ColumnNasir Naqvi

تیسرا جمہوری دور

ناصر نقوی

لیجیے صاحب! پاکستانی تاریخ کا تیسرا جمہوری دور بھی ختم ہونے کو ہے۔ جمہوریت اور جمہوری اقدار کے دلدادہ اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں کہ اگر لنگڑی لولی جمہوریت بھی تسلسل کے ساتھ چلتی رہی تو جمہوری پارلیمانی نظام مستحکم ہو جائے گا، لیکن اس تیسرے جمہوری دور نے قوم کو دن میں تارے دکھا دئیے، پہلے دو ادوار میں صرف سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی عدالتی نااہلی سے کام چلا کر راجہ پرویز اشرف اور شاہد خاقان عباسی سے مدت جمہوری دور پوری ہو گئی تھی۔ یوسف رضا گیلانی کی منٹوں سیکنڈوں میں نااہلی اور وکیل صفائی چودھری اعتزاز احسن کی سنوائی نہ ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں نے سیاسی رواداری اور برداشت کا مظاہرہ کیا اور کسی قسم کا ردعمل سامنے نہیں آیا کہ مفاہمتی صدر آصف علی زرداری ہر صورت پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنا چاہتے تھے اس لیے کہ اس سے قبل کوئی بھی منتخب حکومت اپنی حقیقی مدت پوری نہیں کر سکی تھی۔ وہ کامیاب ہوئے ورنہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف صدارتی فرمان 58-2۔ بی کے تحت ایوان اور اقتدار سے بے دخل کئے جا چکے تھے۔ آصف زرداری نے اپنے دور صدارت میں اس ’’ تلوار‘‘ کو بھی توڑ دیا تاکہ کوئی صدر دوبارہ یہ اختیار استعمال کر کے وزیراعظم اور پارلیمنٹ کا خاتمہ نہ کر سکے۔ بظاہر یہ ایک احسن اقدام تھا۔ جمہوریت پسند حلقوں نے پذیرائی کی صدر آصف علی زرداری نے یہ کارنامہ انجام دے کر جمہوریت کو پروان چڑھانے کے لیے اپنے اختیارات سے دستبرداری کر کے ایک ایسا کام کیا جو اس سے پہلے ہو جانا چاہیے تھا لیکن کسی نے جرأت نہ کی۔ دوسرا جمہوری دور نواز شریف کا تھا وہ تیسری مرتبہ وزیراعظم بن کر پاکستان کا منفرد ریکارڈ بنانے والے تھے۔ لیکن وقت نے ان کا بھی امتحان لیا اور انہیں عدالت عظمیٰ نے بین الاقوامی سکینڈل ’’ پانامہ‘‘ کے جال میں پھنسا کر نہ صرف اقامہ کے بہانے اقتدار سے علیحدہ کر دیا بلکہ جارحانہ ردعمل اور مجھے کیوں نکالا؟ کی تکرار پر نااہل بھی کیا اور پارٹی کی سربراہی بھی چھین لی۔ لہٰذا شاہد خاقان عباسی کی لاٹری نکلی لیکن رو پیٹ کر دوسرا جمہوری دور بھی پورا ہو گیا۔ اب 2018ء کا الیکشن آ گیا۔ تیسری سیاسی طاقت کی عوامی خواہش بھی تھی اور خاص لوگوں نے بھی یہی فیصلہ کر لیا کہ ملک سے دو جماعتی نظام سیاست سے جان چھڑائی جائے تاکہ جمہوریت میں ایک مثبت مقابلے کی بنیاد رکھی جا سکے۔ ان کا نظر انتخاب عمران خان پر پڑا اور پھر پس پردہ ’’ مک مکا‘‘ کے بعد ’’ اقتدار‘‘ انہیں سونپ دیا گیا۔ سیاسی جماعتیں بھی واویلا کر کے اسٹیبلشمنٹ سے حقیقی انداز میں ٹکر نہ لیں سکیں اور مصلحت پسندی میں جمہوریت کے ساتھ ملک بھی رگڑے میں آ گیا۔ عمران خان نے بھی طاقت اقتدار کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ’’ احتساب‘‘ کے فارمولے پر سیاسی انتقام دل کھول کر لیا لیکن جب حکومت آگے بڑھی تو ناتجربہ کاری ان کے سامنے آ گئی۔ دعوے اور وعدے دھرے رہ گئے اور پھر سب نے دیکھا کہ وہ اپنی بے بسی میں اپنے ’’ محسنوں‘‘ کے خلاف ہی محاذ کھول بیٹھے۔ ایوان اقتدار کے نادان دوستوں نے خان اعظم کو مقبول ترین لیڈر ہونے کا راگ سنایا، یوں وہ جمہوری اور منتخب لیڈر بننے کی بجائے ’’ مجاہد اعظم‘‘ کا روپ دھارنے لگے اور یوں محسنوں سے محبت ختم اور فاصلے بڑھ گئے۔ ملک کے سیاستدانوں نے اپنے سیاسی اتحاد اور’’ ون پوائنٹ‘‘ ایجنڈے پر پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عدم اعتماد کی تحریک سے عمرانی حکومت کا دھڑن تختہ کر دیا جو عمران کے لیے انہونی تھی لہٰذا اس کے نتائج بھی مختلف نکلے۔ غرور اور ضد نے انہیں حالات سے بغاوت پر اکسایا اور وہ پارلیمنٹ چھوڑکر باہر آ گئے۔ پہلے استعفے منظور نہیں کیے گئے اور جب تسلیم کر لیے گئے، اس وقت عمران خان کو منظور نہ تھے۔ پھر عمران خان چیختے چلاتے ٹائیگر کی مانند سٹرکوں پر یہ کہہ کر نکلے کہ نہ چین سے بیٹھوں گا ، نہ ہی کسی کو بیٹھنے دوں گا اور یہ بے چینی آج تک جاری ہے۔ ٹائیگر کئی ماہ زخمی ہو کر زمان پارک میں پڑا رہا لیکن زخمی ٹائیگر تو زیادہ خطرناک ہوتا ہے، یوں وہ زیادہ خطرناک ہو گئے۔ انہوں نے اپنے ردعمل سے تیسرے جمہوری دور کو دھرنوں، لانگ مارچ اور جلسوں کے جارحانہ ’’ بیانیہ‘‘ سے آلودہ کر دیا۔ اقتدار میں نادان دوستوں اور امپورٹڈ وزراء اور مشیروں سے جمہوریت کے نام پر وہ کچھ کیا گیا جو ماضی میں نہیں ہوا اس لیے جنرل ( ر) باجوہ نے جاتے جاتے اپنی غلطی تسلیم تو کر لی لیکن عمران خان نے اپنی توپوں کا رخ قومی اداروں، سپہ سالار اور حکومت کی جانب ہی رکھا۔ اقتدار کی دوری برداشت نہ ہوئی، سیاسی کھچڑی پکتی رہی، حکومت حسب سابق مقدمات کی فکر میں رہی اور جونہی انہیں پکڑا گیا ’’ باسی کڑی‘‘ میں ابال آگیا، قومی ادارے نشانہ بنے، حساس تنصیبات اور شہداء کی یادگاروں کو توڑ پھوڑ کر یہ پیغام دیا گیا کہ ہم سیاسی اور جمہوری نہیں’’ انقلابی‘‘ ہیں۔
ملک کے طول و عرض سے اس سانحے کی مذمت کی گئی لیکن عمران خان نے حالات دیکھتے ہوئے بھی مذمت نہیں کی اور نہ ہی اپنی کارکنوں کے خلاف کسی کارروائی کی بات کی، لہٰذا قومی سلامتی کے حوالے سے ایک مضبوط موقف سامنے آ چکا ہے جبکہ عمرانی بارودی سرنگ سے ان کی پارٹی تحریک انصاف ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی اور وہ خود بھی سیاسی طور پر جھلس چکے ہیں۔ جے آئی ٹی میں تحقیقات کے دوران ان کے جوابات ’’ اقبال جرم‘‘ سے کم نہیں بلکہ خان اعظم نے ان دستاویزات پر دستخط بھی فرما دئیے ہیں۔ اب ان کا معاملہ عدالتوں اور آرمی کور ٹس میں دیکھا اور پرکھا جائے گا لیکن حکومت نے بجٹ میں ’’ الیکشن فنڈز‘‘ مختص کر کے پیغام دے دیا ہے کہ آئینی مدت حکومت پوری کر کے گھر چلی جائے گی۔ الیکشن مہم کی تیاری کی جائے، یقینا تیسرے دور میں نت نئے تجربات و مشاہدات دیکھنے کو ملے، عمران حکومت سے فراغت کے بعد بھی آج تک جارحانہ ہیں، اپنی آڈیوز، ویڈیوز او ر بیانیہ کو تسلیم کرتے ہیں اس لیے ان کا سیاسی مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔ تاہم پی ڈی ایم کے سربراہ ( مولانا فضل الرحمان) ابھی بھی حالات اور ملکی استحکام کے لیے اسمبلی مدت میں ایک سال کی توسیع کے امکانات کو رد نہیں کرتے۔ دوسری صورت میں حکومت اگر 11اگست کو ختم ہوئی تو 90روزہ نگران حکومت آئے گی، اس کی مدت موسمی صورت حال ، سیلابی صورت حال سے بڑھ سکتی ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ نگران حکومت تمام سیاسی پارٹیوں اور اسٹیبلشمنٹ کے اتفاق سے وجود میں آئے گی تاکہ انتظامی طور پر سیاسی مداخلت عبوری دور میں نہ کی جائے اور سیاسی پارٹیاں آئندہ الیکشن کی بھرپور مہم میں حصہ لے سکیں جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان اپنے مستقبل سے آگاہ ہو چکے، انہیں یقین ہے کہ کوئی معجزہ ضرور انہیں بچائے گا ورنہ وہ بھی بھٹو کی طرح اپنے اصولی موقف ’’ حقیقی آزادی‘‘ پر قربان ہو کر امر ہو جائیں گے۔ دراصل عمران خان کی جدوجہد، انداز اور بیانات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ سیاستدان نہیں، لیڈر ہیں ان کے اچھے بُرے خیالات حقیقی ہیں، انہیں چاہے سب چھوڑ جائیں ’’ نوجوانوں‘‘ کی بڑی تعداد انہیں نہیں چھوڑے گی۔ انہیں سیاست سے آئوٹ کر دیا جائے کہ جلا وطن، تاریخ لکھی جا رہی ہے کہ ایک تھا عمران خان اور ایک تھا زمان پارک، جہاں تمام سیاسی پارٹیوں سے مختلف انداز میں سیاست کی جاتی تھی لہٰذا میری جان بھی لے لی جائے اب ’’ عمران خان‘‘ زندہ ہی رہے گا۔ یہ چیلنج نئے جمہوری دور کے لیے انتہائی مشکل ہو گا تاکہ جو مشکلات جمہوریت اور جمہوری اقدار نے تیسرے جمہوری دور میں برداشت کیں وہ چوتھے دور کے منظر میں ہمارا ’’ مقدر‘‘ نہ بنیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button