Columnمحمد مبشر انوار

بعد از گرفتاری کیا ہو گا!! .. مبشر انوار

محمد مبشر انوار(ریاض)

خواہشوں کی تکمیل بسااوقات انسان کو کیا سے کیا بنا دیتی ہے، اس سے متعلق مشاہدات بالعموم اپنی زندگی میں کرتے رہتے ہیں لیکن جب یہ خواہشات کسی بڑی شخصیت، معذرت کہ بڑی شخصیات کی تعریف قطعی وہ نہیں جو اخلاقیات ہمیں بتاتی ہے بلکہ موجودہ دور کے مطابق سماجی و سیاسی رتبے میں بڑی شخصیت، سے متعلق ہوں تو پھر ان خواہشات کی تکمیل میں آئین و قانون گھر کی لونڈی بن جاتاہے۔ ایسی ہی صورتحال گزشتہ کئی دہائیوں سے ریاست پاکستان کی ہو چکی ہے کہ ایک سیاسی شخصیت کی سہولت کاری کے لئے، ملکی قوانین کو ہر بار توڑا جاتا ہے، اقوام عالم میں ایک تماشہ بنایا جاتا ہے لیکن نجانے کیوں اس سیاسی شخصیت اور اس کے خانوادے کی خواہشات کے خلاف جانے کی طاقت کمزور قوانین میں کیوں نہیں ہے؟ عدالتیں، ججز یا دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے مسلسل ایک سیاسی شخصیت کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے دکھائی دیتے ہیں، وہ شخص اقتدار میں ہوتا ہے یا بیرون ملک، اس دوران ایک چھوٹا سا وقفہ جیل کی سلاخیں نظر آتی ہیں، جہاں سے وہ ڈیل کرکے پھر بیرون ملک دکھائی دیتا ہے۔ بیرون ملک جاتے ہی، اس شخص کو وطن کی محبت کی رٹے رٹائے بیانات ایک ٹیپ کی صورت جاری ہونا شروع ہو جاتے ہیں لیکن اس کی واپسی اس وقت تک ممکن نہیں ہوتی، جب تک اسے اقتدار کی یقین دہانی نہ کروا دی جائے۔ اپنے سیاسی حریفوں کے ساتھ جو سلوک اس شخص کے سیاسی کم آمرانہ دور حکومت میں ہوتا ہے، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے، بے نظیر بھٹو کے ساتھ اس کا پہلا ٹاکرا رہا، جہاں اس نے ریاستی مشینری کی آشیرباد کے ساتھ بے نظیر کا جینا محال کر دیا، جھوٹے و جعلی مقدمات کا اندراج اور اس پر طرہ یہ کہ عدلیہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے جھوٹی سزائوں نے اس شخص کی سیاسی و ذہنی بلوغت کو آشکار کیا لیکن صد افسوس پاکستانی سیاست میں پس پردہ طاقت بانٹنے والے، آج بھی اس پر اعتماد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ عمران خان سخت جدوجہد کے بعد اقتدار نشین تو ہو گیا لیکن جو قیمت ایسے اقتدار کی چکانی ہوتی ہے، عمران خان اس وقت بخوبی وہ قیمت ادا کر رہا ہے، بالخصوص عمران خان پر مقدمات کی گنتی اس امر کی گواہ ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنا طرز حکمرانی ابھی تک نہیں بدلا۔ حیرت ہے کہ کسی بھی سیاسی اقدام پر بلاجواز مقدمات قائم کئے گئے ہیں اور حکومت مصر ہے کہ ’’ لیول پلئنگ فیلڈ‘‘ کے نام پر از حد ضروری ہے کہ نہ صرف عمران خان کو گرفتار کیا جائے بلکہ اسے ہر صورت نااہل کرکے اس مقام پر لایا جائے کہ جہاں قانون طور پر اسے مجبور کیا جائے کہ دونوں کی نااہلی ختم کروائی جائے، وگرنہ عمران خان بھی تاحیات نااہل ہو کر سیاست سے باہر ہو جائے۔ جو مقدمات عمران خان پر بنائے گئے ہیں، ان کی قانونی حیثیت اتنی بودی ہے کہ کسی بھی ریاست کی عدالتیں بغیر کسی دبائو کے فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں تو یہ مقدمے محض ایک پیشی پر خارج کر دئیے جانے چاہئیں لیکن چونکہ عمران خان پر دبائو بڑھانا اور اپنے زیر اثر کرنا زیادہ ضروری ہے لہذا، اسے ایک سے دوسری عدالت یوں رسوا کیا جا رہا ہے کہ وہ ازخود میدان چھوڑ دے۔ جبکہ حکومتی صفوں میں ایسی شخصیات موجود ہیں کہ جنہوں نے صرف عدالتی حکم امتناعی پر ہی اقتدار کے سنگھاسن پر اپنا مقررہ وقت انتہائی با آسانی مکمل کیا، ایسی شخصیات بھی ہیں کہ جن پر اس وقت بھی مقدمات ہیں، ضمانت پر رہا ہیں اور جس بنیاد پر ضمانت ملی، وہ بنیاد بھی پاکستان میں نہیں بلکہ بیرون ملک موجود ہے، لیکن کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے یا عدالت کی طرف سے کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا، انتظامیہ و عدلیہ کی طرف سے اس دوہرے معیار نے آج ریاست کی یہ حالت کر رکھی ہے کہ یہاں قانون چارہ جوئی کرنے والے کے لئے زندگی تنگ جبکہ بندر بانٹ کرنے والے بلند ترین شاخوں پر ڈیرہ جمائے گلستان کو انجام تک پہنچانے میں روبہ عمل ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کی سب سے بنیادی اور اہم ترین ذمہ داری بالآخر پوری ہوئی اور لندن میں بیٹھے شخص کی تسکین کردی گئی ہے لیکن کیا عمران خان نااہل ہونے کے بعد، ہنوز دلی دور است، کہ تادم تحریر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے نہ صرف آئی جی اسلام آباد بلکہ دیگر افراد کو بھی عدالت پیش ہونے کا حکم دیا۔ جس کے جواب میں صرف آئی جی اسلام آباد، دئیے گئے وقت سے بھی تاخیر سے، احاطہ عدالت پہنچے جبکہ عمران خان کو پیش نہیں کیا گیا۔ احاطہ عدالت سے ایک ایسے شخص کو گرفتار کیا گیا ہے، جو پیشی کے لئے عدالت میں موجود ہے۔ بائیو میٹرکس کروانے کے لئے دفتر میں بیٹھے عمران خان کی گرفتاری کے لئے عدالتی املاک کی توڑ پھوڑ کرنا، بالائے قانون عمران خان کو گرفتار کرنا سمجھ سے باہر ہے، کہ ہم کس دنیا میں رہ رہے ہیں؟ دوسری طرف پاکستان میں فی الفور احتجاج شروع ہو چکا ہے، کارکن سڑکوں پر نکل آئے ہیں، سڑکیں بند کی جارہی ہیں۔ جو مقبولیت عمران خان کو اس وقت پاکستانی سیاست میں میسر ہے، ایسی مقبولیت اپنے وقت میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی میسر تھی، لیکن مقتدرہ کسی بھی عوامی مقبولیت والے سیاستدان کو برداشت کرنے کے لئے تیار نظر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ بھٹو سے جان چھڑانے کے لئے اس پر بھی ایسے ہی بے بنیاد مقدمات کئے گئے، اسے کال کوٹھڑی میں رکھا گیا، انتہائی تذلیل آمیز سلوک کیا گیا، عدالتوں کے ذریعہ ایسا فیصلہ کروایا گیا کہ جس کے باعث آج تک عدالتیں اپنے اس فیصلہ پر نادم ہیں، حتی کہ بھٹو کی بیٹی بھی عوامی مقبولیت کی دعویدار رہی ہے لیکن اس کے حکومتیں گرنے پر بھی عوام کی اتنی تعداد سڑکوں پر دیکھنے کو نہیں ملی، اس کے باوجود چونکہ بے نظیر کی جڑیں بہر طور عوام میں تھیں، لہذا اسے بھی برداشت نہیں کیا گیا۔ اس پس منظر میں اگر کوئی سیاسی شخصیت ابھی تک سیاسی افق پر موجود ہے تو اس میں حقیقتا اس کہ جعلی عوامی مقبولیت کا بڑا عمل دخل ہے وگرنہ یہ ممکن نہ تھا کہ وہ ابھی تک پاکستانی سیاست میں موجود رہتا۔ اب یہ صورتحال عمران خان کو میسر ہے اور مقتدرہ کی عمران سے مخالفت کو اگر صرف اس بنیاد پر دیکھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہے کہ مقتدرہ کسی ایسی سیاسی شخصیت کا وجود برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں جو واقعتا ان کے اختیار کے لئے خطرہ ہو، جس کا اظہار عمران خان کو حکومت سے بے دخل کرنے پر عوامی ردعمل سے واضح تھا کہ عمررسیدہ لوگوں کی جانب سے پلے کارڈ نظر آئے، جن پر لکھا تھا کہ ’’ بچو ! ہم نے بھٹو کو کھویا ہے، تم عمران خان کو مت کھونا‘‘۔ اس وقت جو صورتحال پیدا ہو چکی ہے، اس میں قوی امکان ہے کہ عوام اس ناانصافی کو قطعی برداشت نہیں کریں گے اور ملک سے جمہوری نظام لپیٹے جانے کا امکان بھی موجود ہے۔ بہرطور اس میں سب سے اہم بات یہی ہے کہ ملکی مسائل میں کمی کے بجائے، ایسے اقدامات جلتی پر تیل کا کام کریں گے جو کسی بھی طور ملکی مفادات سے میل نہیں کھاتے۔ ذاتیات پر سیاست کرنے والوں سے توقع تو نہیں کہ ملکی مفاد میں کوئی فیصلہ کر پائیں لیکن اس وقت دعا کی جا سکتی ہے کہ اللہ عاقبت نا اندیشوں کو ہدایت دے اور ملک کو خانہ جنگی کی صورتحال سے بچانے کا فیصلہ کر پائیں، آمین۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button