تازہ ترینخبریںدلچسپ و حیرت انگیز

جادو ٹونے کے الزام میں پھانسی پانے والوں کے لیے 400 سال بعد معافی

غیر ترقی یافتہ معاشروں میں انصاف کی تاخیر اور عدالتی کارروائیوں میں غلطیوں کے اعترافات کی ویسے تو کئی مثالیں موجود ہیں، اب امریکا میں بھی 400 برس بعد 12 ایسے افراد کو بری کیا گیا ہے جنہیں صدیوں قبل پھانسی دے دی گئی تھی۔

امریکی ریاست کنیکٹی کٹ نے تقریباً 400 سال قبل نو آبادیاتی امریکا میں جادو ٹونے کے الزام میں مارے گئے 12 افراد کو بری کر دیا ہے۔

سنہ 1600 کی دہائی کے وسط میں شمال مشرقی ریاست کنیکٹیکٹ میں 12 افراد پر ڈائن اور جادوگر ہونے اور جادو ٹونا کرنے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا، ان میں سے 11 کو پھانسی دے دی گئی تھی، جبکہ ایک کو رہائی ملی۔

اب نیو انگلینڈ کی ریاست میں قانون سازوں نے جمعرات کو ایک قرارداد منظور کی جس میں ان ملزمان کی بے گناہی کا اعلان کیا گیا اور ان 9 خواتین اور 2 مردوں کی موت کو انصاف کی کمی قرار دیا۔

اس مہم کو ایک گروپ نے چلایا تھا، جس میں مرنے والوں میں سے کچھ کی اولادیں بھی شامل ہیں۔

گروپ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ اقدام ان سینیٹرز کے لیے پرجوش، خوش کن اور قابل تعریف تھا جنہوں نے اس اقدام کے حق میں ووٹ دیا۔

گروپ نے کہا کہ یہ فیصلہ نیو انگلینڈ میں پہلے ڈائن قتل کی 376 ویں سالگرہ کے موقع پر آیا ہے، جو کہ ایلس ینگ کی تھی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم اولادوں، وکلا، مؤرخین، دونوں جماعتوں کے قانون سازوں اور بہت سے دوسرے لوگوں کے مشکور ہیں جنہوں نے اس سرکاری قرارداد کو ممکن بنایا۔

سترہویں صدی میں نیو انگلینڈ میں سینکڑوں افراد، جن میں زیادہ تر خواتین شامل تھیں، ان پر جادو ٹونے کا الزام لگایا گیا تھا، ان میں سب سے زیادہ مشہور سیلم وچ کرافٹ واقعہ ہے، جو میسا چوسٹس میں پیش آیا تھا، کیونکہ یہ علاقہ اس وقت خوف، جہالت اور توہم پرستی کی لپیٹ میں تھا۔

اس دوران درجنوں کو پھانسی دی گئی، زندہ جلایا گیا یا قتل کردیا گیا۔

کنیکٹیکٹ وِچ ٹرائلز (ڈائن مقدمات) 1647 اور 1663 کے درمیان ہوئے، جو سیلم ڈائن ٹرائلز سے تقریباً 30 سال پہلے ختم ہوئے جن میں کنیٹی کٹ میں تقریباً 34 افراد پر جادو ٹونے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

ریاستوں اور ممالک نے حالیہ برسوں میں ملزم ڈائنوں کے اوپر سے الزامات صاف کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔

پچھلے سال، میساچوسٹس نے باضابطہ طور پر الزبتھ جانسن کو معاف کیا تھا، جو سیلم ٹرائلز میں سزا یافتہ واحد خاتون تھیں جنہیں ابھی تک بری ہونا باقی تھا۔

انہیں مہلت دی گئی تھی اور 1740 کی دہائی میں 70 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی ان کی موت ہوگئی تھی۔

پچھلے سال اسکاٹ لینڈ کی حکومت نے بھی ان ہزاروں خواتین کے نام باضابطہ معافی نامہ جاری کیا جنہیں صدیوں پہلے سزائے موت دی گئی تھی۔سولہویں اور اٹھارویں صدی کے درمیان اسکاٹ لینڈ میں تقریباً 4 ہزار لوگوں پر جادو ٹونے کا الزام لگایا گیا تھا، جن میں سے 25 سو کو سزائے موت دی گئی تھی۔

ان میں سے زیادہ تر کا اعترافات کرنے کے بعد گلا گھونٹ دیا گیا اور پھر جلا دیا گیا، یہ اعترافات اکثر تشدد کے ذریعے حاصل کیے جاتے تھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button