتاہٹ محسوس کرتی ہے اور تبدیلی کی طرف مائل رہتی ہے۔ انسانی مزاج کا مذکورہ بالا وصف اس کی خوبی بھی ہے اور خامی بھی۔ یکسانیت سے اکتاہٹ محسوس کرنے والے اس وصف کی غیر موجودگی میں ہماری زندگی حرکت و تنوع سے محروم ہو کر ساکت و جامد ہو جاتی ۔ مزاج میں کسی حد تک اس وصف کی موجودگی انسان کو دائمی یکسانیت سے بچانے کیلئے ضروری ہے لیکن یکسانیت سے بیزاری اور اکتاہٹ والا مزاج حد سے بڑھ جائے تو اسے متلون مزاجی کہتے ہیں۔ ویسے تو متلون مزاجی کو کسی خاص گروہ، قوم یا خطے کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جا سکتا کہ ہر گروہ، قوم یا خطے میں متلون مزاج کے حامل افراد پائے جاتے ہیں لیکن سیاسی و عمرانی ماہرین کے مطابق دنیا کے کچھ گروہوں، قوموں اور خطوں میں متلون مزاجی دیگر قوموں اور خطوں کے مقابلے میں کم یا زیادہ ہو سکتی ہے ۔ سیاسی و عمرانی ماہرین کے مطابق ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں ترقی پزیر اور پسماندہ ممالک کے لوگ زیادہ متلون مزاج ہوتے ہیں۔
ویسے تو متلون مزاجی کسی بھی لحاظ سے اچھا وصف نہیں لیکن سیاسی معاملات میں کسی قوم کا متلون مزاج ہونا ملکی ترقی و خوشحالی کی منزل میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ سیاسی طور پر متلون مزاج قوموں کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک طرف تو کسی بھی نظام کو مستقل طور پر اپنانے میں ناکام رہتی ہیں تو دوسری طرف اپنے ہی ووٹوں سے منتخب کردہ حکمرانوں سے بہت جلد بیزاریت کا شکار ہوجاتی ہیں۔ پاکستان کی 71سالہ سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو پاکستانی قوم کی متلون مزاجی کا مشاہدہ کرنا چنداں مشکل نہیں رہتا۔ ملک میں جب جب حکومتوں یا ان کے سربراہوں کو منتخب صدور، فوجی آمروں یا عدالتوں نے برطرف کیا تو عوامی سطح پر زیادہ تر خوشی کا اظہار ہی دیکھنے میں آیا۔ فوجی آمریتوں کے درمیان قائم ہونے والی منتخب عوامی حکومتوں سے بھی عوام کو بہت جلد بیزار ہوتے دیکھا گیا۔ تبدیلی کی دعوے دار حکومت کو آئے ابھی چھ ماہ نہیں ہوئے تھے کہ میڈیا سمیت عوام کی ایک بڑی تعداد نے اس سے بیزار ی کا اظہار کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ اس حکومت میں ملکی و عوامی مسائل حل کرنے کی اہلیت ہی نہیں۔ تبدیلی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیج کے پی ڈی ایم نے جب حکومت بنائی تو متعدد وجوہات کی بنا پر عوام کی ایک بڑی تعداد اس سے بیزار ہوتی گئی۔
کوئی مانے نہ مانے لیکن حقیقت یہی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے ہٹائے جانے کے عمل کو عوامی سطح پر پزیرائی حاصل ہونے کی بجائے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی منتخب سیاسی حکومت کے فارغ کئے جانے پر عوامی سطح پر خوشی کے اظہار کی بجائے بیزاریت دیکھنے کو ملی۔ کوئی شک نہیں کہ تبدیلی حکومت کے ابتدائی دو سال میں ہونے والی بڑھنے والی مہنگائی، غربت اور بے روزگاری نے عام عوام کو بیزار کر دیا تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجنے کے عمل کو زیادہ تر لوگوںنے پسند نہیں کیا۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال یہی تھا کہ ماضی کی دو حکومتوں سمیت پی ٹی آئی حکومت کو بھی اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع ملتا۔ عدم اعتماد کے بعد پی ٹی آئی کو ملنے والی بتدریج عوامی ہمدردی اور وقت کے ساتھ ساتھ حکومت کے حصے میں آنے والی عوامی بیزاریت کی کچھ اہم وجوہات ہیں۔ پی ٹی آئی کو ملنے والی عوامی ہمدردی کی ایک وجہ پی ٹی آئی کی جانب سے کیا جانے والا کامیاب پروپیگنڈا رہا کہ اس کی حکومت گرانے کے لئے عالمی و ملکی اسٹیبلشمنٹ اور سب سیاسی جماعتوں نے ایکا کر لیا ہے۔ دوسرے نمبر پر اقتدار ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر پی ٹی آئی سربراہ کی جانب سے پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں کی جانے والی کمی رہی۔ اگرچہ سابق وزیراعظم نے پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں کی کمی سیاسی حربے کے طور پر کی تھی لیکن اس میں شک نہیں کہ ان کا یہ حربہ توقع سے زیادہ کارگر ثابت ہوا۔ کوئی شک نہیں کہ سیاسی حربے کے طور پر پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں کی جانے والی کمی دگرگوں ملکی معیشت پر خودکش حملہ تھا۔ پی ڈی ایم حکومت جلد پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں کی جانے والی کمی واپس نہ لیتی تو معیشت کا حقیقت میں دیوالیہ نکل جاتا۔ معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے بعد ازاں پی ڈی ایم حکومت نے جب پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں متعدد بار اضافے کئے تو عام عوام بھی حکومت سے بیزار ہو کر پی ٹی آئی سے ہمدردی جتانے لگے۔
رہی سہی کسر پنجاب میں انتخابات سے پہلو تہی کے معاملے نے نکال دی۔ اگرچہ پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کی تحلیل بھی سیاسی حربے کے طور پر کی گئی اور بعد ازاں یہ اقدام پی ٹی آئی کو بہت مہنگا بھی پڑا لیکن اس اقدام کی سیاسی قیمت چکانے سے پہلے پی ٹی آئی نے بہت کچھ حاصل بھی کیا۔ عوامی سطح پر اس تاثر کو تقویت ملی کہ پی ڈی ایم حکومت اپنی یقینی شکست کے پیش نظر پنجاب میں قبل از وقت انتخابات سے راہ فرار اختیار کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی ٹکٹ کے حصول کے لئے زمان پارک کے باہر انتخابات سے قبل انتخابات کا ماحول بن گیا۔ پہلے سابق وزیراعظم کو ریڈ لائن قرار دے کر حکومتی و ریاستی اداروں کو کھلا چیلنج دیا گیا اور بعد ازاں محض گرفتاری ایشو پر شدید قسم کی توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو کر کے اصل ’’ ریڈ لائن والوں‘‘ کو دبائو میں لانے کی کوشش کی گئی۔9مئی کے واقعات کے اسباب و عوامل اور اثرات پر لکھنے کے لئے الگ سے کالم درکار ہے لیکن مختصر اتنا ہی کہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ماضی میں تلون مزاجی کی شہرت رکھنے والی عوام کا تبدیلی حکومت کی تبدیلی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے واقعات کے ایک سلسلے پر ردعمل تبدیل ہوا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ طاقت کے ’’ اصل مرکز‘‘ کو سخت قسم کی عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سابقہ نواز دور حکومت میں یہ مزاحمت محض زبان تک محدود تھی لیکن تبدیلی کے دعوے داروں نے زبانی مزاحمت سے کہیں آگے بڑھ کر ’’ دو بدو لڑائی‘‘ کی کوشش کر ڈالی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button