Column

عرب لیگ کے ہاتھوں امریکا کو شکست .. محمد ناصر شریف

محمد ناصر شریف

عرب لیگ عرب اکثریتی ریاستوں کی تنظیم ہے جس کا صدر دفتر مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ہے۔ جس کا قیام 22مارچ 1945ء کو اسکندریہ میں عمل میں آیا۔ لیگ کے میثاق کے مطابق رکن ریاستیں اقتصادی معاملات بشمول تجارتی تعلقات، مواصلات، ثقافتی معاملات، قومیت، پاسپورٹ اور ویزا، معاشرتی اور صحت کے معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کریں گی۔ عرب لیگ کے میثاق کے مطابق تمام رکن ریاستیں ایک دوسرے کے خلاف جارحیت کا ارتکاب بھی نہیں کر سکتیں۔ عرب لیگ آرگنائزیشن آف امریکن اسٹیٹس، کونسل آف یورپ اور افریقن یونین جیسی تنظیموں سے ملتی جلتی ہے جو بنیادی طور پر سیاسی مقاصد رکھتی ہیں، انہیں اقوام متحدہ کی علاقائی شکل بھی کہا جاسکتا ہے۔ گوکہ عرب لیگ کی رکنیت ثقافتی بنیادوں پر دی جاتی ہے اس لیے وہ اس کو دیگر مندرجہ بالا تنظیموں سے ممتاز کرتی ہے۔عرب لیگ دیگر معروف علاقائی تنظیموں جیسے یورپی یونین سے بھی مختلف ہے کیونکہ نہ ہی اس نے علاقائی تعاون میں اہم کامیابی حاصل کی اور نہ ہی اس تنظیم کی رکن ریاستوں کے شہری براہ راست ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ عرب لیگ کے تمام اراکین اسلامی کانفرنس کی تنظیم موتمر عالم اسلامی کے بھی ارکان ہیں۔عرب تنظیم کے بانی ارکان میں مصر،عراق،اردن،لبنان، سعودی عرب ،شام،یمن، لیبیا،مراکش،تیونس، کویت، الجزائر جبکہ دیگر ارکان میں متحدہ عرب امارات،بحرین، قطر،عمان،ماریطانیہ، جزائر قمر، صومالیہ، جبوتی،سوڈان،ریاست فلسطین شامل ہیں۔ بشار الاسد کی جانب سے حکومت مخالف مظاہروں کو طاقت سے کچلنے پر عرب لیگ نے 2011میں شام کی رکنیت معطل کردی تھی اور اگلے ہی برس یعنی 2012میں سعودی عرب نے سفارتی تعلقات منقطع کرلیے تھے۔جس کی وجہ سے خطے میں صورتحال کشیدہ ہوگئی ،جس کا بھرپور فائدہ امریکا نے اٹھایا اور اپنا اثررسوخ خطے میں بڑھایا۔ رواں ماہ عرب ممالک اور شام کے درمیان تعلقات کی بحالی سے امریکا اور یورپی ممالک کو ایک اور بڑی شکست ہوئی ہے۔ امریکی اور یورپی مخالفت کے باوجود عرب ریاستوں کی جانب سے شام کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ عرب لیگ میں شام کی رکنیت کی معطلی کے خاتمے کے ساتھ ہی علاقائی معاملات کی ایک اور گرہ کھل گئی۔ یہ واقعہ سات سال بعد ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی اور یمن کے آٹھ سالہ بحران کے حل کے ساتھ ساتھ خطے میں ایک نئی ترتیب کی تصویر کشی کرتا ہے۔ عرب لیگ میں شام کی واپسی کا مطلب اس ملک کے خلاف واشنگٹن کی بھاری ناکہ بندی کے ایک بڑے حصے کی شکست ہے اور یہ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کی باضابطہ بحالی کے بعد بڑی حد تک شامیوں کے معاشی چیلنجوں کو حل کر سکتا ہے۔ موجودہ دور میں اس مسئلے کی اہمیت دوگنی ہو گئی ہے جب امریکہ اور یورپ شام کی حکومت کے ساتھ دنیا اور خطے کے مختلف ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کو مسترد کرتے ہیں اور اس ملک کی سیاسی تنہائی میں شدت پیدا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ دمشق کو اپنی حقیقی علاقائی اور عالمی پوزیشن کو برقرار رکھنے میں مدد دے گا۔دوسری جانب شامی پناہ گزینوں کے بحران کو حل کرنے اور اس ملک کی تعمیر نو کا عمل شروع کرنے کے لیے عرب لیگ میں واپسی کے بعد مزید موثر طریقہ کار کے ساتھ عمل کیا جائے گا۔ 10مئی 2023کو سعودی عرب نے بھی شام میں سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کا اعلان کرتے ہوئے شام میں اپنے سفارت کاروں کو کام شروع کرنے کی اجازت دیدی۔ سعودی وزارت خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ شام کی عرب لیگ کے اجلاسوں اور تنظیمی پروگرامز میں شرکت پر پابندی ہٹالی گئی اور شام میں سعودی عرب کی سفارتی خدمات کو بھی بحال کیا جا رہا ہے۔آج خطے کی اندھی گرہیں یکے بعد دیگرے کھولی جارہی ہیں، اور امریکی مداخلت کے بغیر خطے میں ایک مستقل نظم اور سلامتی قائم ہونے کی امید پیدا ہوگئی ہے۔امریکی صدر جوبائیڈن عرب ممالک کے شام کے ساتھ تعلقات بحال ہونے پر شدید ناراض ہیں۔ انہوں نے شام کے حوالے سے ہونے والی تبدیلیوں کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ شام کے ساتھ تعلقات بحال ہونے میں تمام عرب ممالک شامل نہیں ہیں۔ انہوں نے شام میں نافذ ایمرجنسی میں ایک سال کی توسیع کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ بشارالاسد اب بھی امریکی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے لئے بڑا خطرہ ہیں۔ کانگریس کو لکھے گئے ایک خط میں انہوں نے شام مخالف جذبات کا اظہار کرتے ہوئے ایمرجنسی میں مزید ایک سال توسیع کا اعلان کیا۔اپنے خط میں جوبائیڈن نے بشارالاسد اور ان کے حامیوں سے اپیل کی ہے کہ شام میں جنگ بندی کے ساتھ ساتھ عوام تک امدادی سامان پہنچانے کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے سے گریز کریں۔امریکی وزارت خارجہ کا موقف رہا کہ ’’ ہم سمجھتے ہیں کہ شام کے لیے عرب لیگ میں واپسی کے لیے بہت جلد بازی ہوگی!‘‘ وائٹ ہائوس کی شکست اور مایوسی کو ہر کوئی سمجھ سکتا ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف ’’بلومبرگ”‘‘ نیوز ایجنسی نے بھی کیا ہے اور لکھا ہے: شام کے بارے میں واشنگٹن کی پالیسیوں سے عرب ممالک کے رہنمائوں کی عدم توجہی اور شام کی عرب لیگ میں واپسی کے لیے ان کا کھلا ہتھیار عرب ممالک میں واشنگٹن کے روایتی اثر و رسوخ میں کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ہم اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ شام کو اس وقت عرب لیگ میں دوبارہ شمولیت کا حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اسد حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر نہیں لائیں گے اور ہم تعلقات کو معمول پر لانے والے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کی بھی حمایت نہیں کرتے عرب لیگ میں شام کی شمولیت کے بعد امریکی کانگریس کے اراکین نے پارٹی خطوط سے بالاتر ہوتے ہوئے بہت سخت لہجہ اختیار کیا ہے۔ انہوں نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ اسد کے ساتھ تعلقات کو معمول پر آنے سے روکنے کے لیے پابندیاں عائد کرنے کی طاقت کا استعمال کرے ۔ امریکی کانگریس میں خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین ری پبلیکن رہنما مائیکل میک کاول اور سینئر ڈیموکریٹ لیڈر گریگوری میکس کا کہنا تھا، ’’ اسد کو عرب لیگ میں دوبارہ شامل کرنا ایک سنگین سٹریٹیجک غلطی ہے، جو اسد کو روس اور ایران کو شہریوں کا قتل عام جاری رکھنے اور مشرق وسطی کو غیر مستحکم کرنے کی حوصلہ افزائی کرے گا‘‘ ۔ امریکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق، ’’ ایک اور معنی میں شام کی عرب لیگ میں واپسی کا مطلب واشنگٹن کی علاقائی پالیسیوں کے خلاف ایران اور روس کی فتح ہے‘‘۔ حماس کے ترجمان حازم قاسم نے کہا کہ ہم عرب لیگ میں شام کی اپنی نشست پر واپسی پر عرب ممالک کے وزرائے خارجہ کے موقف کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ شام کے بحران کے جلد حل اور اس کے نتائج کی امید ظاہر کرتے ہوئے حماس کے ترجمان نے غیر ملکی استعماری عزائم جن میں سب سے اہم صیہونی حکومت کا توسیع پسندانہ منصوبہ بندی کا منصوبہ ہے، کے خلاف اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے امت اسلامیہ کے تمام ارکان کے درمیان باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے پر زور دیا۔ عرب لیگ میں شام کی رکنیت کی بحالی امریکا کی بڑی شکست ہے۔ عرب لیگ میں شام کی واپسی سے پتہ چلتا ہے کہ علاقے میں امریکہ و غاصب صیہونی حکومت کی پوزیشن کافی کمزور ہوتی جا رہی ہے اور ان کا اثر و رسوخ بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔ عرب ممالک کا اقدام خطے کے مسائل کرنے کی جانب اچھا اقدام ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button