ColumnRoshan Lal

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ پر تنقید؟

روشن لعل

بجٹ پر لکھے گئے گزشتہ کالم میں یہ تبصرہ کیا تھا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے پیش کردہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کی نسبت کوئی بھی دوسرا پہلو زیادہ مثبت نظر نہیں آتا۔ حیرت کی بات ہے کہ راقم کے نزدیک بجٹ کا جو پہلو سب سے زیادہ مثبت ہے کچھ معاشی ماہرین اسی پر سب سے زیادہ تنقید کرتے نظر آئے۔ جو ماہرین معاشیات ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ہونے والے اضافے پر بے دھڑک تنقید کر رہے تھے ان کے متعلق یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ آخر ان کا معاشی فہم کیا ہے اور انہوں نے کہاں سے پڑھ لیا کہ خدمات فراہم کرنے والے کارکنوں کا معاوضہ مہنگائی میں ہونے والے ہوشربا اضافے کے مطابق طے نہیں کیا جانا چاہیے۔ واضح رہے کہ تنخواہ یا اجرت وہ معاوضہ ہے جو کسی فرد کو اس کی محنت یا خدمات کے عوض دیا جاتا ہے۔ زمانہ قدیم میں خدمات کے عوض اجرت یا معاوضہ لینے یا دینے کی بجائے جنس کے بدلے جنس یا خدمات کے تبادلے میں اشیائے ضرورت دینے کا نظام رائج تھا۔ جنس کے بدلے قیمت اور خدمات کے بدلے تنخواہ وصول کرنے کا سلسلہ زر کی ایجاد کے بعد شروع ہوا۔ یوں دنیا میں اشیا اور خدمات کے تبادلے کی بجائے ان کی خرید و فروخت کا آغاز ہوا۔ اسی تسلسل میں بعد ازاں اشیا کے ساتھ ساتھ خدمات کے بھی نرخ مقرر ہونا شروع ہوئے۔ اس امر سے معاشی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوا اور منڈی کا تصور سامنے آیا۔ منڈی میں جہاں اشیائے صرف کی طلب اور رسد نے ان کی قیمتوں کے تعین میں بنیادی کردار ادا کیا وہاں ان کو پیدا کرنے والوں کی محنت اور خدمات کی اجرت طے ہونے پر بھی اثرات مرتب کیے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عاملین میں یہ احساس اجاگر ہوا کہ منڈی میں منافع کے استحکام کے لیے اشیا کی پیداوار کے ساتھ ساتھ ان کی کھپت بھی بہت ضروری ہے اور اشیا کی کھپت صرف اسی صورت ممکن ہوگی جب ان کے صارفین کے پاس انہیں خرید کے لیے مناسب زر موجود ہو گا۔ ہر صارف کیونکہ کسی نے کسی نہ شے کی پیداواری عمل میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر ملوث ہوتا ہے اس لیے اس کے پاس اشیائے صرف خریدنے کے لیے زر صرف اسی صورت میں موجودہ ہوگا جب اسے اس کی محنت اور خدمات کا مناسب معاوضہ دیا جائے گا۔ یوں عاملین کو یہ ادراک ہوا کہ کسی بھی سماج میں صرف اس وقت بہتر معاشی سرگرمیاں ممکن ہو سکتی ہیں جب دیگر عوامل کے ساتھ وہاں صارفین میں قوت خرید موجود ہو ۔ اس ادراک نے یہ بات سمجھنے میں مدد دی کہ منڈی کے اتار چڑھائو کا خاص تعلق عام لوگوں کو ان کی محنت یا خدمات کے عوض ملنے والے معاوضے کی کمی بیشی سے بھی ہے۔ اس بات کو ترقی یافتہ دنیا میں تو بہت پہلے سمجھ لیا گیا تھا مگر پاکستان جیسے ملکوں میں ایسا نہیں ہو سکا کیونکہ یہاں اشیا کی پیداوار اُن کی کھپت اور لوگوں کی اجرت میں وہ تعلق اور توازن پیدا نہ ہوسکا جو ترقی یافتہ ملکوں میں موجود ہے۔
پاکستان میں چونکہ منڈی کی سرگرمیاں جائز ذرائع سے اپنی محنت کا معاوضہ حاصل کرنے والوں کی بجائے اُن لوگوں پر زیادہ منحصر ہیں جن کے پاس رشوت، کمیشن، ٹیکس چوری اور دوسرے ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ دولت ہے اس لیے پاکستان کی منڈیوں میں اشیائے صرف کی قیمتوں کا تعین کرنے میں اُن لوگوں کی طلب کا کردار بہت محدود ہے جن کی جائز ذرائع سے حاصل کردہ آمدن تنخواہ یا اجرت انتہائی قلیل اور اُن کی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ ایسے لوگوں کی اکثریت کا تعلق سرکاری ملازموں پر مشتمل طبقہ سے ہے۔ پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ یہاں کے سرکاری ملازمین رشوت خور اور کام چور ہیں۔ گو کہ اس تاثر کو مکمل رد نہیں جاسکتا لیکن اس کو سو فیصد درست بھی نہیں مانا جاسکتا کیونکہ اعلیٰ سرکاری افسروں سے نائب قاصد تک ہر سرکاری ملازم کو ایسا عہدہ یا اختیار میسر نہیں ہوتا جہاں اُس کے پاس ناجائز آمدن حاصل کرنے کے بہت زیادہ مواقع موجود ہوں۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ 80فیصد سے زیادہ سرکاری ملازمین اپنی اس مخصوص تنخواہ کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں جو ان کی بنیادی ضروریات اور مہنگائی کے تناسب سے کسی طور بھی مناسب نہیں ہوتی۔
پاکستان میں گزشتہ برسوں کے دوران بنیادی ضروریات زندگی سمیت دیگر اشیائے صرف کی قیمتیں جس طرح کئی گنا بڑھ چکی ہیں اس مناسبت سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوسکا۔ موجودہ اتحادی حکمران گزشتہ دور حکومت مین جب اپوزیشن میں تھے تو ان کی طرف اکثر یہ دعویٰ سامنے آتا تھا کہ حکومت میں آنے کے بعد وہ عام لوگوں کی آمدن کو اس حد تک بڑھائیں گے کہ وہ اپنی زندگی اعلیٰ معیار اور ذہنی سکون کے ساتھ گزار سکیں۔ عمران حکومت کے خاتمہ کے بعد موجودہ حکمرانوں نے اپنا دوسرا بجٹ پیش کیا ہے ۔ اس بجٹ میں گو کہ سرکاری ملازموں کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ان کی تنخواہیں 35اور 30فیصد بڑھانے کے ساتھ ساتھ ریٹائرڈ ملازموں کی پینشن میں بھی ساڑھے سترہ فیصد اضافہ کیا گیا ہے مگر پھر بھی اس اضافہ کو کئی گنا بڑھ چکی مہنگائی کی نسبت کم تصور کیا جارہا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ حکومت کی طرف تنخواہوں میں کیے گئے جس اضافہ کو کم تصور کیا جارہا ہے اس پر بعض معیشت دانوں کو اعتراض ہے کہ یہ اضافہ کیوں کیا گیا ہے۔
سرکاری ملازموں کے بارے میں یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ان کی اکثریت کم تنخواہ لینے والے افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان کا ماہانہ مشاہرہ اس قدر ہی ہوتا ہے جس سے بمشکل ان کی بنیادی ضرورتیں پوری ہو سکیں۔ کیونکہ ان کی آمدن اتنی نہیں ہوتی کہ وہ کچھ پس انداز کر سکیں اس لیے وہ جو کچھ کماتے ہیں وہ فوراً ہی ملک کے بازاروں اور مارکیٹوں میں خرچ کر دیتے ہیں۔ یوں ہر مہینے کے آغاز پر ملک کے طول و عرض میں پھیلے سرکاری ملازموں کو تنخواہ کی شکل میں حکومت سے ملنے والے کروڑوں روپے ان کی جیب سے نکل کر دوسرے ہاتھوں میں منتقل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ مسلسل گردش سے یہ روپیہ چھوٹے دکانداروں، پھیری والوں، ریڑھی بانوں، خوانچہ فروشوں اور دیہاڑی دار مزدوروں وغیرہ کے ہاتھوں جاتا رہتا ہے۔ عام سرکاری ملازمین کی ضرورت امیروں کی طرح بیرون ملک تیار شدہ برانڈڈ اشیا نہیں بلکہ ملکی صنعتوں میں بنایا گیا مال ہوتا ہے۔ اس لیے یہ بات سمجھنا کوئی معمہ نہیں اس وقت ملکی صنعتوں کا پہیہ جس حد بھی رواں دواں ہے اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ سرکاری ملازمین ملک میں بنائی گئی اشیاء کے سب سے بڑے صارف ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ لاکھوں سرکاری ملازموں کی آمدن پر صرف ان کے خاندانوں کے افراد کا ہی نہیں بلکہ بالواسطہ طور پر کروڑوں دوسرے پاکستانیوں کی روٹی روزگار کا بھی انحصار ہوتا ہے۔ اس لیے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی کی مناسبت اضافہ صرف ان کے خاندانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ان کی تنخواہوں سے بالواسطہ مستفید ہونے والے کروڑوں دوسرے پاکستانیوں کی معاشی ضروریات پوری کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button