Columnمحمد مبشر انوار

مافیائی قانون سازی .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار(ریاض)

قارئین کرام! گزشتہ تحریر سپریم کورٹ پراسیس اینڈ پروسیجر بل سے قبل لکھی تھی مگر نجانے کس طرح ادارے کو ای میل بھیجتے ہوئے لف نہ ہو سکی اور تقریبا ڈیڑھ ہفتہ بعد آج بھی اس تحریر کو نذر کرنا مناسب محسوس کرتا ہوں کہ اس قانون کے حوالے سے میرے خیالات قارئین تک پہنچنے چاہئیں، آئین و قانون کی پاسداری کے حوالے سے میرا نام بھی ان پاکستانیوں کے ساتھ ہی لکھا جائے، جو ملک میں آئین و قانون کی بالادستی چاہتے ہیں۔ اس دوران رمضان کے آخری عشرے میں چند دن سرکار دو عالمؐ کی بارگاہ میں حاضری رہی، اس پر بعد میں حسب سابق معمول کے ساتھ لکھوں گا، ان شاء اللہ، دوران حاضی، اپنے لئے، عزیز و اقارب کے لئے، امت مسلمہ و مسلم ریاستوں کے لئے اور بالخصوص پاکستان کی سلامتی و استحکام کے لئے دعائیں کی ہیں، اللہ رب العزت قبول فرمائے۔ حکمرانوں کے حوالے سے قانون قدرت انتہائی سخت ہیں اور اسی طرح ان کے لئے جزا کے وعدے بھی اللہ رب العزت کے جانب سے انتہائی پر کشش ہیں کہ ایسا حکمران جس کی زندگی میں رعایا کے حقوق کا تحفظ ہوا ہو، عدل و انصاف کا دور دورہ رہا ہو، آخرت میں اس کا مقام شہداء کے برابر ہوگا۔ یہ وعدہ اس خالق کائنات کا ہے کہ جس کے وعدوں سے انکار ممکن ہی نہیں اور نہ ہی اس کی حقانیت میں کوئی دو رائے ہے، رائے تو دور کی بات اس پر شک کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں بشرطیکہ انسان کا ایمان اللہ رب العزت پر ہو۔ دوسری طرف بنی آدم کے خمیر میں یہ عنصر بھی بخوبی موجود ہے کہ اس میں بغاوت، نافرمانی کا عنصر ہے جو اس کو مسلسل راہ راست سے ہٹانے اور قوانین کے خلاف جانے پر اکساتا ہے، اس کے خلاف جدوجہد انسان کو فرشتوں سے برتر جبکہ اس کی اطاعت اسے ابلیس سے بدتر بنا دیتی ہے۔ اس کا اختیار اللہ رب العزت نے بنی آدم کو دے رکھا ہے کہ وہ کس راستے کا انتخاب کرتا ہے البتہ بنی آدم کو عقل سلیم عطا کر کے اشرف المخلوقات کا درجہ اسی لئے دیا ہے کہ وہ اللہ کے احکامات، صراط مستقیم اور شیطانی وسوسوں کے ساتھ ساتھ حرص و ہوس کے خلاف برسر پیکار رہتے ہوئے اپنا تزکیہ نفس کرے۔ اگر انسان اپنی عقل سلیم کو بروئے کار نہیں لاتا اور دنیاوی آلائشوں میں خود کو دھنسا دیتا ہے،ت و ممکن ہے کہ دنیا تو اسے مل جائے لیکن آخرت میں اس کا حصہ نہیں ہو گا، رہی بات دنیا کی تو دنیا میں بھی اگر اس نے کسی دوسرے کا حق کھایا ہے تو اس کی پکڑ مختلف صورتوں میں اس کو مصائب و آلام کی شکل یا بے سکونی کی صورت میں بھگتنی پڑے گی، کہ یہی اللہ رب العزت کا فیصلہ عدل ہے۔ الگ بات کہ ساری دنیا میں رسوا ہونے کے باوجود انسان اس حقیقت کو نہ سمجھے اور اپنی ہوس میں دوسروں کے حقوق، اپنی حیثیت کے مطابق سلب کرتا رہے، دھوکہ دہی کرتا رہے یا فراڈ کا ارتکاب کرتا رہے، اس کی عقل پر پردے رہیں اور اپنی رسوائی کو اپنے اعمال کا صلہ نہ سمجھے اور اپنی بد خصلت کا مظاہرہ کرتا رہے۔ نیک طینت افراد اپنی فطری طبع کے عین مطابق صراط مستقیم پر چلتے رہتے ہیں جبکہ بد طینت و بد خصلت لوگ ہر موقع پر اپنی بد خصلت کا مظاہرہ کرنے میں تامل سے کام نہیں لیتے بلکہ ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ان کے نزدیک آفاقی قوانین ہوں یا دنیاوی، ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ ان کی فطرت میں قانون کی خلاف ورزی شامل ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف انہیں ایسے حالات میسر ہوتے ہیں کہ جن کی بدولت ان پر گرفت کا بظاہر کوئی امکان نہیں ہوتا یا وقتی طور پر قانون کے شکنجے میں پھنستے ہیں اور درون خانہ ریاستی مشینری کے ساتھ ساز باز کرتے ہوئے، قانون کے جالے سے نکل جاتے ہیں۔ بااختیار لوگوں کے لئے تو قانون کی حیثیت مکڑی کے جالے سے بھی کم ہے کہ ان کی سیاسی و سماجی حیثیت قوانین سے کئی گنا زیادہ طاقتور نظر آتی ہے، ریاستی مشینری و ادارے، ہاتھ باندھے ان کے در پر کھڑے نظر آتے ہیں کہ کسی طرح ایسے افراد کی مشکل وقت میں مدد کر کیان کی نظروں میں اپنی اہمیت بنائی جائے اور بعد ازاں ان کے دوبارہ اختیار حاصل کرنے پر انعام و اکرام حاصل کیا جائے۔ ایسے بااختیار افراد کبھی بھی ریاستی مشینری یا اداروں کو جیب سے انعام و اکرام دینے کے حق میں نہیں بلکہ نانا جی کی فاتحہ بھی حلوائی کی دکان پر کرواتے نظر آتے ہیں، بعینہ اس کے مصداق جن کے ساتھ گٹھ جوڑ یا سازباز کر رکھی ہوتی ہے، انہیں ریاستی وسائل سے یوں نوازا جاتا ہے کہ نہ صرف اپنی تجوریاں بھرتی رہیں بلکہ ان کی چونچ بھی گیلی ہوتی رہی۔ ریاستی مشینری کے یہ افراد تقرر، تعیناتی اور ٹرانسفر کے بدلے ریاستی و عوامی مفادات کے سودے بلکہ ریاستی مفادات کو بیچتے نظر آتے ہیں، یوں چند خاندانوں کے منظور نظر بننے اور ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر ریاست کا وجود خطرے کی نذر ہو جاتا ہے۔ پاکستانی اشرافیہ پر نظر دوڑائیں تو ایک خوبصورت، سخت جدوجہد، قربانیوں اور اخلاص کے نتیجہ میں معرض وجود میں آنے والی ریاست کو اس کی اشرافیہ نے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ اس ریاست کا ایک ایک عضو چھلنی اور ہر مسام سے خون رستا ہوا نہ صرف پاکستانی عوام کو بلکہ ساری دنیا کو نظر آرہا ہے ماسوائے اس کی اشرافیہ کہ جس کو چھلنی چھلنی ریاست نظر نہیں آ رہی اور ہنوز اس کے ہڈیوں سے گودا تک نچوڑنے میں مصروف عمل ہے۔ معاشی و سماجی صورتحال اس قدر بدتر ہو چکی ہے کہ اکثریت یہاں سے ہجرت کر رہی ہے اور دیار غیر میں سکون و روزگار کی تلاش میں ملک چھوڑ رہی ہے، ریاستی معاشی پالیسیوں کے نتیجہ میں، خیر ریاستی معاشی پالیسیاں کہیں نظر نہیں آتی کہ ہر جگہ حکمرانوں کی ذاتی معاشی پالیسیاں ہی ترجیح ہیں اور انہی کا تحفظ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے، ہر وہ زبان، وہ سوچ جو ایسی پالیسیوں کی ناقد ہے اسے خاموش کرایا جا رہا ہے، ریاستی جبر اتنا واضح نظر آ رہا ہے کہ مخالف توانا آواز، خواہ کسی سیاست دان کی ہو یا کسی صحافی یا کسی وکیل کی، اسے راہ راست سے ہٹانے یا خاموش کرنے کے لئے ریاستی جبر بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ من مرضی کے قوانین، کہ جن سے صرف اشرافیہ کا اپنا گلا محفوظ ہوتا ہو، دھڑا دھڑ ایسے بنائے جارہے ہیںکہ جیسے ٹکسال میں سکے ڈھالے جا رہے ہوں، تمام تر اداروں کے سربراہ ایسے افراد کو تعینات کیا جارہا ہے کہ جو حکمرانوں کے سامنے سر تو کیا نظر اٹھانے کی ہمت تک نہیں کر سکتے اور ایسی تعیناتیوں کے بعد، ان اداروں کے اختیارات ایسے سلب کئے جا رہے ہیں کہ ان کی سختی بالکل ختم ہو جائے اور حکمران کھلم کھلا بدعنوانیاں کرتے رہیں لیکن کوئی قانون انہیں روک نہ سکے۔ گو کہ ایسی صورت میں بالعموم یہ عدالتوں کا فرض ہے کہ ریاست کے آئین کے مطابق ٹھوس اور سخت فیصلے دے ، آئین پر کسی قسم کا سمجھوتہ ریاست کو اس کی ڈگر سے ہٹا دیتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں آئین کی تشکیل بہت تاخیر سے ہوئی اور اس سے قبل ہی ریاست میں آئین کی عدم موجودگی کے باعث کئی ایک مقامات پر ’’ نظریہ ضرورت ‘‘ کا سہارا لے کر اشرافیہ کو سہولت فراہم کی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کیا سول اور کیا آمریت ہر دو طرز حکومت میں حکمرانوں کی نظریں دیگر اداروں کی طرح عدلیہ پر بھی گڑی نظر آتی ہیں۔ صرف عدلیہ ہی کیا آزادی اظہار رائے کے بنیادی حق کو حرص و لالچ و ہوس کے ساتھ ساتھ بزور، سلب کرنے کی کوششیں بھی واضح نظر آتی ہیں، حق بات کہنے والوں کے لئے زمین تنگ کردی جاتی ہے، چھوٹی سی تنقید پر توہین کا اطلاق ہو جاتا ہے اور مقدمات کی بھرمار ہوجاتی ہے جبکہ مراعات یافتہ بے شک نام و رتبے کے ساتھ تنقید ہی نہیں تضحیک بھی کریں، کسی کی کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ بہرکیف یہ ایک ایسی ریاست کا حال ہے کہ جہاں جمہوریت کی گردان کرتے حکمرانوں کی زبان نہیں تھکتی ، ’’ ووٹ کو عزت دلوانے‘‘ والوں کا عمل اس کے کلی برعکس نظر آتا ہے جبکہ موجودہ دور میں تو ملوکیت والی ریاستوں میں عوامی حقوق کا تحفظ پاکستان جیسی جمہوری ریاست کے کہیں بہتر دکھائی دیتا ہے کہ وہ کم از کم جو قانون بناتے ہیں، ان پر عمل پیرا بھی نظر آتے ہیں اور قانون سے بالا خال ہی کوئی نظر آتا ہے۔ البتہ یہ حقیقت اپنی جگہ کہ ملوکیت طرز حکومت میں بھی اب قانون سازی میں بہرکیف ریاستی و عوامی مفاد کو ترجیح دی جاتی ہے اور بالخصوص کرپشن کے معاملے پر سمجھوتے خال ہی نظر آتے ہیں اور قاضی کے اختیارات پر بھی سمجھوتہ کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان میں موجودہ حکمران نام تو جمہوریت کا لیتے ہیں لیکن قوانین کے نام پر جو اودھم اس دور میں مچا ہے، اس کی نظیر ماضی میں کم ہی نظر آتی ہے بہرحال اس وقت حکومت کی نیت بری طرح عیاں ہو چکی ہے کہ وہ گلیاں سنجیاں چاہتی ہے، جہاں وہ من مرضی کر سکے۔ اس ضمن میں کچھ مافیائی قوانین یہ حکومت گو بنا چکی ہے لیکن ان پر حتمی فیصلہ ہنوز عدالت عظمی کی طرف سے آنا باقی ہے، جبکہ حکومت قبل از وقت ہی عدالتی اختیارات پر مزید قدغن لگانے کا سوچ رہی ہے۔ عدلیہ میں بیٹھے معزز ترین ججز، کہ جن کے خیال میں پارلیمنٹ سپریم ہوتی ہے اور اسے قوانین بنانے کے اختیار ہے، یقینی طور پر برطانوی پارلیمنٹ کے اختیارات سے مرعوب یا متاثر ہونگے لیکن پاکستان میں پارلیمنٹ کا معیار ابھی اتنا بلند نہیں ہوا کہ ہمارے اراکین پارلیمنٹ اس سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کر سکیں لہذا ان پر عدالتی نظر ثانی ایک موثر چیک ہو سکتا ہے تاکہ وہ آئین کے بنیادی خدوخال سے باہر جا کر قانون سازی نہ کر سکیں۔ اگر عدالت عظمی کے معزز جج صاحبان اس سوچ پر قائل ہوں تو یقینی طور پر کئی ایک ایسے قانون کہ جن کا بادی النظر میں مقصد دوسرے اداروں کے اختیارات سلب کرتے ہوئے اپنے لئے تمام راہیں کھولنا ہے، کالعدم قرار دئیے جا سکتے ہیں وگرنہ بصورت دیگر ایسے مافیائی قوانین بننے سے پاکستان کا تاثر ایک بنانا ریاست کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا جہاں مافیا اور مافیائی قوانین کا راج ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button