Column

ہماری سیاسی بصیرت، اعلیٰ عدلیہ اور ملکی مسائل

محمد عباس عزیز

نیلسن منڈیلا کا قول ہے کہ دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جسے سیاستدان حل نہیں کر سکتے مگر اس کے لئے انا کی میلی چادر اتار کر ظرف کا کمبل اوڑھنا پڑتا ہے۔ گیند اب ایک بار پھر سیاسی پنڈتوں کے پاس آ گئی ہے، یہ کس طرح آئی ہے، کیا کسی غیبی قوت نے ان کی طرف پھینکی ہے۔2018ء کے بعد جب عمران خان کی حکومت قائم ہوئی یا کروائی گئی اس وقت احتساب کے نام پر دوسری جماعتوں کے لیڈروں کو خاص طور پر مسلم لیگ ( ن) کو دیوار کے ساتھ لگایاگیا اور ایک چھوٹا بیانیہ عوام کو گمراہ کرنے کیلئے بنایا گیا کہ میں چوروں کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا نہ مذاکرات کروں گا، حالانکہ یہ اس کہاوت کے مترادف ہے کہ ’ چور مچائے شور‘۔ عوام کو اب پتہ چل گیا ہے کہ اندر خانے یہ گیم کیا تھی، بہرحال ہم ماضی میں نہیں الجھنا چاہتے کیونکہ خلیل جبران کہتا ہے کہ ’ پیچھے مڑ کر نہ دیکھو کیونکہ ماضی راکھ کا ڈھیر ہے‘ پائوں مضبوط رکھو کیونکہ حال سمندر کی ریت ہے، جو لمحہ بہ لمحہ سرک رہا ہے اور اپنی آنکھیں کھلی رکھو‘ مستقبل تاریک خلا ہے۔ لہذا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک بریک تھرو ضرور ہوا ہے کہ عمران خان کو گزرے وقت کے ساتھ زمینی حقائق کا ادراک ہو رہاہے اور کچھ سیاست کی سوجھ بوجھ بھی آنا شروع ہوگئی ہے اور یہ چیزیں بھی آشکار ہونا شروع ہو گئی ہیں کہ ماضی میں جو قوتیں میرے ساتھ تھیں وہ اب نیوٹرل ہوگئی ہیں۔ حالات کی سنگینی بھی انسان کو بڑا کچھ سکھا دیتی ہے اور تمام بیانیے اب آہستہ آہستہ دم توڑ رہے ہیں کیونکہ تمام وقت کے لئے عوام کو بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ امریکہ کے سائفر سے لے کر باجوہ ڈاکٹرائن تک شاید ان کو احساس ہو گیا ہے کہ پی ٹی آئی کا طرز سیاست یا ہٹ دھرمی ضد انا تکبر ان کو سیاست سے پرے دھکیلنے کا باعث بن رہا ہے اور عوام میں اب یہ بیانیے دم توڑ رہے ہیں۔ لہذا اب یہ سیاسی پارٹیوں کی ذہانت کا امتحان ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے الیکشن پر متفق ہوتے ہیں یا نہیں۔ الیکشن مئی میں ہوں یا اکتوبر میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، بنیادی بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم کچھ پیچھی آ جائے اور پی ٹی آئی کچھ آگے بڑھے، کیونکہ شفاف انتخاب کے ذریعے اکثریت حاصل کرنے والی جماعت حکومت بنائے اور اگر خدا نہ کرے یہ سیاسی جماعتیں کسی ایک تاریخ پر متفق نہیں ہوتیں تو تمام جماعتیں جانتی ہیں کہ پھر فیصلہ کون کرے گا۔ بہرحال عمران خان کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ ثاقب نثار، جسٹس کھوسہ، فیض حمید، جنرل پاشا، ظہیر الاسلام اور ان کیلئے گیٹ نمبر4بند ہو گیا ہے۔ ادھر تاریخ میں ہماری عدلیہ کے بارے میں کوئی اچھی روایات نہیں ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کا جوڈیشل مرڈر کیا گیا، بعد میں جنرل مشرف کوایک اعلیٰ عدالت کے چیف جسٹس نے تین سال تک آئین کا کھلواڑ کرنے کی اجازت دی۔ یوسف رضا گیلانی کو نااہل کیا گیا، نوازشریف کو پانامہ کے کیس میں اقامہ کی وجہ سے نکالا گیا۔ موجودہ عدلیہ کو ترازو برابر رکھنے چاہئے تھے۔ تمام جماعتیں اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر مثبت تنقید کا حق رکھتی ہیں، اعلیٰ عدلیہ اور معزز جج صاحبان کو بھی علم ہے کہ ہمارا آئینی بندوبست اتنے الجھائو کا شکار ہے کہ اگر صوبائی اور قومی انتخابات ایک دن یا اکٹھے نہیں ہوتے تو شفاف انتخابات کے جو تقاضے ہیں وہ پورے نہیں ہوتے اور اگر تمام تقاضے پورے نہیں ہوتے تو پھر وہی دھینگا مشتی ہوگی جو اب ہو رہی ہے۔ معزز عدالت کو سیاسی فیصلوں پر تحمل سے کام لینا چاہئے کیونکہ اس کے عدالت کی حیثیت پر نہایت مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ عوام کے اعتماد اور یقین کو برقرار رکھنے کیلئے عدالت کی آزادی اور غیر جانبداری بہت ضروری ہے، سیاسی فیصلوں کی وجہ سے معزز عدالتوں کا ٹائم ضائع ہوتا ہے اور عوام کے کیس جو عدالتوں میں چل رہے ہوتے ہیں وہ التواء کا شکار ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔ انٹرنیشنل اعدادوشمار کے مطابق ہماری عدلیہ کی ساکھ کچھ ایسی نہیں جس پر ہم فخر کر سکیں لہذا امید کرتے ہیں کہ معزز جج صاحبان قوم اور ملک کی خاطر اپنے فیصلے باہمی مشاورت سے کریں گے اور عدلیہ کے اعتماد کو ضرور بحال کریں گے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ابو الکلام مولانا آزاد نے غداری کے ایک مقدمے میں مسند انصاف پر بیٹھے انگریز کرنل سے کہا تھا کہ تاریخ عالم کی سب سے بڑی نا انصافیاں جنگ کے میدانوں کے بعد عدل کے ایوانوں میں ہوتی ہیں، لہذا ہم امید کرتے ہیں کہ معزز جج صاحبان اپنی غیر جانبداری کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے فیصلوں کے ذریعے عوام کا اعتماد اپنے اوپر بحال کریں گے اور کسی ایک پارٹی کے حق میں ہونے والی رائے کو غلط ثابت کریں گے۔ ان تمام سیاسی فیصلوں کی وجہ سے کوئی عوام کے مسائل کی طرف توجہ نہیں دے رہا، پی ڈی ایم حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے، عوام مہنگائی اور لا اینڈ آرڈر کی چکی میں پس رہے ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ گندم کی ابھی کٹائی ہورہی ہے لیکن محسوس ہو رہاہے کہ گندم ملک میں آئندہ چند مہینوں کے بعد شارٹ ہوجائے گی۔ لوگ کھیتوں سے ہی نقد رقم دے کر گندم اپنے گھروں میں لے جارہے ہیں، یعنی ایک بے یقینی کی صورتحال ہے، حکومتی وزیر خود کرپشن اور اپنی نااہلی کا اعتراف کر رہے ہیں، باقی کیا رہ جاتاہے۔ عوام کے مسائل کون حل کرے گا، مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں، کوئی حل نظر نہیں آتا۔ میڈیا بھی آئین کی موشگافیاں سلجھانے میں لگا ہوا ہے۔ سڑکوں پر لوگ حادثات کا شکار ہورہے ہیں، بھوک ننگ، لاء اینڈ آرڈر، صحت، تعلیم یعنی بنیادی ضروریات اور عوام کے ضروری کام بھی اچھے طریقے سے سرانجام نہیں پا رہے۔ کیا فائدہ اتنی بڑی کابینہ کا، اس وقت ملک ایک دلدل میں پھنسا ہوا ہے، جب وزیر اپنی ناکامی کا عام اعتراف کر رہے ہیں بیوروکریسی کو کیا پڑی ہے کہ وہ عوام کے مسائل حل کرے، ان کی تمام ضرورتیں اور خواہشات پوری ہورہی ہیں، تمام سیاسی جماعتیں اپنے اقتدار کیلئے عوام کو بیوقوف بنا رہی ہیں، لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پی ڈی ایم اپنا آخری بجٹ مئی میں ہی پیش کرے اور اس کے بعد قومی اور دوسری صوبائی اسمبلیاں تحلیل کردی جائیں اور متفقہ طورپر جولائی 2023ء کو جنرل الیکشن کروا دیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button