Column

عروج سے زوال تک کا سفر .. غلام العارفین راجہ

غلام العارفین راجہ

اس دنیا کا عروج ایک دن زوال کا شکار ہوتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے صبح کے بعد رات کا اندھیرا چاروں طرف چھا جاتا ہے۔ یاد رکھیں یہ دنیا فانی اور عارضی ہے یہاں ہر وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔ بہادر شاہ ظفر کا شعر ہے کہ:
صبح کے تخت نشیں، شام کو مجرم ٹھہرے
ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ بہادر شاہ ظفر نے اپنے دور کا درد سہنے اور برادشت کرنے کے بعد آنے والے دور کے انسانوں کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اگر آج آپ تخت نشین ہیں تو شام کو مجرم بھی بن سکتے ہیں۔ کب کیسے کون کیا ہو جائے کچھ معلوم نہیں ہے لیکن انسان جب طاقت میں ہوتا ہے تو اُس کو کچھ نظر نہیں آتا۔
ریاست پاکستان کی سیاست کے حالات و واقعات کچھ ایسے ہی ہیں۔ یہاں کون کب کیسے اقتدار میں آ جائے کچھ پتہ نہیں چلتا نہ ہی اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ کب صبح کے امیر سورج غروب ہوتے مجرم بن جائیں۔ لیکن اس صورتحال میں غور و فکر کرنے والے لوگ پہلے ہی بتا دیتے ہیں کہ امیر شہر کے کتنے دن باقی ہیں اور اگلی باری کس کی ہو گی۔ ہم نے یہاں بیشمار سابقہ حکمرانوں کو گھر جاتے دیکھا ہے۔ وہ بھی اپنی متعلقہ مدت مکمل ہونے سے پہلے ہی اپنے عہدے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ برسرِ اقتدار لوگ ایسی بڑی غلطیاں کر رہے ہوتے ہیں جو اُن کے درباری وزیر پُرکشش کر کے دکھاتے ہیں، ہر امیر کے ہر سوال پر سب اچھا ہے، کی رپورٹ دے کر شاہ کو خوش کرتے ہیں۔ ہم نے سابقہ حکومت کے حالات و واقعات دیکھے کہ کیسے وزیر اعظم کو وزراء و مشیر غلط رپورٹس فراہم کرتے رہے ہیں، آخر میں پتہ چلا کہ سب تہس نہس ہو چکا ہے، بس اعلان باقی ہے۔ سابق حکمران جماعت نے جب اقتدار سنبھالا تو انہوں آتے ساتھ ہی باقی جماعتوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا۔ ان سے پہلے کی حکمران جماعتوں سے تو ان کی دشمنی کا اظہار الیکشن کمپین میں موجود تھا کیونکہ ان کو کہنا تھا ان سب سابقہ جماعتوں نے ریاست میں لوٹ کا بازار گرم کیا ہے۔ دھڑا دھڑ گرفتاریوں اور سکینڈلز کی بھرمار ہو گئی۔ بظاہر یہ سب کچھ ریاست کے مفاد کی خاطر کیا جا رہا تھا لیکن اصل کہانی سیاستدانوں کی باہمی مفادات کا نتیجہ تھا۔ جو برسرِ اقتدار جماعت میں الیکشن سے پہلے یا بعد میں لوگ شامل ہوئے اُن کی جان بخشی ہو گئی، مگر جو دوسری سابقہ جماعتوں سے وابستہ رہے ان کو ہر طرح سے دبایا گیا۔ اسی دوران ریاست میں مذہبی مسائل پر اٹھنے والی مذہبی جماعت کے خلاف کریک ڈائون کیا گیا قیادت سمیت تمام ورکرز کو پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی بولنے اور لکھنے والوں کو کیسے آزاد چھوڑا جا سکتا تھا تو بہتی گنگا میں ان کو شامل کیا گیا ہر طرح سے گھیرا تنگ کر کے گرفتاریاں ہوئیں، جس جس نے بھی حکومت کے خلاف لکھا یا بولا اس کو مجرم قرار دے کر کارروائیاں عمل میں لائی گئیں، اسی دوران ایک بار پھر مذہبی مسئلے پر مذہبی جماعت باہر نکلی تو اس بار ساری حدیں پار کر دی گئیں، مذہبی جماعت کے قائد کو گرفتار کیا گیا اس کے بعد پوری قیادت اور پھر ہزاروں کارکنوں کو پابند سلاسل ایک بار پھر کیا گیا۔ جماعت کو کالعدم قرار دے کر تمام سرگرمیوں ہر پابندی عائد کر دی گئی۔ برزگ علماء کی عزت کو پامال کیا گیا جعلی ایف آئی آرز کی بھرمار کی گئی۔ بغیر کسی مصدقہ جرم کے لوگوں کو ذاتی پسند اور نا پسند کی بنیاد پر ٹرائل کئے گئے۔ صحافیوں کو حکومت پر تنقید کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ کئی شہروں میں تجاوزات کیخلاف آپریشن کے نام کچی بستیاں مس مسمار کر دی گئیں، غریب چھت سے محروم ہو گئے جبکہ جاگیرداروں اور وڈیروں کو تو ہمیشہ کی طرح استثنیٰ حاصل رہا۔
جب آپ کسی پر ظلم و جبر کر رہے ہوں تو کیسے ممکن ہے آپ بچ جائیں گے، جب شہر میں آگ لگتی ہے تو امیرِ شہر کا گھر کیسے محفوظ رہ سکتا ہے یقیناً آگ کی لپیٹ میں اُس کا گھر بھی آتا ہے۔ کچھ ایسا ہی ہوا ایک دم سے بغاوت شروع ہوئی اور اپنے ہی پرائے ہو گئے۔ پھر اقتدار ہاتھ سے نکلا تو کبھی سازش اور کبھی قومی سلامتی کے اداروں پر تنقید کا بازار گرم کرنا شروع کر دیا۔ خط لہراتے ہوئے قوم کو بتایا کہ بیرونی سازش ہے۔ کچھ عرصے بعد خط غائب ہی ہوا تھا کہ اداروں پر تنقید معمول بن گئی آئے روز سوشل میڈیا پر پراپیگنڈا شروع کر دیا دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دیں، جب دیکھا یہ تو مجھے نقصان ہو رہا تو ایک بار پھر کہا کہ مجھے تو کسی نے اشارہ کیا تھا، میرے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا، ٹی وی بیٹھ کر بڑی بڑی باتیں کرنے والے اپنے آخری وار کی طرف جانے کی تیاری میں مگن تھے۔ وہ کام جو آج تک دشمن بھی نہ کر سکا، ہم نے دیکھا کہ مئی کے دوسرے ہفتے کے آغاز میں بدترین شر پسندی پھیلائی گئی، مگر یہ آخری وار بھی ناکام ہو گیا۔ ایک سابق وزیر جو ہر چینل پر بیٹھ کر مخالفین کو انسان نہیں سمجھتا تھا، آج کل وہ بھاگ بھاگ کر جان بچاتا پھر رہا ہے، مجھے ایک بزرگ بابا جی کہا کرتے تھے کہ:
نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے
نہ کُھلتے رازِ سربستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں
لیکن جب انسان کے پاس اقتدار ہوتا ہے تو طاقت کے نشے میں آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی ہوتی ہے، جوں ہی اقتدار سے محروم ہوتا ہے تو اُس کو سب کچھ غلط نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ آپ جہاں ہوں لیکن اپنے سے کمزور پر ظلم نہ کریں۔ کمزور سے آپ لڑ کر وقتی جیت تو جائیں گے مگر مستقبل میں تاریخ کے سیاہ حروف میں لکھے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button